وہ شخص جنھیں بی اے کی ڈگری مکمل کرنے میں 54 برس لگے: ’میری بیٹی کہتی ہے کہ اب مجھے ایم اے کرنا چاہیے‘
وہ شخص جنھیں بی اے کی ڈگری مکمل کرنے میں 54 برس لگے: ’میری بیٹی کہتی ہے کہ اب مجھے ایم اے کرنا چاہیے‘
- مصنف, ندین یوسف
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹورنٹو
کینیڈا میں اپنی پڑھائی شروع کرنے کے لگ بھگ 50 سال بعد آرتھر راس گذشتہ دنوں یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا (یو بی سی) کے سٹیج پر پہنچے جہاں انھیں بیچلرز آف آرٹس (بی اے) کی ڈگری سے نوازا گیا۔
71 سال کے آرتھر راس وینکوور کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل قرار پانے والے ’سب سے سُست‘ طالبعلم سمجھے جا رہے ہیں۔ انھیں بی اے کی ڈگری مکمل کرنے میں 54 برس لگے اور خیال ہے کہ یہ عالمی ریکارڈ ہو سکتا ہے۔
وہ ممکنہ طور پر گینیز ورلڈ ریکارڈ ہولڈر رابرٹ کرونن کو شکست دے سکتے ہیں جنھوں نے اپنی ڈگری 52 برس میں مکمل کی تھی۔ انھوں نے پرنسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کی ڈگری کے لیے سنہ 1948 میں داخلہ لیا تھا اور سنہ 2000 میں فارغ التحصیل ہوئے تھے۔
تاہم آرتھر راس کہتے ہیں کہ انھیں عالمی ریکارڈ کا اعزاز حاصل کرنے میں کوئی جلدی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل انعام وہ علم ہے جو انھوں نے یونیورسٹی میں حاصل کیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’میں بس سیکھنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے بہت تجسس تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ سیکھنے کی خواہش نے ہی انھیں اتنے سال بعد ڈگری مکمل کرنے کے لیے متاثر کیا۔
مسٹر راس نے سنہ 1969 میں یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا میں داخلہ لیا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب امریکہ نے اپنا پہلا شہری چاند پر اُتارا تھا اور معروف بینڈ ’دی بیٹلز‘ اپنی البم ’ایبے روڈ‘ ریلیز کرنے ہی والے تھے۔
ہائی سکول سے نکلنے کے بعد اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے۔ راس نے کیمپس پر تھیٹر کلب میں شمولیت اختیار کی اور ان پر اداکاری کا جنون سوار ہو گیا۔
یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا میں صرف دو سال گزارنے کے بعد راس نے کیریئر بدلنا چاہا۔ وہ مانٹریل چلے گئے جہاں انھوں نے نیشنل تھیٹر سکول میں پڑھنا شروع کر دیا۔
وہاں انھوں نے اپنی تعلیم ضرور مکمل کی جس کے بعد انھیں کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔ اس کے بعد راس کو احساس ہوا کہ وہ دراصل اداکار بننا نہیں چاہتے۔
آرتھر راس کی نوجوانی کی تصویر
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا ’شاید مجھے لا سکول جا کر وکیل بننا چاہیے۔‘ یہ ہر اس شخص کے لیے آخری راستہ ہوتا ہے جسے سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘
راس واپس یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا گئے اور وہاں تین سال پورے کیے، جو کہ لا سکول میں داخلے کی شرط تھی۔ ان کا داخلہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے لا سکول میں ہوا جہاں انھوں نے جیورس ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی۔
انھوں نے 35 سال پر محیط وکالت کے کامیاب کیریئر کے بعد سنہ 2016 میں ریٹائرمنٹ لے لی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب راس نے فیصلہ کیا کہ انھیں وہ کام مکمل کرنا ہے جو انھوں نے قریب پانچ دہائیاں قبل شروع کیا تھا۔ ’یہ ہمیشہ سے میرے ذہن میں تھا کہ شاید کسی دن میں واپس یونیورسٹی جاؤں گا اور اپنی ڈگری مکمل کروں گا۔‘
راس نے اپنی رفتار اپنے مطابق ہی رکھی اور گریجویشن تک ایک وقت میں صرف ایک کورس پر دھیان دیا۔
انھوں نے پہلی عالمی جنگ پر مبنی 1909 کا ایک جرمن اوپرا دیکھنے کے بعد تاریخ کے موضوع پر توجہ دینا شروع کر دی۔ ’یہ وقت کا ضیاع نہیں جب آپ ایک وقت میں ایک چیز پڑھیں جس میں آپ کی دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ مجھے ایک موقع پیش کیا گیا اور میں نے اس کا بھرپور لطف حاصل کیا ہے۔‘
جب راس اتنے سال بعد یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا واپس آئے تو بہت سی چیزیں بدل چکی تھیں جیسے کیمپس بڑا ہو گیا تھا اور ریٹائر ہونے کی وجہ سے ان کی یونیورسٹی ٹیوشن فیس مفت تھی۔
ٹیکنالوجی بھی کافی آگے جا چکی تھی جس کی مدد سے کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران انھوں نے کچھ کلاسز آن لائن حاصل کیں۔
راس کہتے ہیں کہ اس تجربے نے انھیں یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا کے اساتذہ اور ساتھی طلبہ نے بہت متاثر کیا جو عالمی وبا کی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود پڑھائی میں مگن رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس نے انھیں نقصان پہنچایا مگر انھوں نے اپنا کردار ظاہر کر کے کہا ’ٹھیک ہے، ہمیں اب چیزیں مختلف انداز میں کرنا ہوں گی‘۔‘
چھ سال تک ڈگری پر محنت کرنے کے بعد راس بڑے جذبے سے سٹیج پر گئے اور اپنی کامیابی قبول کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے سب بچوں کی گریجویشن کی تقریبات میں جا چکا ہوں۔‘ اب ان کے خاندان کی باری ہے کہ وہ ان کے ساتھ جشن منائیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ آگے کیا کرنے کا سوچ رہے ہیں، تو مسٹر راس نے کہا کہ وہ کسی جلدی میں نہیں بلکہ اطمینان سے اس کا فیصلہ کریں گے۔
’میری بیٹی کہتی ہیں کہ اب مجھے کہیں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنی چاہیے۔ لیکن میں صبر کر کے مزید دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتنی دور آ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔‘
Comments are closed.