وہ شخص جس نے ریپ کے اس الزام میں 17 سال جیل کاٹی، جو اس نے کیا ہی نہیں تھا
اینڈریو مالکنسن اپنے گاؤں میں تھے جب سنہ 2003 میں پولیس نے انھیں ریپ اور قتل کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا تھا جو دو ہفتے قبل شمال مغربی انگلینڈ میں مانچسٹر کے مضافات میں پیش آیا تھا۔
انھوں نے بار بار تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ بے قصور ہیں، حتیٰ کہ وہ اس تصویر کی طرح دکھائی بھی نہیں دیتے تھے جو پولیس نے متاثرہ خاتون کی مدد سے مشتبہ شخص کی بنائی تھی۔
خاتون نے یہ بھی بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے حملہ آور کے چہرے کو نوچ لیا تھا لیکن مالکنسن کے چہرے پر کوئی نشان نہیں تھا اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ زخمی ہوئے۔
ان کا ڈی این اے اور نہ ہی دیگر فرانزک شواہد انھیں متاثرہ خاتون یا مقام سے منسلک کرنے کے لیے ملے تھے۔
وہ مشتبہ شخص کی تفصیل سے لمبے قد کے تھے اور ان کے بازوؤں پر نمایاں ٹیٹو بھی تھے، جن کا متاثرہ خاتون نے ذکر نہیں کیا تھا۔
مالکنسن کی خصوصیات میں سے کوئی بھی خصوصیات مشتبہ ملزم سے نہیں ملتی تھیں اور اس لیے انھوں نے اپنی بے گناہی پر یقین رکھتے ہوئے شناخت پریڈ سے گزرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن متاثرہ خاتون نے انھیں شناحت کیا۔
مالکنسن نے اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے محسوس کیا میرے پیروں تلے سے زمین نکل رہی تھی۔‘
انھوں نے محسوس کیا کہ حالات اور ان کے آس پاس موجود ہر شخص ان کے خلاف سازش کر رہا تھا۔
مالکنسن کہتے ہیں کہ ’میں ایک طرح سے مفلوج تھا۔ یہ سست رفتار میں ایک کار حادثے کی طرح تھا۔‘
فروری 2004 میں ان کی عمر قید کی سزا کا فیصلہ کثرت رائے سے سنایا گیا اور وہ صرف اتنا کر سکتے تھا کہ عدالت میں چیخیں ماریں کہ وہ بے قصور ہیں۔
مالکنسن کی تصویر جب انھیں گرفتار کیا گیا تھا اور مشتبہ شخص کی الیکٹرانک تصویر
’میں جھوٹ نہیں بولوں گا‘
اگر مالکنسن ریپ کا اعتراف کرتے تو وہ بحالی کے پروگرام میں داخل ہو سکتے تھے اور ایک ماہر نفسیات سفارش کر سکتا تھا کہ انھیں سات سال کی کم از کم سزا کاٹنے کے بعد رہا کر دیا جائے۔
لیکن مالکنسن نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ ’وہ ایک معصوم آدمی سے غلط اعتراف کرنے کے لیے کہہ رہے تھے، تھراپی کی آڑ میں ایک جھوٹا اعتراف۔‘
اس جرم کو تسلیم کرنے سے انکار پر جس کا انھوں نے ارتکاب نہیں کیا تھا، انھیں 17 سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا اور بالآخر دسمبر 2020 میں انھیں لائسنس پر رہا کر دیا گیا۔
مالکنسن کے لیے جیل سے رہا ہونا کافی نہیں تھا اور اسی لیے انھوں نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے لڑائی جاری رکھی۔
سزا کے خلاف اپیل کرنے کی ان کی تمام سابقہ کوششوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
حالیہ برسوں میں حاصل کی گئی تکنیکی ترقی کی بدولت، ان کی قانونی ٹیم متاثرہ خاتون کی قمیض پر پائے جانے والے ڈی این اے کے نئے نمونے کی شناخت کرنے میں کامیاب رہی۔ وہ ڈی این اے کسی اور آدمی کا تھا۔
نئے شواہد دیکھتے ہوئے برطانیہ کے کریمنل کیس ریویو کمیشن نے عدالت سے کہا کہ وہ کیس کا دوبارہ جائزہ لے۔
اس جمعرات کو 20 سال بعد مالکنسن کی ریپ کی سزا کو منسوخ کر دیا گیا۔ پولیس اور اس کیس میں شامل مختلف عدالتوں اور عدالتی اداروں نے تسلیم کیا کہ یہ ’سنگین عدالتی غلطی‘ تھی۔
’میں بے قصور تھا اور آخر کار انھوں نے میری بات سنی۔‘ یہ مالکنسن کے الفاظ تھے جب وہ عدالت سے نکلے جہاں ان کی سزا کو کالعدم کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اپنے اغوا کاروں کو مجھے چھوڑنے پر راضی کرنے میں تقریباً 20 سال لگے ہیں۔‘
زندگی کا بلیک ہول
مالکنسن، جو اب 57 سال کے ہیں، اس ڈراؤنے خواب جیسے وقت کو یاد کرتے ہیں۔
’جب جیوری آپ کو مجرم قرار دیتی ہے لیکن آپ مجرم نہیں تو حقیقت نہیں بدلتی۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ نے جرم نہیں کیا لیکن آپ کے ارد گرد ہر کوئی ایک جھوٹی تصوراتی کائنات میں رہنا شروع کر دیتا ہے اور آپ کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے جیسے آپ مجرم ہو۔‘
’اب جبکہ آخرکار مجھے بری کر دیا گیا ہے، مجھے بغیر کسی معافی کے، بغیر کسی وضاحت کے، بغیر نوکری کے، بغیر گھر کے اس کمرہ عدالت سے باہر پھینک دیا گیا ہے اور مجھ سے توقع کی جاتی ہے کہ میں اس بڑے بلیک ہول کو تسلیم کیے بغیر دنیا میں واپس جاؤں گا۔ جو مجھ میں کھول دیا گیا ہے۔‘
’ایک بلیک ہول میرے اندر اتنا بڑا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ مجھے نگل لے گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ لوگ جو ریپ کے مرتکب ہوئے ہیں وہ سب سے گھٹیا ہیں۔ میں نے جرم نہیں کیا لیکن انھوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے یہ میں نے کیا تھا‘
’سترہ سال تک مجھے لگا کہ میں قید میں ہی مر جاؤں گا، شاید قتل کر دیا جاؤں گا لیکن کسی نہ کسی طرح میں زندہ رہا۔‘
جس الزام میں مالکنسن نے سزا کاٹی اب اس جرم کی دوبارہ تفتیش جاری ہے۔
Comments are closed.