- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق
- 40 منٹ قبل
عربی میں حرف ’پ‘ نہیں، سو ہندوستانی روپے کو تو گھونگھوں سے موتی نکالتے خلیج کے عرب مچھیروں نے روبیا کہہ لیا لیکن اس کا کیا کیجیے کہ برطانوی حکمران کی تصویر والے کاغذ کے اس ٹکڑے میں نہ سونے کے عثمانی سکے جیسی چمک تھی نہ چھونے، گننے اور جمع کر کے رکھنے میں ویسا مزہ اور اعتماد اور بھیگ گیا تو ضائع۔موتیوں کے عرب تاجروں کے بیان میں لنڈا شلچر لکھتی ہیں کہ سونے کے سکے نہ صرف زر مبادلہ کا ذریعہ تھے بلکہ دولت اور تحفظ کی علامت بھی تھے۔’سونے کے سکوں کی گنتی ہوتی اور ہر لین دین میں وزن کیا جاتا، سامان خریدنے سے لے کر قرضوں کے تصفیہ تک۔‘خلیجی ریاستوں کی معیشتوں کی تبدیلی کا احاطہ کرتی اپنی تحریر میں انتھونی بی ٹوتھ بتاتے ہیں کہ کیسے ابوظہبی کے ایک چھوٹے تجارتی مقام پر احمد نامی تاجر ایک برطانوی افسر سے روپے لینے سے انکار اور سونے کے سکوں پر اصرار کرتے ہیں۔
افسر ان کی ہچکچاہٹ کو سمجھتے ہوئے احمد کے سامنے دوسرے تاجروں سے روپے کے بدلے سامان خریدتے ہیں۔اس مظاہرے سے قائل ہو کر ہی احمد نے کاغذی کرنسی پراعتماد کیا۔یہی مسئلہ بیسویں صدی کے اوائل میں دبئی کے موتیوں کے ایک تاجرعبداللہ کا بھی تھا، جن کی کہانی ان زبانی روایات میں سے ایک ہے جو دبئی میوزیم آرکائیوز نے جمع کی ہیں۔عثمانی سونے کے سکوں میں تجارت کرنے کے بعد عبداللہ کو ابتدائی طور پر نئی کاغذی کرنسی ہندوستانی روپے پر شک تھا۔ ایسی ہی ہچکچاہٹ بہت سے اور تاجروں میں بھی تھی جنھیں خدشہ تھا کہ کاغذی کرنسی سونے جیسی قیمتی نہیں۔ایک دن عبداللہ کو اپنے موتیوں کے بدلے ایک اہم پیشکش ملی لیکن ادائیگی ہندوستانی روپے میں تھی۔ نئی کرنسی کو قبول کرنے یا معاہدہ کھونے کے انتخاب کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پر اتفاق کر لیا۔ آہستہ آہستہ دوسرے تاجر بھی ان کی پیروی کرنے لگے۔16ویں صدی میں خلیج کے کچھ حصوں میں عثمانی توسیع کے ساتھ شروع ہونے والا سونے کے سکوں کا دور پہلی عالمی جنگ کے بعد اس سلطنت کے ختم ہوتے ہی سمٹ گیا تھا لیکن خلیج کے یہ تاجر اس سے پہلے اور 10ویں صدی کے بعد سے جو کرنسی استعمال کر رہے تھے اسے کہیں لٹکانا بھی آسان تھا اور لے جانا بھی۔چاندی کے تار سے مچھلی پکڑنے کے کانٹے کی شکل میں بنی ہرمز لارین سے فارس، ہندوستان اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تجارت ہوتی تھی جس کا مشاہدہ مراکش کے سیاح ابن بطوطہ نے 14ویں صدی میں اپنے سفر کے دوران میں بھی کیا۔بیسویں صدی کے اوائل میں سلطنت عثمانیہ کے زوال نے خلیج کے مالیاتی نظام میں ایک خلا پیدا کر دیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
خلیجی روپیا کا دور
سنہ 1959 تک برطانیہ نے خلیجی روپیا متعارف کرا دیا۔یہ کرنسی خاص طور پر خطے میں ٹروشل سٹیٹس (متحدہ عرب امارات کی پیشرو الامارات المتصالحہ) اور برطانیہ کے زیرانتظام ریاستوں کویت، بحرین، عمان اور قطر کے لیے بنائی گئی تھی۔ٹروشل سٹیٹس خلیج فارس (جنوب مشرقی عرب) کے جنوب میں قبائلی کنفیڈریشنز کا ایک گروپ تھا جس کے رہنماؤں نے 1820 اور 1892 کے درمیان برطانیہ کے ساتھ حفاظتی معاہدوں یا جنگ بندی پر دستخط کیے تھے۔بحرین 1861 میں برطانوی پروٹیکٹوریٹ بنا۔ کویت نے سنہ 1899 میں برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد کویت کو عثمانی اثر و رسوخ اور دیگر بیرونی خطرات سے محفوظ بنانا تھا۔قطر 1916 میں برطانوی نگرانی میں آیا، برطانیہ اس کے خارجہ امور اور دفاع کا انتظام کرتا تھا۔ کویت1961 میں مکمل آزاد ہوا۔ قطر اور بحرین نے سنہ 1971 میں برطانیہ سے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ عمان کبھی باضابطہ برطانوی نگرانی میں نہیں تھا لیکن برطانیہ نے 19ویں صدی کے اوائل سے شروع ہونے والے معاہدوں کے ذریعے خاص طور پر ساحلی علاقوں اور سمندری امور پر خاصا اثر و رسوخ استعمال کیا۔عمان نے کافی حد تک خود مختاری برقرار رکھی لیکن 1970 میں سلطان قابوس کے تحت اپنی آزادی کا دوبارہ دعویٰ کیا۔ہندوستانی روپے سے جڑا خلیجی روپیا غالب کرنسی بن گیا تاہم یہ استحکام تھوڑی مدت کے لیے تھا۔ 1966 میں انڈیا نے روپے کی قدر میں کمی کی تو خلیج میں اقتصادی بحران پیدا ہو گیا۔ٹروشل ریاستیں اور دیگر خلیجی ممالک متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ ان کے ذخائر کی قدر راتوں رات گر گئی تھی۔میلکم سی پیک نے ’یونائیٹڈ عرب ایمریٹس: اے وینچر ان یونٹی‘ میں لکھا کہ ’انڈین روپے کی قدر میں کمی خلیجی ریاستوں کے لیے ایک اہم لمحہ تھا۔ اب انھیں تیزی سے اقتصادی اور مالیاتی اصلاحات کی ضرورت تھی۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
محتلف کرنسیوں کا عبوری دور
ٹروشل ریاستوں نے فوری بحرینی دینار اور قطری اور دبئی ریال کو عبوری کرنسیوں کے طور پر متعارف کرا دیا۔یہ عبوری دور غیر یقینی صورتحال اور خطے کی بڑھتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک مستحکم، متحد کرنسی کی ضرورت سے عبارت تھا۔انتھونی بی ٹوتھ ’دی ٹرانسفرمیشن آف گلف سٹیٹس اکانومیز‘ میں کہتے ہیں کہ ’اس دور میں متعدد کرنسیوں کو گردش میں دیکھا گیا، جو خطے کی مستحکم اقتصادی بنیادوں کی تلاش کی عکاسی کرتا ہے۔‘
متحدہ عرب امارات اور درہم
یکم دسمبر 1971 کو معاہدوں کی منسوخی تک ٹروشل ریاستیں غیر رسمی طور پر برطانیہ کے زیرانتظام رہیں۔ اگلے دن شیخوں کی ریاستوں میں سے چھ دبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین اور فجیرہ نے متحدہ عرب امارات کی تشکیل کی۔ ساتویں راس الخیمہ نے 10 فروری 1972 کو شمولیت اختیار کی۔اس اتحاد نے ایک متحد قومی کرنسی کی راہ ہموار کی۔ 1973 میں متحدہ اماراتی درہم متعارف کرایا گیا، جس سے ملک کی معیشت میں استحکام اور ہم آہنگی آئی۔درہم سے نہ صرف مقامی تجارت کو سہولت ملی بلکہ متحدہ عرب امارات کو مشرق وسطیٰ میں ایک فروغ پاتے اقتصادی مرکز کا مقام بھی ملا۔لنڈا شلچر کا کہنا ہے کہ درہم کا تعارف متحدہ عرب امارات کی معیشت کو متحد کرنے میں ایک اہم قدم تھا۔چارلس اساوی نے فصاحت کے ساتھ ’خلیج کی تاریخی ترقی: موتیوں سے تیل تک‘ میں لکھا کہ ’خلیج کی اقتصادی تاریخ موافقت اور لچک کی کہانی ہے، جس میں ہر مالیاتی تبدیلی، تبدیلی اور پیشرفت کے وسیع بیانیے کی عکاسی کرتی ہے۔‘اساوی کے مطابق 1973 میں متحدہ عرب امارات کے درہم کا تعارف خلیج کی مالیاتی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا۔’درہم نے تیزی سے متحدہ عرب امارات کی متنوع معیشت کو یکجا کر دیا اور استحکام کا باعث بنا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.