وہ ’خوفناک برہنہ سادھو‘ جنھوں نے انڈیا فتح کرنے میں انگریزوں کی مدد کی
19 ویں صدی میں ایک ناگا سادھو کی تصویر کشی
- مصنف, سوتک بسواس
- عہدہ, بی بی سی نمائندہ انڈیا
انھیں ایک خوفناک کمانڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو پیدل اور گھوڑے پر سوار بے خوف، برہنہ جنگجوؤں کی ایک نجی فوج کی قیادت کر رہے تھے اور توپوں سے لیس میدان جنگ میں جاتے تھے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ انوپ گیری گوسائیں ایک ایسے شخص بھی تھے جنھوں نے ہندو دیوتا شیو کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی یعنی وہ ایک برہنہ سادھو تھے، جنھیں انڈیا میں مقدس سمجھا جاتا ہے اور ان کا احترام کیا جاتا ہے۔
یہ الجھے گندے بالوں والے برہنہ سادھو جو اپنے جسم پر کپڑے کی جگہ راکھ ملتے ہیں اور ہندو مذہب کا ایک نمایاں فرقہ ہیں اور اکثر دنیا کے سب سے بڑے مذہبی تہوار کمبھ میلے میں دیکھے جاتے ہیں۔
’واریئر ایسیٹکس اینڈ انڈین ایمپائرز‘ کے مصنف ولیم آر پِنچ کے مطابق ناگاؤں کی وجہ شہرت ان کا ’خوفناک اور بے قابو‘ ہونا تھی۔
ولیم آر پِنچ کہتے ہیں کہ آج کے زمانے سے واضح فرق یہ ہے کہ 18ویں صدی کے ناگا ’اچھی طرح سے مسلح اور نظم و ضبط والے‘ ہوتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ’بہترین گھڑ سوار‘ ہوتے تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر جیمز سکنر نے 19ویں صدی کے اوائل میں ایک برہنہ سپاہی کی تصویر بنوائی تھی۔ اس میں ایک آدمی کی تصویر کشی کی گئی، جو ننگے پاؤں ہے اور اس کے بدن پر صرف چمڑے کی پٹی لپٹی ہوئی ہے جو اس کی کرپان گولہ بارود سے بھری ہے۔
اس کے بال گھنے اور چوٹیا گندھی ہوئی ہے جو اس کے سر کے ارد گرد ایک حفاظتی ہیلمٹ کی طرح لگتی ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں ایک لمبے بیرل والی بندوق ہے اور ماتھے پر سندور کا تلک ہے جو کہ علامتی شان کا غماز ہے۔
پنچ کے مطابق: ‘ناگا اچانک حملے کرنے والے فوجیوں اور دو بدو لڑائی میں اچھی طرح لڑنے کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ انوپ گیری کی قیادت میں وہ ایک مکمل پیادہ اور گھڑسوار فوج کے طور پر تیار ہوئے جو بہترین جنگجوؤں سے مقابلہ کر سکتے تھے۔’
1700 کی دہائی کے آخر میں انوپ گیری اور اس کے بھائی امراؤگیری نے 20,000 سے زیادہ مردوں کی کمانڈ کی۔ 18ویں صدی کے آخر تک توپ اور گولے سے لیس سنیاسی سپاہیوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔
برہنہ سادھو سنیاسی اپنے چیلے کے ساتھ
مصنف اور مورخ ولیم ڈیلریمپل نے انوپ گیری کو ایک ‘خوفناک برہنہ کمانڈر’ کے طور پر بیان کیا ہے جسے مغلوں کا خطاب ‘ہمت بہادر’ دیا گیا تھا۔
انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ پر مبنی کتاب ‘ انارکی’ میں ڈیلرمپل ایک مغل کمانڈر مرزا نجف خان کی فوج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ایک مختلف طبقے کے فوجی شامل تھے جو ‘خوفناک ناگا سادھو’ انوپ گیری گوسائیں کی قیادت میں چھ ہزار جنگجوؤں اور 40 توپوں کے ساتھ پہنچے تھے۔
انوپ گیری کی خدمات کا ایک حوالہ اور بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ سوار اور پیدل افراد پر مشتمل 10 ہزار گوسائیں (سادھوں کے لیے عام اصطلاح) کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ پانچ توپیں، سامان سے بھری متعدد بیل گاڑیاں، خیمے اور 12 لاکھ روپے تھے (سنہ 2019 میں یہ 16 ملین برٹش پاؤنڈ کے برابر تھے)۔
ایک مخدوش کردار والی شخصیت انوپگیری کو 18ویں صدی کے آخر میں ممکنہ طور پر سب سے کامیاب ‘فوجی کاروباری’ یا کرائے کے لڑاکا شخص کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک مناسب نام ہے کیونکہ ان دنوں بادشاہوں کی طرف سے رکھی جانے والی تقریباً تمام نجی فوجیں کرائے کے سپاہی پر مشتمل ہوتی تھیں۔
بنارس شہر (جسے اب وارانسی کہا جاتا ہے) کے ایک جج تھامس بروک نے نے کہا کہ ‘انوپ گیری کے بارے میں ایک مقامی نے کہا کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جو بیک وقت دو کشتیوں میں سوار تھے اور جو ڈوبنے والی کشتی ہوتی اسے چھوڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔’
اس میں کوئی جائے حیرت نہیں کہ وہ کرشماتی جنگجو سنیاسی ہر جگہ موجود رہتا تھا۔ پنچ لکھتے ہیں کہ ’انوپگیری ہر جگہ موجود تھا کیونکہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی ہر کسی کو ضرورت تھی۔ وہ قابل نفرت تھا کیونکہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی ضرورت سے ہر ایک کو نفرت تھی۔ وہ چپکے سے کام کرنے والا شخص تھا اور اس کی ضرورت اس وقت ہوتی تھی جب کسی کو فوجیوں کی ضرورت ہوتی کیونکہ وہ وقت کا نباض تھا یا اس وقت ہوتی جب کسی کو خاموشی سے کوئی گندا کام کروانا ہوتا تھا۔‘
انوپ گیری نے ہر کسی کی طرف سے لڑائیاں لڑیں۔ سنہ 1761 میں پانی پت کی جنگ میں اس نے مغل بادشاہ اور افغانوں کی طرف سے مرہٹوں کے خلاف جنگ لڑی۔ تین سال بعد وہ بکسر کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف مغل افواج کے ساتھ موجود تھے۔ اس نے انوپگیری نے دہلی میں فارس کے مہم جو نجف خان کے عروج میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
انوپ گیری کو ان کی والدہ نے غربت کی وجہ سے ایک جنگجو کے حوالے کر دیا تھا
بعد میں انھوں نے مرہٹوں سے منھ موڑ لیا اور انگریزوں کے ساتھ فوج میں شامل ہو گئے۔ 1803 میں اپنی زندگی کے اختتام پر انھوں نے انگریزوں کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست کو یقینی بنایا اور دہلی پر انگریزوں کے قبضے میں مدد کی جو کہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو جنوبی ایشیا اور دنیا میں سب سے بڑی طاقت کا حامل بنا دیا۔
پنچ کہتے ہیں کہ ’18ویں صدی کے آخر میں مغل اور مراٹھا کے زوال اور برطانوی اقتدار کے عروج کے ضمن میں واقعات کا جتنا زیادہ جائزہ لیا جاتا ہے پس منظر میں انوپ گیری گوسائیں کا خاکہ اتنا ہی زیادہ ابھرتا نظر آتا ہے۔’
1743 میں شمالی ہندوستان کے ایک عسکری اہمیت کے حامل صوبے بندیل کھنڈ میں پیدا ہونے والے انوپ گیری اور ان کے بڑے بھائی کو ان کی غریب بیوہ ماں نے ان کے والد کی موت کے بعد ایک جنگجو کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بارے ایسی کہانیاں (جو ممکنہ طور پر غیر مستند ہیں) ہیں کہ انھوں نے اپنا بچپن مٹی کے سپاہیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزارا۔
زبانی روایات کے مطابق انوپ گیری جیسے مردوں کو 16ویں صدی میں مسلمانوں کے حملوں کو روکنے کے لیے خود کو مسلح کرنے کی اجازت تھی۔ لیکن پنچ کے مطابق انوپ گیری نے مغل شہنشاہ شاہ عالم سمیت مسلمان آجروں کی خدمت کی اور یہاں تک کہ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی کی طرف سے 1761 میں پانی پت میں مرہٹوں کے خلاف لڑے۔
ان کی زندگی کا جشن منانے والی نظمیں ان کے گروہ میں موجود مسلمان فوجیوں کے بارے میں بتاتی ہیں۔
پنچ کے مطابق ‘انوپ گیری کی ذہانت اقتدار میں اپنی ناگزیریت کو برقرار رکھنے کی اس کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ وہ اعلیٰ ذات میں پیدا نہیں ہوا تھا اور وہ جانتا تھا کہ کس طرح اور کب لڑنا ہے اور کب بھاگنا ہے۔’
‘وہ جانتا تھا کہ مخالفین اور اتحادیوں کو یکساں طور پر کیسے قائل کرنا ہے کہ اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک ایسا دور تھا جہاں مسلح سنیاسی کو کھلے عام کام کرنے کی اجازت تھی، ایک ایسا دور جس میں ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے موت کو فتح کر لیا ہے۔’
بکسر کی فیصلہ کن جنگ جس نے بنگال اور بہار پر برطانوی اقتدار کی توثیق کی، اس کے بارے میں ڈیلرمپل اپنے ڈرامائی انداز میں بتاتے ہیں کہ بری طرح سے زخمی ہونے والے انوپ گیری نے مغل بادشاہ شجاع الدولہ کو میدان جنگ سے فرار ہونے پر آمادہ کیا۔
وہ کہتے ہیں: ‘اس وقت مرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم آسانی سے جیت جائیں گے اور کسی اور دن بدلہ لیں گے۔’
وہ کشتیوں کے ذریعے ایک پل سے دریا کو پار کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے اور انوپ گیری نے اپنے پیچھے ان کشتیوں کو تباہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اور اس طرح جنگجو سنیاسی کسی اور دن لڑنے کے لیے زندہ رہا۔
Comments are closed.