وہ خوشحال شہر جہاں اب صرف تابوتوں کا کاروبار عروج پر ہے
- مصنف, رینڈی جو ساہ
- عہدہ, بی بی سی بیمینڈا
گذشتہ پانچ برسوں پر محیط نہ ختم ہونے والی جنگ کے بعد اب کیمرون کا شہر بیمینڈا تقریباً تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
علیحدگی پسندوں اور حکومت کے درمیان جاری اس طویل تصادم کے بعد اب یہاں صرف ایک ہی چیز عروج پر ہے اور ہے تابوت کا بزنس۔
پورے شہر میں واقع ندیوں، سڑکوں، گلیوں اور مردہ خانوں کے سامنے لاشیں پڑی ملتی ہیں۔
اس شہر کی بلدیہ کے کارکنوں کا ایک بڑا کام روزانہ اِن لاشوں کو اکھٹا کرنا اور سادہ سی تقریب میں اُن کی تدفین کر دینا ہے۔
ایک گورکن جو ایسی لاشوں کو دفنانے کے لیے 10 سستے تابوتوں کا آرڈر دینے آئے تھے، نے کہا ’دفن ہونا بھی ایک نعمت ہے۔‘
ایک زمانے میں ڈیزائن دار اور مہنگے تابوت تیار کروانا اس ملک کی ریت تھی مگر اب مہنگے تابوتوں کی مانگ بھی کم ہو گئی ہے۔
مرنے والوں کے طرز زندگی، دلچسپیوں یا آخری خواہشات کی عکاسی کی غرض سے کبھی یہاں بائبل کے سٹائل، گاڑیوں یا بیئر کی بوتلوں کی شکل میں بنائے جانے والے تابوتوں کی مانگ تھی۔
ایک جنازہ گھر (وہ جگہ جہاں دفنانے سے قبل مردے کو غسل اور دیگر تیاریاں کی جاتی ہیں) میں موجود ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ’اب کوئی بھی مہنگے تابوتوں کا آرڈر نہیں دیتا۔ کیونکہ اب زیادہ تر لوگ تقریباً 1,500 ڈالر مالیت تک میں فروخت ہونے والے تابوتوں کو خریدنے کی قوت برداشت ہی نہیں رکھتے۔‘
نوجوان مردوں اور لڑکوں کے بڑی تعداد میں جنازے کیمرون کے انگریزی بولنے والے شمال، مغربی حصوں اور جنوب، مغربی علاقوں میں تنازع کی ایک ظالمانہ یاد دہانی ہیں۔
صرف پانچ برسوں میں اس تنازع نے ہزاروں جانیں لے لی ہیں، جب کہ دس لاکھ سے زیادہ کو فرانسیسی بولنے والے علاقوں اور 80,000 کو پڑوسی ملک نائیجیریا میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
اس جنگ کی جڑیں نوآبادیاتی نظام سے شروع ہونے والی شکایات میں ہیں، جب برطانوی زیر کنٹرول علاقے کو فرانسیسی علاقوں کے ساتھ ملا کر موجودہ کیمرون کی بنیاد رکھی گئی۔
بہت سے انگریزی بولنے والے کیمرون کے باشندوں نے تب سے خود کو پسماندہ محسوس کیا ہے۔
یہاں کی حکومت میں فرانسیسی زبان بولنے والوں کا غلبہ ہے۔ اور انگریزی بولنے والے اس حکومت کے اقدامات کو اپنی زبان، تاریخ، اور اپنے تعلیمی اور قانونی نظام سمیت اپنے طرز زندگی کے خلاف سمجھتے ہیں۔
سنہ2016 میں کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب بامینڈا اور دیگر انگریزی بولنے والے علاقوں میں دسیوں ہزار لوگوں کو انگریزی ترک کر کے اپنے سکولوں اور عدالتوں میں فرانسیسی زبان رائج کرنے پر مجبور کیا گیا، جس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت کی حکومت نے سیکورٹی فورسز کو عوام کی شکایات کے حل کے لیے مذاکرات کرنے کے بجائے احتجاج کو دبانے کا حکم دیا۔
اس تشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان امبازونیا کی آزاد ریاست کا مطالبہ کرنے لگے۔
اب ایسی فوجی گاڑیاں جن میں مشین گنیں نصب ہوتی ہیں بامینڈا شہر کی سڑکوں پر نظر آنا عام سی بات ہے۔
رہائشیوں کا کہنا ہے کہ فوجی گھروں پر دھاوا بولتے ہیں، گرفتاریاں کرتے ہیں، بازار جلاتے ہیں اور یہاں تک کہ ملیشیا کمانڈروں سمیت دیگر علیحدگی پسندوں کی لاشوں کو چوک، چوراہوں میں لٹکا دیتے ہیں تاکہ رہائشیوں کو علیحدگی پسند جنگجوؤں میں شامل نہ ہونے کی تنبیہ کی جا سکے۔
اس لڑائی میں سرکاری فورسز کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
فوجی مردہ خانہ
دفنانے کی غرض سے ہوئے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں ہر جمعرات اور جمعہ کے روز دارالحکومت یاؤنڈے کے فوجی مردہ خانے سے نکالی جاتی ہیں۔
کیمرون کے جھنڈے میں لپٹے تابوتوں کی لمبی قطاروں کے سامنے بیوہ خواتین رو رہی ہوتی ہیں، ان فوجیوں کو فوجی تقریبات کی ادائیگی کے دوران دفن کیا جاتا ہے۔
علیحدگی پسند جنگجوؤں کو شہریوں کے خلاف مظالم کی وجہ سے بھی عوام میں شہرت حاصل ہوئی ہے۔
ان مظالم میں ایسی خواتین کے سر قلم کرنا اور تشدد کرنا بھی شامل ہے جن پر ’لڑائی میں دھوکہ دینے‘ جیسے الزامات ہوتے ہیں۔ انھیں ’کالی ٹانگیں‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے، یہ ایسی خواتین کی لیے ایک اصطلاح ہے جو اب باقاعدگی سے استعمال ہوتی ہے۔
علیحدگی پسند اپنے ان مظالم کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس سزا سے خبردار کیا جا سکے جس کا سامنا ان کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ ملی بھگت کے شبے میں مل سکتی ہے۔
پیر کے روز، بامینڈا ایک ’آسیب زدہ شہر‘ میں بدل جاتا ہے۔
ہر ہفتے کے آغاز میں یہ وہ دن ہوتا ہے جبکہ سول نافرمانی کی مہم کے طور پر سڑکیں خالی ہو جاتی ہیں اور بازار بند رکھے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔
اور جو اس شہری اس اصول کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے علیحدگی پسندوں کی جانب سے گولی مار دی جاتی ہے یا اُن کی دکانیں جلا دی جاتی ہیں۔
فوجی اور پولیس افسران بھی سڑکوں سے غائب ہوتے ہیں، اس لیے وہ شہر میں مضبوط موجودگی رکھنے والے علیحدگی پسند جنگجوؤں کا آسان ہدف نہیں بنتے۔
علیحدگی پسندوں نے اپنی مہم کے تحت چار سال قبل تمام سکولوں کو بند کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ اگرچہ چند سکول کھلے رہے مگر یہاں پڑھنے والے بچے یونیفارم پہننے کی ہمت نہیں کرتے۔
فوج نے شہر میں تقریباً رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اس کے بہت سے ریستوران، بار اور کلب، جو کبھی کیمرون میں سب سے زیادہ مشہور تھے، سرشام ہی بند ہو جاتے ہیں۔
ایک ویٹریس کہتی ہیں کہ ’گولیوں کی نہ ختم ہونے والی آواز نے سب کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ اس صورتحال کے باعث اب کیمرون نژاد غیرملکی بھی اپنے وطن واپس آنے سے کتراتے ہیں۔
یہ وہ غیرملکی ہے جو زرمبادلہ اپنے ملک بھیج پر اس کی معیشت کا پہیہ چلانے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
لیکن حکام ان پر اب بغاوت کی مالی معاونت کا الزام بھی لگاتے ہیں۔
ماضی میں بیرون ملک سے اپنے شہر واپس آنے والے کیمرون کے شہریوں کو حکام نے گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان میں سے چند اب بھی جیلوں میں موجود ہیں جبکہ دیگر کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے۔
اس شہر کے دیرینہ رہائشی پیٹر شانگ، جو کبھی اپنے شہر کی زندگی سے محبت کرتے تھے، کہتے ہیں کہ اب لوگوں کا گزارا کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ یہاں رہتے ہوئے بہت سی چیزیں ہیں جو آپ کو بے وقت موت کی یاد دلاتی ہیں۔ آپ آج کسی سے بات کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ کل آپ دونوں میں کون زندہ رہے گا اور کون نہیں۔‘
مگر پھر میری کلیئر بسو جیسی خواتین بھی ہیں جن کے لیے اس زحمت میں رحمت بھی ہے۔ وہ اس لیے خوش ہیں کیونکہ اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتی ہیں کیونکہ وہ سرشام کرفیو نافذ ہونے سے پہلے گھر پہنچ جاتے ہیں، پانچ سال پہلے یہ صورتحال نہیں تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اب وہ (شوہر) اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ اس سے قبل میرا شوہر ایک ایسا شخص تھا جو رات گئے نشے کی حالت میں گھر آتا تھا اور اس کے لیے گھر کے معنی صرف سونے کی ایک جگہ کے تھے۔ اب وہ بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے اور ان کی کتابوں کو دیکھتا ہے۔ اس تنازع نے ہمیں اکٹھا کیا ہے۔
مگر رات میں ہونے والی فائرنگ شہریوں کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ دن کے اوقات میں بامینڈا میں گولیاں چلنا اس قدر عام ہو گیا ہے کہ لوگ آواز سن کر فوراً بھاگ نہیں پاتے۔
ایک سبزی فروش کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم بھاگتے رہے تو ہم کیا کھائیں گے؟ مجھ پر بہت سے بچوں کی ذمہ داری ہے۔‘
’فائرنگ کے دوران ہم صرف کور لینے کے لیے چھپ جاتے ہیں اور شوٹنگ بند ہونے پر کام پر واپس آ جاتے ہیں۔‘
ایک اور خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو گولیوں کی آواز کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ کون گولی چلا رہا ہے، فوجی یا علیحدگی پسند۔
’میری بیٹی سات سال کی ہے اور وہ بتا سکتی ہے کہ آیا یہ آوازیں آرمی کی مشین گنوں کی ہیں یا علیحدگی پسند جنگجوؤں کی اے کے 47 کی۔‘
شہر کے بیچوں بیچ سڑک پر ملنے والی کچھ راہباؤں کا کہنا ہے کہ وہ ابنگوہ یتیم خانے جانے کے لیے ٹیکسی کا انتظار کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے باعث نوعمر لڑکیوں میں حمل ٹھہرنے کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
بہت سی لڑکیاں دونوں طرف (سکیورٹی فورسز اور علیحدگی پسندوں) سے جنسی تشدد اور استحصال کا شکار ہو کر اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
ایک راہبہ نے غصے سے کہا کہ ’جنگ کے ہتھیار کے طور پر عصمت دری قابل نفرت جرم ہے۔‘
شہر ہر موڑ پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ماضی کے اس شاندار شہر، جہاں اب کچرے کے ڈھیر ہیں اور بدبو ہے، کے باسی اسے ایک غیر ضروری جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
Comments are closed.