سوفی سکول: وہ جرمن طالبہ جس نے ہٹلر کی مزاحمت کی اور جرمنی کو متاثر کیا
- جینی ہل
- بی بی سی نامہ نگار، برلن
سوفی سکول کے بارے میں جرمنی سے باہر کم لوگ ہی جانتے ہیں لیکن اپنے آبائی ملک میں وہ ایک نمایاں شخصیت ہیں اور ان کی ایک کہانی غیر معمولی ہے۔
اس ہفتے بہت سے لوگ ان کی 100 ویں سالگرہ منائیں گے اور انھیں خراج عقیدت پیش کریں گے جو ایڈولف ہٹلر کے سامنے کھڑی ہو گئی تھی اور اس کی قیمت انھوں نے اپنی جان دے کر ادا کی۔
ان کی مزاحمت کی داستان کو متعدد مرتبہ کتابوں، فلموں اور ڈراموں میں بیان کیا گیا ہے اور یہ آج بھی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
سوفی سکول سنہ 1921 میں ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئیں تھیں جو بحران اور تباہی کا شکار تھا۔ لیکن ان کا بچپن محفوظ اور پرسکون تھا۔ ان کے والد جنوب مغربی شہر فورچنبرگ کے میئر تھے ( البتہ خاندان بعد میں الم منقتل ہو گیا تھا) اور سوفی اپنے دیگر پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ ایک ایسے گھر میں پروان چڑھی تھی جہاں مسیحی مذہب کی اقدار بہت معنی رکھتی تھیں۔
جب تک وہ اپنی نوعمری کو پہنچی تک ایڈولف ہٹلر ملک چلا رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
’مجھ سے یہ مت کہنا کہ یہ ملک کے لیے ہے‘
پہلے پہل سوفی اور ان کے بڑے بھائی ہانس نے نیشنل سوشلسٹ پارٹی کی حمایت کی تھی۔ بہت سے نوجوانوں کی طرح سوفی کے بھائی نے ہٹلر یوتھ موومنٹ میں شمولیت اختیار کی جبکہ سوفی نے لڑکیوں کے لیے لیگ آف جرمن گرلز میں شمولیت اختیار کی۔
ان کے والد جو ہٹلر کے ناقد تھے سوفی اور ان کے بھائی کے ابتدائی جوش و جذبے سے پریشان ہو گئے تھے۔واور پھر دوستوں اور خاندان والوں کا ان پر اثر آہستہ آہستہ ہونے لگا۔
بالآخر دونوں بہن بھائی اپنے آزاد خیالات کو جرمنی کی نازی پارٹی کی حکومت کی سیاست کے ساتھ ملانے میں ناکام رہے اور جس طرح سے ہٹلر کی حکومت یہودیوں اور فنکاروں کے ساتھ سلوک کر رہی تھی اس کو دیکھتے ہوئے انھوں نے تیزی سے حکومت کو تنقیدی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اور جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کیا تب تک ان کی مخالفت میں مزید سختی آ چکی تھی۔
سوفی سکول اور ان کے بڑے بھائی ہینس
اور جیسا کہ نوجوان فوجیوں کو لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا اس وقت سوفی نے اپنے بوائے فرینڈ فرٹز حارٹنگل، جو خود بھی ایک فوجی تھا ایک سخت خط لکھا کہ ’مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کچھ لوگ کیسے مسلسل دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ مجھے یہ کبھی سمجھ نہیں آئے گی اور میرا خیال ہے کہ یہ بہت برا ہے، مجھ سے یہ مت کہنا کہ یہ اپنے ملک کے لیے ہے۔‘
سوفی اپنے بھائی ہنس کی طرح میونخ یونیورسٹی چلی گئیں، جہاں وہ طب کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ دونوں بہن بھائی دوستوں کے ایک ہی گروہ کے ساتھ گھلتے ملتے۔ ان کی ایک ساتھ ہونے کی مشترکہ وجوہات میں فن ، ثقافت اور فلسفے میں دلچسپی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ سوفی کو جنھوں نے بیالوجی کے ساتھ یہ مضامین بھی پڑھے تھے ڈانس کرنا اور پیانو بجانا پسند تھا اور وہ ایک باصلاحیت مصورہ بھی تھیں۔
لیکن وہ پرتشدد اور مشکل وقت تھا، چند نوجوان طلبہ نے متحرک جدوجہد کا آغاز کیا تھا، وہ آمریت میں رہ رہے تھے اور وہ اس کی مزاحمت کرنے کے لیے پرعزم تھے۔
سنہ 1982 میں بنائی گئی فلم وائٹ روز کا منظر جس میں سوفی اور ان کے بھائی کے کرداروں کو دکھایا گیا ہے
’ہم خاموش نہیں ہوں گے‘
’وائٹ روز‘ گروہ کے صرف چھ ارکان تھے، جن کی اصل بنیاد سوفی کے بھائی ہنس سکول اور اس کے دوست الیکزینڈر سکومورل نے رکھی تھی۔ ان میں سوفی ، کرسٹوف پروبسٹ اور ویلی گراف ، اور ان کے ایک پروفیسر کرٹ ہبر شامل تھے۔
دوستوں اور حامیوں کے تعاون سے انھوں نے لیف لیٹس (پرچیاں) چھاپے اور تقسیم کیے تھے جس میں شہریوں کو نازی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے کی ترغیب دی گئی تھی اور یہودیوں کے قتل کی مذمت کی اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ایک لیف لیٹ پر لکھا تھا ‘ہم خاموش نہیں ہوں گے، ہم آپ کا برا ضمیر ہے، وائٹ روز آپ کو چین سے نہیں رہنے دے گا۔’
اس گروہ نے 1943 کے آغاز میں اپنا چھٹا پمفلٹ تیار کیا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ ’جرمنی کی ساکھ ہمیشہ کے لیے خراب ہو جائی گی اگر جرمنی کے نوجوان اب بھی نہ اٹھے اور ایک ہی وقت میں بدلہ نہ لیا گیا اور کفارہ نہ ادا کیا، اذیت دینے والوں کو کچل دو اور ایک نئے یورپ کو حاصل کرو۔’
میونخ یونیورسٹی کا وہ مرکزی ہال جہاں سے سوفی نے اپنے آخری پمفلٹ پھینکے تھے
اور یہ ان کا آخری پمپفلٹ تھا۔ اٹھارہ فروری 1943 کو سوفی اور ہانس جب یونیورسٹی میں یہ پرچے بانٹ رہے تھے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ سوفی یونیورسٹی کی عمارت کی چھت پر کیوں گئی تھی اور پھر اس نے وہاں سے پمفلیٹ کے ڈھیر کو ہوا میں اڑا دیا۔ شائد وہ چاہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اس کو دیکھ سکیں۔ لیکن جیسے ہی یہ پمفلٹ زمین پر گرے اسے ایک چوکیدار نے دیکھ لیا جس نے اسے دھوکا دے کر خفیہ پولیس کے حوالے کر دیا۔
اس سے اور اس کے بھائی سے تفتیش کی گئی اور پھر ایک فرضی مقدمے کے بعد انھیں موت کی سزا سنا دی گئی۔
انھوں نے دیگر ساتھوں کو دھوکا دینے سے انکار کیا اور پولیس کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا لیکن پولیس نے انھیں بھی تلاش کر لیا۔ اور چند ہی ماہ میں تمام دوستوں کو سزائے موت دے دی گئی۔
سوفی اپنی پھانسی والے دن صرف 21 برس کی تھیں اور اس نے کہا تھا ‘ کیا خوبصورت روشن دن ہے اور مجھے جانا ہے۔۔۔ میری موت سے کیا فرق پڑتا ہے اگر ہماری وجہ سے ہزاروں افراد بیدار ہو جائیں اور اس جدوجہد کے لیے متحرک ہو جائیں؟’
ان الفاظ اور اس بہادری کو آج بھی جرمنی میں عزت بخشی جاتی ہے اور وہاں مختلف سکول اور شاہراہیں سوفی کے اور ان کے بھائی کے نام پر ہیں۔ یہ کچھ لوگوں کے لیے افسوس کا باعث ہے کہ وائٹ روز گروپ کے دوسرے ممبران کو کم یاد کیا جاتا ہے۔
لیکن سوفی کا نام آسانی سے استعمال کیا جاتا ہے۔
وائٹ روز گروہ کے چھ ارکان کی تصاویر
چند برس قبل اس بات پر غم و غصہ پایا گیا تھا جب دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی نے ‘سوفی سکول نے اے ایف ڈی کو ووٹ دیا ہوگا’ کا نعرہ لگایا تھا۔ گذشتہ نومبر میں ہنوور میں کووڈ پابندیوں کے خلاف ایک ریلی میں ، ایک نوجوان خاتون سٹیج پر چڑھ گئی تھی اور انھوں نے اپنا موازنہ سوفی سکول سے کیا تھا۔
لیکن ان کی 100 ویں سالگرہ کو کیسے منایا جا رہا ہے، اس بارے میں جرمنی ایک یادگاری سکہ جاری کر رہا ہے، گرجا گھروں میں خصوصی دعائیہ تقریبات ہو گیں اور ان کی زنگی پر ایک نیا انسٹاگرام چینل وقف کیا گیا ہے۔
جہاں بہت سے افراد اس نوجوان خاتون کی زندگی کے متعلق جانے گے جس کی بہادری اور جرات آج بھی دلوں کو گرما دیتی ہے۔
Comments are closed.