ایسے میں ایک دن جنگل میں کام کرنے والا ایک سرکاری اہلکار، جس نے کچھ دن پہلے جنگل میں ایک ’غیر معمولی اور ناگوار بو‘ محسوس کی تھی، 17 اگست کو اس کا پتا چلانے کے لیے اس طرف نکلا۔ اس نے گھاس پھوس سے ڈھکے ایک گڑھے میں دو لاشیں دیکھیں۔اگرچہ وہ لاشیں گلنے سڑنے لگیں تھیں تاہم یہ علامات ظاہر ہو رہی تھیں کہ انھیں جلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایک ہفتے بعد جب ڈی این اے کا نتیجہ آیا تو جس کا ڈر تھا اسی کی تصدیق ہوئی۔موت کی وجہ کا تعین کرنا مشکل تھا لیکن یہ واضح تھا کہ انھیں وہاں ہلاک نہیں کیا گيا تھا بلکہ انھیں مار کر ان کے گھر سے کوئی 30 کلومیٹر دور وہاں پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ آخر یہ کب ہوا، کیسے ہوا اور کس نے کیا؟،تصویر کا ذریعہPA MEDIA
’ویلش کی جادوگرنی‘
لڑکیوں کی گمشدگی اور ان کی لاشوں کی بازیابی کے دوران تحقیقاتی ٹیم نے ماہرین کا ایک گروپ جمع کر لیا تھا جن میں فرانزک ایکولوجسٹ، ماہر نباتات اور ماہر امراضیات پیٹریشیا ولٹ شائر شامل تھیں۔اس وقت تک وہ اپنے کام کی وجہ سے مشہور ہو چکی تھیں کیونکہ انھوں نے کئی مقدمات میں انصاف دلانے میں مدد کی تھی۔انھں نے کہا کہ ’بعض اوقات پولیس مجھے ’ویلش کی جادوگرنی‘ کہتی ہے کیونکہ میں بہت سارے ڈیٹا پر کام کرتی ہوں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتی ہوں۔ لیکن یہ جادو نہیں بلکہ تجزیہ ہے۔‘وہ ساؤتھ ویلز کے ایک کان کنی کے لیے مشہور شہر میں پیدا ہوئیں۔ جب وہ 17 سال کی ہوئیں تو انھوں نے لندن کے لیے اپنا آبائی گھر چھوڑ دیا۔انھوں نے کئی سال تک پہلے میڈیکل ٹیکنیشن کے طور پر اور پھر ایک کمپنی سیکریٹری کے طور پرکام کیا۔ اس پیشے کے بارے میں ان کے پہلے شوہر کا خیال تھا کہ یہ خواتین کے لیے ہے۔فطرت سے دلچسپی نے انھیں شام کے وقت باٹنی (علم نباتات) کی کلاسوں میں داخلہ لینے کی ترغیب دی اور یوں وہ کنگز کالج میں پہنچیں جہاں انھوں نے ’جدید بائیوگرافی، جیولوجی، اور ہر قسم کے پیراسیٹولوجی کا علم حاصل کیا۔‘اور اس طرح انھوں نے پیلینولوجسٹ کے طور پر اپنے کریئر کا آغاز کیا یعنی وہ ہر قسم کے پودوں کی ماہر تھیں۔
ایک فون کال
سنہ 1994 میں ایک دن ولٹ شائر کو ایک فون کال موصول ہوئی جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔وہ فون ہرٹ فورڈ شائر کے ایک پولیس افسر کا تھا جنھوں نے پوچھا کہ کیا وہ قتل کے ایک معاملے کو سلجھانے میں مدد کر سکتی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ایک گڑھے میں ایک جلی ہوئی لاش پڑی ملی ہے جبکہ ساتھ والے کھیتوں میں ٹائروں کے نشانات ہیں۔پولیس یہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا مشتبہ افراد کی گاڑی وہاں موجود تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا تھا، لیکن میں نے کار میں موجود ہر چیز کا تجزیہ کیا اور جانا کہ پیڈل اور پاؤں سے بنے نشان میں موجود پولن کھیت اور کھیت کے کنارے پائے جانے والے پولن سے ملتے تھے۔‘’جب پولیس مجھے جائے وقوعہ پر لے گئی تو میں نے ان سے کہا کہ وہ مجھے یہ نہ بتائیں کہ انھیں لاش کہاں سے ملی تھی کیونکہ میں اپنی تحقیق کو جانچنا چاہتی ہوں۔‘’یہ ایک بہت بڑی جگہ تھی اور اس کا چکر لگانے کے بعد جھاڑی کے اس حصے میں موجود پھولوں کی قسم کی وجہ سے صحیح جگہ کی شناخت کرنے میں کامیاب رہی۔‘انھوں نے کہا کہ ’اگر میرے پاس وہ تجربہ نہ ہوتا جو میں نے ہسپتال کی لیبارٹریوں میں حاصل کیا تھا تو میں وہ کام نہیں کر پاتی جو میں اب کررہی ہوں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘ہر رابطہ ایک نشان چھوڑتا جاتا ہے’
لیکن ہولی ویلز اور جیسکا چیپ مین کے ساتھ کیا ہوا جن کی لاشیں ایک گڑھے سے ملی تھیں؟پولیس نے انھیں جائے حادثہ پر جانے کو کہا جہاں سے لاش ملی تھی۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں ایسے مقام پر جاتی ہوں تو میرے لیے وہاں موجود سب کچھ اہم ہوتا ہے: زمین، نباتات، روشنی کی مقدار، وہاں موجود کیڑے۔ ہر چیز ایک تصویر بناتی ہے جس سے پولیس کے لیے بہت زیادہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔‘اس معاملے میں پولیس جاننا چاہتی تھی کہ قاتل گڑھے تک کیسے پہنچا کیونکہ انھیں کوئی راستہ نہیں مل پایا۔’جہاں پودوں کو روند دیا گیا تھا، میں وہ دیکھ سکتی تھی کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ لیکن یقیناً یہ کافی نہیں تھا اور اس کی تصدیق کرنے کی ضرورت تھی۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک نیا تجربہ
وِلٹ شائر کے لیے جرائم کے مقامات پر پائے جانے والے روندے ہوئے پودے اہم تھے کہ لاشیں وہاں کب چھوڑی گئی تھیں۔ اس کے لیے انھوں نے ایک جدید تجربہ ڈیزائن کیا۔’بچھو بوٹی کو روند دیا گیا تھا، لیکن وہ ٹھیک ہو گئے تھے، لہذا دوبارہ بڑھنا اہم چیز تھی۔‘ولٹ شائر کے تجربے سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی لاشیں غائب ہونے کے فوراً بعد کھائی میں ڈال دی گئی تھیں۔’میں نے پولیس کو دکھایا کہ کہاں سے مجرم گڑھے میں گیا تھا، اور جب میں اندر گئی تو مجھے جیسکا کے بال ایک ٹہنی پر ملے۔‘’جانے کا راستہ اہم ہے کیونکہ وہاں سراغ ہو سکتے ہیں، اور اس راستے پر انگلیوں کے نشانات تلاش کیے جا سکتے ہیں۔‘دریں اثنا تفتیش نے ایک اہم مشتبہ شخص ایان ہنٹلی کی شناخت کی تھی جو لڑکیوں کے سکول کا چوکیدار تھا۔ہنٹلیکا اکثر پریس کے ذریعے انٹرویو کیا جاتا تھا اور وہ پولیس سے نہ صرف تفتیش کے بارے میں بلکہ دیگر تفصیلات کے بارے میں بھی مسلسل پوچھتا رہتا تھا جس کی وجہ سے تفتیش کاروں کو ان پر شبہ ہونے لگا تھا۔ان کے گھر کی فرانزک تفتیش کے دوران جیسکا اور ہولی کی ٹی شرٹ کے فائبر ملے تھے جو انھوں نے اس دن پہن رکھی تھی۔لیکن ہٹلی کے پاس اس کی وضاحت تھی جو کہ قابل فہم تھی۔ اس نے بتایا کہ اس دن وہ لڑکیاں آئی تھیں کیونکہ ان میں سے ایک کی ناک سے خون بہہ رہا تھا، اور انھوں نے ان کی مدد کی۔پھر اس سکول کی تلاشی لی گئی جہاں ہنٹلی کام کرتا تھا اور انھیں جلے اور کٹے ہوئے کپڑوں کی چیزیں ملی جو لڑکیوں نے آخری بار پہن رکھی تھیں۔جب ولٹ شائر نے لباس کا تجزیہ کیا تو انھوں نے پایا کہ ’جو کچھ اس میں سرایت کر گیا تھا وہ پودوں کے ٹکڑے تھے، خاص طور پر ایلڈر (بید کے درخت) کے درختوں کے پھل جو اس کھائی پر بہت گھنے لٹکتے تھے۔‘’مجھے فوراً پتہ چل گيا کہ لڑکیوں کو جب گڑھے میں ڈالا گیا تو انھوں نے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔‘اور یہ سب ہنٹلی کے خلاف مجرمانہ شواہد کا حصہ تھے۔ولٹ شائر ان ماہرین میں سے ایک تھیں جنھوں نے مقدمے میں گواہی دی اور ان کی تفتیش کی وجہ سے ایان ہنٹلی کو کم از کم 40 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.