وہ ترقی یافتہ ملک جہاں ہر پانچ منٹ میں ایک گاڑی چوری ہوتی ہے،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ندین یوسف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹورنٹو
  • 2 گھنٹے قبل

اکتوبر 2022 کی ایک صبح جب لوگن لافارنیئر کی آنکھ کھلی تو انھوں نے دیکھا کہ ان کا ڈرائیو وے خالی ہے اور ان کا نیا نویلا ریم ریبل ٹرک غائب تھا۔لوگن کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے مِلٹن شہر میں رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی سکیورٹی کیمرا کی فوٹیج چیک کی تو پتا چلا کہ ہوڈی جیکٹ پہنے دو افراد رات کے اندھیرے میں ان کے ٹرک میں گھسے اور اسے با آسانی چلا کر لے گئے۔کچھ مہینوں بعد وہی ٹرک سمندر پار تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر دور گھانا میں گاڑیوں کی ویب سائٹ پر فروخت کیا جا رہا تھا۔لوگن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں ایسے پتا چلا کہ یہ ہمارا ٹرک ہے کیونکہ ڈرائیور سیٹ کے پیچھے ہم نے اپنے بیٹے کے لیے ایک لیپ ٹاپ ہولڈر نصب کیا تھا اور اس میں ہمارے بیٹے نے کچرا بھر دیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ اپلوڈ کی گئی تصاویر میں وہی کچرا نظر آ رہا تھا۔’مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ میرا ہی ٹرک ہے۔‘لوگن اکیلے نہیں، ایسی کئی کہانیاں موجود ہیں۔سال 2022 میں کینیڈا میں ایک لاکھ پانچ ہزار سے زیادہ گاڑیاں چوری ہوئیں جو اوسطاً ہر پانچ منٹ میں ایک گاڑی بنتی ہے۔متاثرین میں کینیڈا کے وفاقی وزیر برائے انصاف بھی شامل ہیں۔ حکومت کی طرف سے انھیں ملنے والی ٹویوٹا ہائی لینڈر ایکس ایل ای دو مرتبہ چوری ہوئی ہے۔رواں سال موسمِ گرما کے آغاز میں انٹرپول کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق کینیڈا کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ گاڑیاں چوری ہوئیں۔ اس فہرست میں 137 ممالک شامل ہیں۔ایک ترجمان کے مطابق یہ کافی ’حیران کن‘ بات ہے کیونکہ کینیڈا نے اسی سال فروری میں انٹرپول کو اعداد و شمار فراہم کرنے شروع کیے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ چوری شدہ گاڑیوں کو یا تو مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے یا کینیڈا میں ہی شہریوں کو بیچ دیا جاتا ہے یا پھر ان کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے جہاں انھیں دوبارہ فروخت کیا جا سکے۔انٹرپول کا کہنا ہے کہ فروری سے لے کر اب تک دنیا بھر میں 1500 سے زائد ایسی گاڑیوں کا سراغ لگایا جا چکا ہے جو کینیڈا سے چوری ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ ہر ہفتے کینیڈا سے چوری ہونے والی تقریباً 200 گاڑیاں برآمد ہو رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر دیگر ممالک کی بندرگاہوں پر موجود ہیں۔ملک میں گاڑیاں اتنی بڑی تعداد میں چوری ہو رہی ہیں کہ انشورنس بیورو آف کینیڈا نے اسے ’قومی بحران‘ قرار دے دیا ہے۔بیورو کے مطابق گذشتہ سال انشورنس کمپنیوں کو گاڑیوں کی چوری کے دعووں کے عوض میں ڈیڑھ ارب کینیڈین ڈالرز سے زیادہ کی ادائیگی کرنی پڑی ہے۔یہ مسئلہ اتنا سنگین ہو گیا کہ کینیڈا کی پولیس کو مجبوراً عوام کی آگاہی کے لیے مہم چلانی پڑی کہ وہ اپنی گاڑیوں کو چوری ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں۔دوسری جانب کچھ کینیڈین شہریوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا اور ایسے اقدامات اٹھائے ہیں کہ ان کی گاڑیاں با آسانی چوری نہ ہو سکیں۔ ان میں گاڑیوں میں ٹریکر لگانے سے لے کر محلّے میں نجّی سکیورٹی کی خدمات حاصل کرنے تک سب کچھ شامل ہے۔کچھ لوگ جن کی استطاعت تھی انھوں نے اپنے گھروں کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ پر ریٹریکٹیبل بولارڈز جیسی رکاوٹیں تک لگا دی ہیں۔ یہ ایسے چھوٹے چھوٹے کھمبے ہوتے ہیں جو ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبانے سے زمین سے ابھرتے ہیں اور گاڑی نکالتے وقت بٹن دبا کر انھیں زمین کے اندر کر دیا جاتا ہے۔ یہ رکاوٹیں اکثر بینکوں اور سفارت خانوں کے باہر لگی نظر آتی ہیں۔جب وہ اور اس کا بھائی دونوں کار چوری کا شکار ہوئےجب ٹورنٹو کے نزدیک میسس ساگا کے رہائشی نعمان خان اور ان کے بھائی کی گاڑیاں چوری ہوئیں تو انھوں نے بولارڈ انسٹال کرنے کا کاروبار شروع کیا۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نعمان نے بتایا کہ ایک دفعہ چور آدھی رات ان کے گھر داخل ہوئے۔ اس وقت وہ اور ان کے بیوی بچّے سو رہے تھے۔چور دراصل گھر کے باہر کھڑی ان کی مرسیڈیس جی ایل ای کی چابیاں ڈھونڈ رہے تھے۔ نعمان سے سامنا ہونے کے بعد چور بھاگ نکلے۔اس واقعے کے بعد انھوں نے دو عام سی فیملی کاروں کے باقی ساری گاڑیاں بیچ دیں۔نعمان کہتے ہیں کہ اپنے کاروبار کی وجہ سے ان کی ٹورنٹو میں کئی لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جن کی ایسی ہی کہانیاں ہیں۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

وہ بتاتے ہیں کہ ’آج کل بہت مصروفیت ہے۔ ہمارا ایک کلائنٹ تھا جس کی گلی میں چوری کی اتنی وارداتیں ہوئیں کے اس نے اپنے گھر کے باہر ایک سکیورٹی گارڈ بٹھا لیا کیونکہ وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا تھا۔‘الیکسس پیکیئرو امریکہ کے بیورو آف جسٹس سٹیٹسٹکس کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا میں گاڑیاں چوری ہونے کی وارداتوں میں اضافہ حیران کن ہے کیونکہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک جہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے، ان کے مقابلے کینیڈا کی آبادی بہت کم ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا میں تو امریکہ جتنی بندرگاہیں بھی نہیں ہیں۔‘اگرچہ کورونا وبا کے دوران امریکا، کینیڈا اور برطانیہ، سب ہی جگہ گاڑیوں کی چوری میں اضافہ ہوا، تاہم کینیڈا میں گاڑیاں چوری ہونے کی شرح انگلینڈ اور ویلز سے زیادہ ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کینیڈا میں ہرایک لاکھ میں 262.5 گاڑیاں چوری ہوتی ہیں جبکہ انگلینڈ اور ویلز میں یہ شرح 220 گاڑیوں کی ہیں۔سال 2022 کے اعداد و شمار کی مطابق امریکہ میں یہ شرح فی ایک لاکھ افراد پر 300 گاڑیوں کی ہے۔ایلیئٹ سلورسٹائن کینیڈین آٹوموبائل ایسوسی ایشن میں حکومتی تعلقات کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کہ بین الاقوامی سطح پر بعض گاڑیوں کے ماڈلز کی مانگ بڑھتی نظر آرہی ہے منظم جرائم کے گروہوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن رہی ہے۔تاہم ایلیئٹ کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں کینیڈا کی بندرگاہوں کا نظام ایسا ہے کہ یہاں اس قسم کی چوریاں کرنا بہت آسان ہے۔انھوں نے کہا کہ ’یہاں بندرگاہوں پر اس بات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ ملک میں کیا داخل ہو رہا ہے بجائے اس کے ملک سے باہر کیا جا رہا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY IMAGESایلیئٹ کہتے ہیں انھوں نے بتایا کہ جب ایک دفعہ گاڑی کنٹینر میں ڈال دی جاتی ہے تو اسے ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔تاہم پولیس کچھ چوری شدہ گاڑیاں ریکوور کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔اکتوبر میں ٹورنٹو پولیس سروس نے گیارہ ماہ جاری رہنے والی تحقیقات کے نتائج کا اعلان کیا جس کے دوران تقریباً 60 ملین کینیڈین ڈالرز مالیت کی 1080 گاڑیاں برآمد کی گئی تھی۔دسمبر کے وسط سے مارچ کے آخر جاری رہنے والے آپریشن میں مونٹریال کی بندرگاہ پر تقریباً 400 شپنگ کنٹینرز کی تلاشی لی گئی جن سے 600 چوری شدہ گاڑیاں برآمد ہوئیں۔تاہم ماہرین کے خیال میں مونٹریال کی بندرگاہ سے گزرنے والے تجارتی سامان کے حجم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے آپریشنز کو انجام دینا آسان نہیں۔ صرف سال 2023 میں ہی تقریباً 1.7 ملین کنٹینرز مونٹریال کی بندرگاہ کے ذریعے منتقل ہوئے۔عموماً بندرگاہ کے عملے کے پاس کنٹینرز کے معائنہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ہے۔ کسٹم کے زیر اختیار علاقوں میں صرف سرحدی افسران وارنٹ کے بغیر کنٹینر کھول سکتے ہیں۔کینیڈا بارڈر سروسز ایجنسی (سی بی ایس اے) کی یونین کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ادارہ کو عملے کی کمی کا سامنا ہے۔اس کے علاوہ پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ایک مسئلہ ہے۔اونٹاریو کے شہر برامپٹن بھی گاڑی چوری ہونے کی وارداتوں سے بہت متاثر ہے۔ حال ہی میں برامپٹن کے میئر پیٹرک براؤن نے امریکہ کی ریاست نیو جرسی کی بندرگاہ نیوارک میں کنٹینر ٹرمینل کا دورہ کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان معائنے کی حکمت عملی کا موازنہ کیا جا سکے۔انھوں نے نیشنل پوسٹ اخبار کو بتایا کہ امریکی حکام کے پاس جدید سکینرز موجود ہیں اور وہ قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔براؤن کہتے ہیں کہ ’یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم کینیڈا میں نہیں کرتے۔‘مئی میں کینیڈا کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ سی بی ایس اے کی شپنگ کنٹینرز کا معائنہ کرنے کی صلاحیت میں اضافے لے لیے سرمایہ کاری کرے گی۔ اس کے علاوہ پولیس اپنے علاقوں میں گاڑی چوری کی وارداتوں سے نمٹنے کے لیے اضافی رقم دی جائے گی۔لیکن ایلیئٹ سلورسٹائن کے مطابق گاڑیاں بنانے والے بھی اس معاملے کا حصہ ہیں جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہا۔انھوں نے کہا کہ ’ہر کوئی گاڑیوں کی برآمدگی کی کوششوں کی بات کر رہا ہے لیکن میری زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ ہم گاڑیوں کو ایسا کیوں نہیں بنا رہے کہ ان کو چوری کرنا مشکل ہو جائے؟‘لوگن جیسے کار مالکان اب بھی اس مشکل سے دوچار ہیں کہ وہ اپنی گاڑیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کریں۔انھوں نے ریم ریبل ٹرک چوری ہونے کے بعد انھوں ٹویوٹا ٹنڈرا خریدا جو بقول ان کے ان کا ’ڈریم ٹرک‘ ہے۔اس مرتبہ انھوں نے اپنے ٹرک کو چوری ہونے سے بچانے کے لیے ایک انجن امّوبیلائزر لگایا تاکہ چور آسانی سے ٹرک سٹارٹ نہ کر سکیں اور ساتھ میں سٹیئرنگ لاک بھی لگایا۔ اس کے علاوہ انھوں ایک ٹریکر بھی لگایا تاکہ اگر گاڑی چوری ہو بھی جائے تو معلوم کیا جا سکے کہ گاڑی کہاں ہے۔اس سب کے باوجود چوروں نے ایک بار پھر ان کا ٹرک چرانے کی کوشش کی۔ جب وہ گاڑی کھول نہ سکے تو انھوں نے اس میں داخل ہونے کے لیے ٹرک کی پچھلی کھڑکی توڑ دی۔اس شور شرابے سے لوگن کی آنکھ کھل گئی اور انھوں نے پولیس کو کال کر دی۔تاہم پولیس کو جائے واردات تک پہنچنے میں چار منٹ لگے اور اس دوران چور فرار ہو گئے۔انھوں نے اپنے نئے ٹرک کی مرمّت کروانے کے بعد اسے بیچ دیا۔لوگن کہتے ہیں کہ وہ اس سارے واقعے کی وجہ سے بہت ’دل برداشتہ‘ ہو گئے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}