وہ ترقی یافتہ ملک جسے کم وزن خواتین کا سامنا ہے: ’تم ایسے شہوت انگیز موٹے جسم کے ساتھ کیسے زندہ رہتی ہو‘،تصویر کا ذریعہSarah Mizugochi

  • مصنف, اساریہ پریتھنگیم
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
  • 2 گھنٹے قبل

اس تحریر میں کھانے پینے سے جڑی بیماریوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔’اگرچہ میں ہر وقت کھانے کے بارے میں سوچتی رہتی تھی مگر بھوکی بھی رہتی تھی۔ میں سال میں ایک بار کیک کھاتی تھی، وہ بھی صرف اپنی سالگرہ کے دن۔ تین چار سال ایسے ہی گزر گئے۔ میں بالکل خوش نہیں تھی۔‘یہ کہنا ہے جاپان سے تعلق رکھنے والی 29 سالہ سارہ میزوگچی کا جو اپنی نوعمری میں وزن کم ہونے کا شکار تھیں۔ تاہم جاپان میں سارہ جیسی کئی خواتین کو وزن کم ہونے کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔جاپان کی وزارت صحت کی جانب سے سنہ 2019 میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں 20 سے 29 سال کی درمیانی عمر کی ہر پانچ خواتین میں سے ایک کو وزن میں کمی کا سامنا ہے۔

جاپان دنیا کا وہ واحد ترقی یافتہ ملک ہے جہاں خواتین کا وزن کم ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ لانسیٹ میڈیکل جرنل کی 2024 کی ایک تحقیق کے مطابق جاپان کے علاوہ خواتین کا اتنا کم وزن دنیا کے غریب ترین ممالک میں بسنے والی خواتین میں ہوتا ہے۔تاہم جاپان میں خواتین کے وزن کو لے کر صورتحال ہمیشہ سے ایسی نہیں تھا۔ سنہ 1990 کی دہائی میں جاپانی لڑکیوں کا وزن نئی نسل کی جاپانی لڑکیوں کچھ زیادہ تھا۔ملک میں کیے جانے والے سرویز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوجوان جاپانی خواتین میں پتلے ہونے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔کچھ سال قبل جاپان کی نوجوان خواتین میں ’سنڈریلا ویٹ‘ (یعنی سنڈریلا جیسے وزن) کی اصطلاح متعارف کروائی گئی تھی۔ سنڈریلا ویٹ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کا وزن صحت مند افراد کے وزن کے زمرے میں نہ آئے تاہم اس سے بہت قریب ہو۔تاہم سنڈریلا ویٹ کو لے کر لوگوں میں آن لائن بحث چھڑ گئی کہ اُن کے نزدیک ایک صحت مند وزن کیا ہے اور حقیقت میں کتنا وزن کم کیا جا سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

جاپانی خواتین میں دبلے پتلے رہنے کا رجحان کیوں؟

جاپان کے ہماماتسو شہر میں سیری کرسٹوفر یونیورسٹی کے سکول آف نرسنگ کے پروفیسر ٹوموہیرو یاسودا نے کم وزن والی جاپانی خواتین کے بارے میں مطالعہ کیا ہے۔ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مطالعے میں شامل خواتین نے تسلیم کیا کہ انھیں وزن بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وہ خواتین جو وزن کم ہونے کا شکار تھیں، انھیں اوسطاً 10.3 کلو گرام وزن بڑھانے کی ضرورت تھی تاکہ وہ صحت مند لوگوں میں شمار ہو سکیں۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں انھیں کتنا وزن بڑھانے کی ضرورت ہے تو انھوں نے کہا اوسطاً 0.4 کلوگرام۔پروفیسر ٹوموہیرو یاسودا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جاپان میں نوجوان خواتین میں بہت زیادہ دبلا ہونے کا رجحان ہے جس کی وجہ سے انھیں بانجھ پن، پیدائش پر بچوں کا وزن کم ہونا اور سارکوپینیا (پٹھوں کی بیماری) جیسے مسائل کا سامنا ہے۔‘غذائیت کی کمی سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں، انیمیا (خون کی کمی) ہو سکتی ہے اور ماہواری میں غیر معمولی تبدیلیاں آ جاتی ہیں جبکہ پروٹین کی ناکافی مقدار کھانے کی وجہ سے لوگ پٹھوں کے مسائل سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ موٹاپے اور دبلے پن پر تبصرے کے دوران پروفیسر یاسودا کی کلاس میں کچھ طلبہ نے انھیں بتایا کہ وہ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی پسندیدہ مشہور شخصیات اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز پتلے ہیں۔انھوں نے کہا کہ خواتین میں نقصان دہ حد تک وزن کم کرنے کے رجحان میں جاپانی میڈیا کا بھی کردار ہے جبکہ لوگ ایک طویل عرصے سے امریکہ اور یورپ کے فیشن سے متاثر ہیں۔پروفیسر یاسودا کہتے ہیں کہ جاپانی میڈیا میں ہر عمر اور ہر رنگ روپ کے مرد دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ خواتین صرف جوان اور دبلی ہوتی ہیں۔’اور کیونکہ میڈیا میں زیادہ تر جوان اور دبلی پتلی خواتین نظر آتی ہیں، میرے خیال میں لوگوں کو یہ تاثر جاتا ہے کہ دبلا ہونا آپ کے لیے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔‘اس رپورٹ میں جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے، اگر آپ ان میں سے کسی بھی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں تو کسی صحت سے متعلق پروفیشنل یا انسٹیٹیوٹ سے ضرور رجوع کریں۔،تصویر کا ذریعہSarah Mizugochi

سارہ کا فوڈ انفلوئنسر بننے کا سفر

سارہ آج کل جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں رہائش پذیر ہیں اور بطور فوڈ انفلوئنسر کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ بچپن میں ان کے والدین نے انھیں پتلا ہونے کے لیے کہتے تھے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’میری والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں موٹی ہو جاؤں۔‘کھانے کے وقت ان کے والدین انھیں گوشت اور سبزیاں کھانے کو کہتے تھے اور چاول کھانے سے منع کرتے تھے کیونکہ اس میں کاربوہائیڈریٹس زیادہ ہوتے ہیں اور غذائیت کم ہوتی ہے۔کئی سالوں تک انھیں اسی طرح کھانا کھانے کی عادت تھی۔وہ سکول میں ایک چھوٹا سا لنچ باکس لے کر جاتی تھیں جس میں صرف سبزیاں اور گوشت ہوتا تھا۔ ’مجھے چاول کھانا بالکل نہیں پسند تھا۔‘جب وہ 12 برس کی ہوئیں تو انھیں ماڈلنگ کا شوق ہوا جو 15 برس کی عمر تک رہا۔ کھانے میں کتنی کیلوریز ہیں، انھیں اس کی فکر لاحق ہو گئی تھی۔’میں سکول میں ایک لڑکی سے مقابلہ کرتی تھی۔ ایک دن وہ لڑکی اپنے لنچ میں سلاد، سویے کی پھلی اور گوشت لائی۔ مجھے ابھی تک یاد ہے میں نے اس سے کہا تمہارا کھانا تو کیلوریز سے بھرا ہوا ہے!‘سارہ کو بہتر خوراک کھانے کی ضرورت ہے، اس کا اندازہ انھیں سیکنڈری سکول میں ہوا جب انھوں نے بیالوجی پڑھنا شروع کی۔’میں نے انسانی جسم کے بارے میں سیکھا اور اس وقت جیسے میرے ذہن میں خیال آیا۔ مجھے احساس ہوا کہ ہم سب کو غذائیت کی ضرورت ہے۔’سنہ 2011 میں جاپان میں زلزلہ اور سونامی آنے کے بعد جوہری تباہی کا ایک حادثہ پیش آیا۔سارہ نے بتایا ’ٹی وی پر ایک ماہر بتا رہے تھے کہ اگر آپ صحت مند ہوں گے تو آپ پر جوہری شعاعیں اس طرح اثر نہیں کریں گی جیسے کمزرو افراد پر کرتی ہیں۔ بیالوجی کی کلاس اور ماہر کی باتوں کی وجہ سے میں نے ٹھیک سے کھانا کھانا شروع کیا۔ اور میرا وزن بڑھنا شروع ہو کر تقریباً 45 کلوگرام ہو گیا۔‘پھر سارہ یونیورسٹی کے لیے برطانیہ چلی گئیں جہاں انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کو کیلوریز گننے کی اتنی عادت نہیں تھی چنانچہ انھوں نے مزید تین کلو گرام وزن بڑھا لیا۔’یونیورسٹی میں زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ تب تک سکون تھا جب تک میں چھٹّیاں منانے واپس جاپان نہیں آئی تھی۔ یہاں میرے اردگرد کے لوگ خاص طور پر میری والدہ نے کہا کہ میں گول مٹول ہوتی جا رہی ہوں۔ اس لیے مجھے کچھ کلو گرام وزن کم کرنا پڑا تاہم وہ وزن زیادہ دن برقرار نہیں رہا۔‘چار سال قبل جب سارہ 25 برس ہو گئیں تو انھوں نے پھر سے چاول کھانے شروع کر دیے۔’میں بہت خوش اور صحت مند ہوں۔ میں نے سات کلو گرام وزن بڑھا لیا ہے اور یہ صحت مند وزن میں شمار ہوتا ہے۔ میرے پٹھے بھی مضبوط ہیں کیونکہ میں ورزش بھی کرتی ہوں۔‘

جاپان میں خوبصورتی کے معیار کو چیلنج کرنا

جاپان میں کم وزن کے رجحان اور خوبصورتی کے معیار کے خلاف کچھ شخصیات آواز اٹھانا شروع ہو گئی ہیں۔25 سالہ ڈلمی اوباٹا ایک مشہور ماڈل ہیں۔ وہ جاپانی شہری ہیں مگر وہ سری لنکن نژاد ہیں جس کے باعث اُن کی رنگت سانولی ہے اور جسامت بھی بھاری ہے۔ ان کے بالوں کی ساخت بھی جاپانی افراد سے مختلف تھی جس وجہ سے سکول میں بچے انھیں بہت تنگ کرتے تھے۔جب ڈلمی اوباٹا پرائمری سکول میں تھی تو کچھ لڑکے انھیں ’کالی لڑکی‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ باقی بچے ان سے کھلونے شیئر نہیں کرتے تھے۔وہ بتاتی ہیں کہ ‘بچوں کو لگتا تھا کہ میرے ہاتھ گندے ہیں۔ مجھے بہت بُرا لگتا تھا۔‘ڈلمی نے بتایا کہ جب وہ 13 برس کی ہوئیں اور بلوغت کی عمر کو پہنچیں تو انھوں نے غور کیا کہ ان کی جسمات سڈول اور کسرتی تھی۔ تاہم انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔سنہ 2021 میں انھوں نے پلس سائز یعنی بڑے جسم کی ماڈلز کے بارے میں مطالعہ کیا اور مِس یونیورس جاپان کے مقابلے میں حصّہ لیا۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ اس مقابلے میں باقی خواتین دبلی جسمات کی ہوں گی جس کا جاپان جیسے ملک میں ’رجحان‘ زیادہ ہے۔تاہم مقابلہ جیتنے کے لیے انھوں نے وزن کم کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ’میں چاہتی تھی کہ اپنے جسم کو لے کر ہم مثبت سوچ کو اپنائیں اور میں پلس سائز ماڈل بننا چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ جاپان میں خوبصورتی کے معیار بدلیں۔‘مقابلے میں ڈلمی فائنل راؤنڈ تک پہنچ گئیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مقابلے کی تاریخ میں وہ پہلی پلس سائز خاتون ہیں جنھوں نے اس میں حصّہ لیا۔’مجھے خود پر بہت فخر ہے۔ بچپن کے تجربوں کی وجہ سے میری اندر خود اعتمادی وقتاً فوقتاً کم ہو جاتی تھی۔ مجھے اندازہ ہے کہ شاید ابھی بھی میں 100 فیصد پر اعتماد نہیں ہوں لیکن میں ٹھیک ہوں۔‘

پدر شاہی معاشرہ

امریکہ کی یونیورسٹی آف کینساس میں جاپانی تاریخ اور جاپانی کھانے کی ثقافت پڑھانے والے ایرک راتھ نے بتایا کہ جاپانی ثقافت میں دُبلا ہونا خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’اگر آپ کیمونو (جاپانی قومی لباس) کے بارے میں سوچیں تو اس کا ڈیزائن عمودی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ڈیزائن لمبی اور دبلی خواتین پر زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔ جب خواتین اسے اپنے اردگرد لپیٹ لیتی ہیں تو ان کی جسامت واضح ہوتی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ جاپانی معاشرہ پدر شاہی ہے جس میں مردوں کی پسند ناپسند کو ترجیح دی جاتی ہے۔’اگر آپ جاپانی تھیٹر کو دیکھیں تو اس میں خواتین کے کردار مرد ادا کرتے تھے اور یہ دبلے ہوا کرتے تھے۔ یہ عورت کے حسن کو لے کر مردوں کا تصور ہے اور اسی کی عکاسی ہے۔‘تاہم انھوں نے کہا کہ آج کی خواتین کو الگ تعصب کا سامنا ہے۔’انھیں شادی کرنی ہے، بچے پیدا کرنے ہیں۔ اگر وہ نوکری کرتی ہیں تو انھیں کام کی جگہ میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان چیزوں کو خواتین کنٹرول نہیں کر سکتیں لیکن وزن ایک ایسی چیز ہے جو ان کے قابو میں ہے۔ وہ اسے انتہا پر لے جاتی ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہAsako Nakamura

کمزور رہنے کا کلچر جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے

جاپانی حکومتیں خواتین کے کم وزن کے مسئلے پر مختلف اقدامات اٹھاتی رہی ہیں جس میں طلبہ کو غذائیت کے بارے میں آگاہی دینا بھی شامل ہے۔مارچ 2000 میں حکومت نے غذائیت کے حوالے سے لوگوں کی بہتر رہنمائی کے لیے ہدایات جاری کیں۔ ان ہدایات میں سے ایک میں لکھا تھا کہ عوام کو ورزش اور متوازن غذا کے ساتھ صحت مند وزن بر قرار رکھنا چاہیے اور انھیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ وزن زیادہ کم نہ کر لیں۔سنہ 2022 میں حکومت نے ایک اقدام اٹھایا جس میں معاشرے کے مختلف لوگوں کو اس میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا۔ اس اقدام میں بتایا گیا کہ نوجوان خواتین میں وزن کم کرنے کی کوشش سمیت غذائیت کے مسائل ہیں۔کچھ علاقوں کے مقامی حکام نے اقدام اٹھایا کہ سیکنڈری سکول سے لے کر یونیورسٹی تک طلبہ کو تعلیم دی جائے کہ کمزور ہونا خوبصورتی کی علامت نہیں اور انھیں غذائیت کے بارے میں معلومات دیں جس میں خواتین کے ماہانہ چیک اپ اور انفرادی سطح پر غذائیت کے بارے میں کونسلنگ شامل ہیں۔ تاہم ’بلوم کریئیٹو‘ نامی پلس سائز ماڈلز کی کمپنی چلانے والی یاسوکو نے اپنا خاندانی نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ جاپان میں پلس سائز خواتین کو ابھی بھی تعصب کا سامنا ہے اور تاریخ میں دبلی خواتین کے مقابلے ان کی قدر ’کم‘ تصور کی گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ جو خواتین بھاری جسم کی حامل ہیں انھیں اپنی جسامت کی وجہ سے والدین نے ٹھکرایا ہوتا ہے۔ ان کے دوست ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو معاشرے سے ’غائب‘ محسوس کرتی ہیں کیونکہ ان کے ناپ کے کپڑے نہیں ملتے۔ایشیا میں تیار ہونے والے کپڑے مشرق کے کپڑوں کے سائز سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن جاپان میں کپڑوں کا سائز باقی دنیا کے مقابلہ کچھ زیادہ ہی کم ہے۔ کپڑوں کی کچھ ویب سائٹس مشرق سے آنے والے لوگوں کو تجویز کرتی ہیں کہ جب وہ جاپان میں کپڑے خریدیں تو اپنے عام سائز سے چار گنا بڑا سائز لیں۔اپنے ساتھ پیش آیا ایک واقعہ دہراتے ہوئے یاسوکو نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ ٹرین میں سفر کر رہی تھیں۔’ٹرین کی بھیڑ میں موجود ایک عجیب آدمی نے مجھے چُھوا اور کہا کہ تم ایسے بھدے اور شہوت انگیز موٹے جسم کے ساتھ کیسے زندہ رہتی ہو؟ تمھیں شرم نہیں آتی؟‘انھوں نے اس آدمی کی بات کو نظر انداز کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ تعصب کا مقابلہ اپنے کام کے ذریعے کرنا چاہتی ہیں تاکہ آنے والی پلس سائز خواتین کی نسلوں کو یہ مسائل پیش نہیں آئیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}