اس تمام وقت ان کی آنکھیں سڑک پر کسی بڑی سی چیز کی تلاش میں رہتی ہیں جو ارگرد جھاڑیوں اور تالابوں میں شور برپا کر رہی ہو۔ایمی کے لیے یہ خطرناک نوکری صرف شوق پورا کرنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی نظام کو بچانے کی کوشش بھی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ’برمیز پائتھن‘ 1990 کے وسط میں فلوریڈا بطور ایک پالتو جانور لائے گئے تھے۔ 1996 سے 2006 تک امریکہ میں تقریباً 99 ہزار ’برمیز پائتھن‘ لائے گئے جنھیں بطور پالتو جانور فروخت کیا گیا۔لیکن جب ان میں سے کچھ اژدھے جنگلوں کی طرف بھاگ نکلے تو انھیں وہاں جنت سا ماحول میسر آیا کیونکہ وہاں انھیں اپنی خوراک کے لیے نہ صرف چوہے، گلہریاں اور پرندوں جیسے چھوٹے جانور نظر آئے بلکہ ادھر ہرن اور گھڑیال بھی وافر مقدار میں موجود تھے۔’پائتھن‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شکار کا پیچھا کرنے کے لیے اپنے سونگھنے کی حس کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا پیچھا کرکے انھیں دبوچ کر موت کے گھاٹ اُتار کر انھیں نگل جاتے ہیں۔ایمی اکثر ان اژدھوں کو ڈھونڈنے کے لیے 75 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہی ہوتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ اژدھے اپنا 85 فیصد وقت ساکت حالت میں گزارتے ہیں اور اگر وہ جھاڑیوں میں گُھس جائیں تو انھیں پکڑنا تقریباً نا ممکن ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اپنا رنگ تبدیل کر لیتے ہیں۔ تو اگر آپ کوئی اژدھا ایک بار دیکھ لیں تو اسے پکڑنے میں ہچکچا نہیں سکتے۔‘جب ایمی کوئی اژدھا دیکھ لیتی ہیں تو فوراً اپنی گاڑی پر سے اُترتی ہیں اور اس جانور پر چھلانگ لگا کر اس کا سر پیچھے کی طرف سے دبوچ لیتی ہیں۔یہ شکاری اکثر جوڑیوں کی صورت میں شکار پر نکلتے ہیں اور ایمی کے ساتھ موجود ان کے ساتھیوں کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک ٹیپ کے ذریعے اژدھے کا منہ بند کر دیں۔’برمیز پائتھن‘ زہریلے تو نہیں ہوتے لیکن ان کے دانت انتہائی بڑے اور نوکیلے ہوتے ہیں۔ اگر یہ شکاری کو کاٹ لیں تو اسے شدید تکلیف میں مبتلا کر سکتے ہیں۔تمام تر خطرات کے باوجود ایمی کو اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ میرے ہر سانپ پکڑنے سے دنیا پر ایک مثبت فرق پڑ رہا ہے۔‘
پیسوں کے عوض سانپ پکڑنے والے
،تصویر کا ذریعہCredit: South Florida Water Management District
ماحولیاتی نظام کی تباہی
،تصویر کا ذریعہCredit: Water Management District
اژدھوں کا خاتمہ ماحولیاتی نظام کو بچا سکتا ہے؟
،تصویر کا ذریعہCredit: South Florida Water Management District
پائتھن اژدھوں کو پکڑنے کا سالانہ میلہ
واٹر مینجمنٹ بورڈ سالانہ ایک ایسا مقابلہ منعقد کرتا ہے جس میں شرکت کرنے کے لیے لوگ دُنیا کے دور دراز کے علاقوں سے بھی آتے ہیں۔ اس مقابلے میں جو شکاری سب سے بڑا ’برمیز پائتھن‘ پکڑنے میں کامیاب ہوتا ہے اُسے 30 ہزار ڈالر بطور انعام دیے جاتے ہیں۔یہ سال کا وہ واحد وقت ہوتا ہے جب شہریوں کو ان اژدھوں کو پکڑنے پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پورے سال صرف رجسٹرڈ شکاری ہی ان اژدھوں کو پکڑنے پر انعامی رقم کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود بھی فلوریڈا کے شہری اور وہاں آنے والے سیاح ’برمیز پائتھن‘ کا شکار کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔فلوریڈا کے شہریوں اور وہاں آنے والے سیاحوں کے شکار کا شوق ایمی کو بھی شدید مصروف رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ افریقہ میں اور دُنیا بھر میں شکار کر رہے ہیں اور اب انھوں نے پائتھن کا شکار کرنے کے لیے فلوریڈا کا رُخ کر لیا ہے۔‘لیکن مائیک کہتے ہیں کہ وہاں پائتھن کے شکار کے لیے عام لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان اژدھوں کو پُرسکون موت دی جائے۔’ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ پائتھن اژدھوں کو مارتے وقت انھیں کم سے کم تکلیف پہنچائیں اور اسے کھیل نہ سمجھیں۔‘’وہ بھی ایک سانس لینے والی مخلوق ہے جس کا اپنا تو کوئی قصور نہیں۔‘ایمی اور ڈونا بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سانپوں اور اژدھوں سے اُنسیت رکھتے ہیں۔ڈونا کہتی ہیں کہ ’میرے لیے سب سے مشکل کام ان اژدھوں کو موت کی نیند سُلانا ہوتا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ہمیں دیگر ہزاروں جانوروں کو بچانے کے لیے ایک برمیز پائتھن کو مارنا ہی پڑتا ہے۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو اکثر انھیں خرگوش نظر آجایا کرتے تھے لیکن جب سے وہ بڑی ہوئی ہوں انھوں نے کوئی خرگوش نہیں دیکھا کیونکہ ہر طرف پائتھن اژدھے ہی نظر آتے ہیں جو پرندوں اور گھڑیالوں کو کھا رہے ہوتے ہیں۔جب شکاری کوئی پائتھن پکڑ لیتے ہیں تو وہ مائیک کی ٹیم کو اس حوالے سے اطلاع دیتے ہیں۔ شکاریوں کو ان اژدھوں کی کھال اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔اگر آپ کو بھی لگتا ہے کہ آپ راتوں میں کسی لحیم شحیم اژدھے کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یاد رکھیں مائیک کو اب بھی آپ جیسے شکاریوں کی تلاش ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.