وہ امریکی ریاست جہاں پائتھن اژدھوں کو مارنے کا انعام ڈالر میں دیا جاتا ہے،تصویر کا ذریعہ(Image credit: Amy Siewe)
،تصویر کا کیپشنکہا جاتا ہے کہ ’برمیز پائتھن‘ 1990 کے وسط میں فلوریڈا بطور ایک پالتو جانور لائے گئے تھے
ایک گھنٹہ قبل’پائتھن ہنٹر‘ یعنی اژدھے کی شکاری کے نام سے مشہور ایمی سیوے جنوبی فلوریڈا کی سڑکوں اور گھاس سے گھرے علاقوں میں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں۔وہ دراصل ایک 20 فُٹ لمبے ’برمیز پائتھن‘ کی تلاش میں ہیں جو اس علاقے میں اپنے شکار کو دبوچنے اور اپنی بھوک مٹانے کی غرض سے گھوم رہا ہے۔ایمی اس مادہ پائتھن اژدھے کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’آپ کو نہیں معلوم کہ وہ اژدھا کب سڑک کے اس پار آجائے، اس لیے آپ کو یہاں اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘سرد موسم میں ایمی دن کی روشنی میں پائتھن نامی اژدھوں کو پکڑ رہی ہوتی ہیں، لیکن جنوبی فلوریڈا کی گرمیوں میں وہ یہ کام راتوں میں کیا کرتی ہیں۔ اپنے ٹرک کے پیچھے وہ بیٹھی ہوتی ہیں اور چہرے پر بڑے چشمے لگائے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ کیڑوں سے بچا جا سکے۔

اس تمام وقت ان کی آنکھیں سڑک پر کسی بڑی سی چیز کی تلاش میں رہتی ہیں جو ارگرد جھاڑیوں اور تالابوں میں شور برپا کر رہی ہو۔ایمی کے لیے یہ خطرناک نوکری صرف شوق پورا کرنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی نظام کو بچانے کی کوشش بھی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ’برمیز پائتھن‘ 1990 کے وسط میں فلوریڈا بطور ایک پالتو جانور لائے گئے تھے۔ 1996 سے 2006 تک امریکہ میں تقریباً 99 ہزار ’برمیز پائتھن‘ لائے گئے جنھیں بطور پالتو جانور فروخت کیا گیا۔لیکن جب ان میں سے کچھ اژدھے جنگلوں کی طرف بھاگ نکلے تو انھیں وہاں جنت سا ماحول میسر آیا کیونکہ وہاں انھیں اپنی خوراک کے لیے نہ صرف چوہے، گلہریاں اور پرندوں جیسے چھوٹے جانور نظر آئے بلکہ ادھر ہرن اور گھڑیال بھی وافر مقدار میں موجود تھے۔’پائتھن‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شکار کا پیچھا کرنے کے لیے اپنے سونگھنے کی حس کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا پیچھا کرکے انھیں دبوچ کر موت کے گھاٹ اُتار کر انھیں نگل جاتے ہیں۔ایمی اکثر ان اژدھوں کو ڈھونڈنے کے لیے 75 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہی ہوتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ اژدھے اپنا 85 فیصد وقت ساکت حالت میں گزارتے ہیں اور اگر وہ جھاڑیوں میں گُھس جائیں تو انھیں پکڑنا تقریباً نا ممکن ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اپنا رنگ تبدیل کر لیتے ہیں۔ تو اگر آپ کوئی اژدھا ایک بار دیکھ لیں تو اسے پکڑنے میں ہچکچا نہیں سکتے۔‘جب ایمی کوئی اژدھا دیکھ لیتی ہیں تو فوراً اپنی گاڑی پر سے اُترتی ہیں اور اس جانور پر چھلانگ لگا کر اس کا سر پیچھے کی طرف سے دبوچ لیتی ہیں۔یہ شکاری اکثر جوڑیوں کی صورت میں شکار پر نکلتے ہیں اور ایمی کے ساتھ موجود ان کے ساتھیوں کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک ٹیپ کے ذریعے اژدھے کا منہ بند کر دیں۔’برمیز پائتھن‘ زہریلے تو نہیں ہوتے لیکن ان کے دانت انتہائی بڑے اور نوکیلے ہوتے ہیں۔ اگر یہ شکاری کو کاٹ لیں تو اسے شدید تکلیف میں مبتلا کر سکتے ہیں۔تمام تر خطرات کے باوجود ایمی کو اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ میرے ہر سانپ پکڑنے سے دنیا پر ایک مثبت فرق پڑ رہا ہے۔‘

پیسوں کے عوض سانپ پکڑنے والے

،تصویر کا ذریعہCredit: South Florida Water Management District

،تصویر کا کیپشن1996 سے 2006 تک امریکہ میں تقریباً 99 ہزار ’برمیز پائتھن‘ لائے گئے
ایمی نے تقریباً چار برس جنوبی فلوریڈا کے واٹر مینجمنٹ ڈسٹرکٹ کے ساتھ کام کیا ہے جہاں ان کا کام پائتھن اژدھوں کو پکڑنا تھا۔اس نوکری کے دوران انھیں فی گھنٹہ 13 سے 18 ڈالر ملتے تھے اور ہر پائتھن کو پکڑنے پر اضافی بونس بھی۔چار فٹ یا اس سے چھوٹا پائتھن پکڑنے پر انھیں 50 ڈالر ملتے تھے اور اگر اژدھا اس سے بڑا ہو تو انھیں 25 ڈالر فی فٹ کے حساب سے مزید رقم ملتی تھی۔اسی طرح اگر کوئی شکاری ان اژدھوں کا بِل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائے تو اسے بطور انعام 200 ڈالر دیے جاتے ہیں۔جنوبی فلوریڈا میں اژدھوں کو مارنے کی اجازت ہے اس لیے ان لحیم شحیم جانوروں کو زندہ ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جایا جاسکتا۔فلوریڈا میں شکاریوں کو ان اژدھوں کو ’بولٹ گن‘ کے ذریعے مارنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ جنوبی فلوریڈا کو ’برمیز پائتھن‘ سے پاک کرنے کا پروگرام شروع کیا گیا تھا اور اب تک اس پروگرام کے تحت سات ہزار 330 اژدھوں کو مارا جا چکا ہے۔ان اژدھوں میں بڑی تعداد ان کی جن کے لمبائی چار فٹ کے اندر تھی، جبکہ وہاں پکڑے گئے 17 اژدھے ایسے بھی تھے جن کی لمبائی 16 سے 17 فٹ تھی۔ایمی نے اژدھوں کے شکار کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی شروع کر رکھا ہے۔ وہ مارے جانے والے اژدھوں کی کھال سے مختلف چیزیں بنا لیتی ہیں۔انھیں اس کام کے دوران اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ واٹر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کی نوکری چھوڑ کر اپنی ذاتی حیثیت میں جنوبی فلوریڈا آنے والے سیاحوں کو اپنے ساتھ اژدھوں کے شکار پر لے جا کر زیادہ رقم کما سکتی ہیں۔شاید کچھ لوگ ایمی کے کیریئر کے چناؤ پر سوال بھی اُٹھاتے ہوں لیکن وہ ان مُٹھی بھر لوگوں میں سے ہیں جو فلوریڈا میں پائتھن کا شکار کر کے ایک اچھی اور خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔

ماحولیاتی نظام کی تباہی

،تصویر کا ذریعہCredit: Water Management District

،تصویر کا کیپشنمائیک کرکلینڈ پائتھن اژدھوں کو پکڑنے اور ان سے آبی علاقوں کو پاک کرنے کے پروگرام کے بانی بھی ہیں
’برمیز پائتھن‘ کی فلوریڈا کے آبی جنگلی علاقوں میں آمد حادثاتی طور پر ہوئی تھی کیونکہ انھیں بطور پالتو جانور فروخت کیا جاتا تھا اور ان کی مانگ بھی بہت تھی۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے آبی جنگلی علاقوں میں اس لحیم شحیم جانور کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی جس نے وہاں ماحولیاتی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ان اژدھوں کو بھوک بہت زیادہ لگتی ہے اور ان کی خوراک بننے کے لیے وہاں دیگر جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔جنوبی فلوریڈا کے واٹر مینجمنٹ ڈسڑکٹ سے بطور بائیولوجسٹ منسلک مائیک کرکلینڈ لینڈ کہتے ہیں کہ ’ان پائتھن اژدھوں نے ہمارا ماحولیاتی نظام تباہ کرکے رکھا دیا ہے۔‘مائیک کرکلینڈ پائتھن اژدھوں کو پکڑنے اور ان سے آبی علاقوں کو پاک کرنے کے پروگرام کے بانی بھی ہیں۔مائیک کے مطابق 1990 کی دہائی میں پائتھن اس علاقے میں آئے تھے اور اس وقت سے اب تک یہاں پروں والے جانوروں کی آبادی میں 90 سے 95 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان علاقوں میں راکون کی آبادی 99 فیصد تک ختم ہوگئی ہے اور یہاں خرگوش تو اب نظر ہی نہیں آتے۔مائیک نے بی بی سی فیوچر کو بتایا کہ ’دو برس پہلے یہ جگہ جنگلی حیات سے مالا مال تھی۔ اب میں چیلنج کرتا ہوں کہ آپ یہاں مجھے ایک ہرن، گلہری یا خرگوش ڈھونڈ کر دکھائیں۔‘مائیک اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے 2017 کی ایک ویڈیو کا سہارا لیتے ہیں جس میں ایک پائتھن اژدھے کو ایک گھڑیال کے جسم پر لپٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

اژدھوں کا خاتمہ ماحولیاتی نظام کو بچا سکتا ہے؟

،تصویر کا ذریعہCredit: South Florida Water Management District

،تصویر کا کیپشنسنہ 2021 میں فلوریڈا میں ’برمیز پائتھن‘ کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا جن کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے
جب مائیک کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا تھا تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ صرف پائتھن اژدھوں کا خاتمہ کرنے سے ماحول کو بچایا نہیں جا سکتا۔مائیک پائتھن کا شکار کرنے والے لوگوں کو ’جوشیلے افراد‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے شکاریوں کو واٹر مینجمنٹ بورڈ کے زیرِ انتظام تمام علاقوں تک رسائی دی گئی۔اس مہم کو تین مہینے کے آزمائشی پروگرام کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور مائیک کو لگتا تھا کہ انھیں زیادہ پزیرائی بھی نہیں ملے گی۔ لیکن آج اس پروگرام کو شروع ہوئے آٹھ برس کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے تحت کام کرنے والے ملازمین کی تعداد بھی دُگنی ہو چکی ہے۔اس وقت واٹر مینجمنٹ بورڈ کے ساتھ تقریباً 50 کے قریب کنٹریکٹرز نو سے زائد کاؤنٹیز میں کام کر رہے ہیں۔ڈونا کلیل ان کنٹریکٹرز میں شامل ہیں جو اس پروگرام کی ابتدا سے ہی مائیک کے پروگرام کے ساتھ منسلک ہیں۔اب تک ڈونا تقریباً 850 کے قریب پائتھن اژدھے پکڑ چکی ہیں۔ڈونا کہتے ہیں ’چونکہ یہ انتہائی تیزی سے نشو ونما پانے والے جانور ہیں اس لیے وہ بہت جلد دیگر علاقوں تک منتقل ہو جاتے ہیں اور ماحول میں بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔ اس لیے شکاریوں کو بھی جلدی جلدی چیزیں سیکھنا پڑتی ہیں تاکہ ان اژدھوں کے بارے میں نئی معلومات حاصل کی جا سکے، کیونکہ ہر مقام مختلف ہوتا ہے، وہاں کا ماحول مختلف ہوتا ہے، ایسے میں ہمارا کام کسی شطرنج کی بساط کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔‘جب سے یہ پروگرام شروع ہوا تب سے اب تک فلوریڈا کی ریاست میں 8 ہزار 565 پائتھن اژدھوں کو مارا جا چکا ہے۔لیکن مائیک کہتے ہیں کہ صرف پائتھن کے شکار کے ذریعے ہی ماحولیاتی نظام کو نہیں بچایا جا سکتا بلکہ اس کے لیے تعلیم، پالیسی اور سائنس کا سہارا لینا پڑے گا۔اس ضمن میں فلوریڈا میں پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا سلسلہ کافی عرصہ پہلے شروع کیا گیا تھا۔سنہ 2021 میں فلوریڈا میں ’برمیز پائتھن‘ کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا جن کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے۔ جن افراد کے پاس یہ اژدھے موجود ہیں انھیں کہا گیا کہ وہ ان جانوروں کو رجسٹرز کروائیں اور ان کے جسم میں مائیکروچِپ بھی نصب کروائیں۔اس سب کے باوجود بھی مائیک اور ان کی ٹیم نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کی تگ و دو میں ہے جس کا استعمال کر کے ان اژدھوں کو ڈھونڈنا آسان بنایا جا سکے۔اس پروگرام کے دوران کچھ پائتھن اژدھوں کے جسم میں مائیکروچپ لگاکر انھیں آزاد کیا گیا تاکہ وہ شکاریوں کو دیگر اژدھوں تک پہنچنے میں مدد دے سکیں۔ اگر ایسا کوئی اژدھا کسی مادہ پائتھن کے بِل تک پہنچ جائے تو شکاریوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا کیونکہ ایک مادہ پائتھن ایک وقت میں 100 سو زائد انڈے دے سکتی ہے۔فلوریڈا کا واٹر مینجمنٹ بورڈ اس وقت محکمہ وائلڈ لائف کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہا ہے تاکہ ایک کیمرا سسٹم متعارف کروایا جا سکے تاکہ انھیں اژدھوں کو ڈھونڈنے میں آسانی ہو سکے۔،تصویر کا ذریعہCredit: Amy Siewe
،تصویر کا کیپشناس وقت واٹر مینجمنٹ بورڈ کے ساتھ تقریباً 50 کے قریب کنٹریکٹرز نو سے زائد کاؤنٹیز میں کام کر رہے ہیں

پائتھن اژدھوں کو پکڑنے کا سالانہ میلہ

واٹر مینجمنٹ بورڈ سالانہ ایک ایسا مقابلہ منعقد کرتا ہے جس میں شرکت کرنے کے لیے لوگ دُنیا کے دور دراز کے علاقوں سے بھی آتے ہیں۔ اس مقابلے میں جو شکاری سب سے بڑا ’برمیز پائتھن‘ پکڑنے میں کامیاب ہوتا ہے اُسے 30 ہزار ڈالر بطور انعام دیے جاتے ہیں۔یہ سال کا وہ واحد وقت ہوتا ہے جب شہریوں کو ان اژدھوں کو پکڑنے پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پورے سال صرف رجسٹرڈ شکاری ہی ان اژدھوں کو پکڑنے پر انعامی رقم کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود بھی فلوریڈا کے شہری اور وہاں آنے والے سیاح ’برمیز پائتھن‘ کا شکار کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔فلوریڈا کے شہریوں اور وہاں آنے والے سیاحوں کے شکار کا شوق ایمی کو بھی شدید مصروف رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ افریقہ میں اور دُنیا بھر میں شکار کر رہے ہیں اور اب انھوں نے پائتھن کا شکار کرنے کے لیے فلوریڈا کا رُخ کر لیا ہے۔‘لیکن مائیک کہتے ہیں کہ وہاں پائتھن کے شکار کے لیے عام لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان اژدھوں کو پُرسکون موت دی جائے۔’ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ پائتھن اژدھوں کو مارتے وقت انھیں کم سے کم تکلیف پہنچائیں اور اسے کھیل نہ سمجھیں۔‘’وہ بھی ایک سانس لینے والی مخلوق ہے جس کا اپنا تو کوئی قصور نہیں۔‘ایمی اور ڈونا بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سانپوں اور اژدھوں سے اُنسیت رکھتے ہیں۔ڈونا کہتی ہیں کہ ’میرے لیے سب سے مشکل کام ان اژدھوں کو موت کی نیند سُلانا ہوتا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ہمیں دیگر ہزاروں جانوروں کو بچانے کے لیے ایک برمیز پائتھن کو مارنا ہی پڑتا ہے۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو اکثر انھیں خرگوش نظر آجایا کرتے تھے لیکن جب سے وہ بڑی ہوئی ہوں انھوں نے کوئی خرگوش نہیں دیکھا کیونکہ ہر طرف پائتھن اژدھے ہی نظر آتے ہیں جو پرندوں اور گھڑیالوں کو کھا رہے ہوتے ہیں۔جب شکاری کوئی پائتھن پکڑ لیتے ہیں تو وہ مائیک کی ٹیم کو اس حوالے سے اطلاع دیتے ہیں۔ شکاریوں کو ان اژدھوں کی کھال اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔اگر آپ کو بھی لگتا ہے کہ آپ راتوں میں کسی لحیم شحیم اژدھے کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یاد رکھیں مائیک کو اب بھی آپ جیسے شکاریوں کی تلاش ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}