وہ استانی جنھیں دو بچوں کو پڑھانے کے لیے روزانہ 200 کلومیٹر لفٹ لے کر سفر کرنا پڑتا ہے
- مصنف, فلیپے لامبیاس
- عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
سڑک کنارے، جہاں روٹ 56 شروع ہوتا ہے، وہ بطور استانی شناخت کرنے والے سفید کوٹ کو زیب تن کیے ہوئے اپنا سیدھا ہاتھ پھیلائے کھڑی ہیں۔
موسم سرما کی ایک یخ بستہ صبح کے آٹھ بجے ہیں۔ 29 سالہ ماریا ڈومنگیز یورو گوائے کے فلوریڈا شہر کے باہر کھڑی کسی ڈرائیور کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ کوئی دیکھ کر انھیں لفٹ دے۔
انھیں 10 بجے تک یورو گوائے کے علاقے پاسو ڈیلا کرز پہنچنا ہے، جو ان کے گھر سے 108 کلومیٹر دور دیہی علاقہ ہے، تاکہ وہ چار سالہ جولیانا اور نو سالہ بینجمن کو پڑھا سکیں۔
ماریا نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’یہ دونوں بچے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک دور دراز علاقے میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔‘
ماریا کے پاس اس سفر کے لیے اور کوئی راستہ نہیں۔ وہ روزانہ لفٹ مانگنے پر مجبور ہیں جسے لاطینی امریکہ میں ’ہچ ہائیکنگ‘ کہا جاتا ہے۔
ان کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے۔ ہوتی بھی تو وہ روزانہ اتنے طویل سفر کے لیے پیٹرول ڈلوانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔
ان کے پاس ایک موٹر سائیکل ضرور ہے۔ لیکن اس پر اتنا طویل سفر کرنا ناممکن سا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’راستہ بھی اچھا نہیں ہے۔ پہلی بار میں نے موٹر سائیکل پر جانے کی کوشش کی اور میں نے اسے تباہ کر لیا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اس راستے پر بہت گاڑیاں چلتی ہیں جس کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔‘
مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔
اگر وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر جانا چاہیں تو پہلی بس چھ بج کر 15 منٹ پر فلوریڈا سے نکلتی ہے اور دوسری بس کا وقت نو بجے ہے لیکن اکثر اسے ساڑھے نو بج جاتے ہیں۔ اس لیے وہ کہتی ہیں کہ ان کے ذریعے ’میں کبھی وقت پر نہ پہنچ سکوں۔‘
واپسی کے سفر کے لیے سکول کے قریب سے ایک بس سورج غروب ہونے کے بعد نکلتی ہے۔ اور آگے کے راستے کے لیے اگلے دن تک کوئی بس نہیں چلتی۔
چار مراحل کا سفر
ماریا صبح اٹھ کر پہلا سفر اپنی موٹر سائیکل پر ہی کرتی ہیں۔ ایک سروس سٹیشن پر وہ موٹر سائیکل چھوڑ دیتی ہیں۔ اکثر وہ چابی بھی چھوڑ دیتی ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کی موٹر سائیکل کو کوئی نہیں چھیڑے گا۔
یہ موٹر سائیکل بھی ان کا اپنا نہیں بلکہ ان کے پارٹنر کا ہے جو اسے استعمال نہیں کرتے۔ پھر وہ اپنی ساتھی نویلیا کا انتظار کرتی ہیں جو ایک اور دیہی سکول میں کام کرتی ہیں۔
پھر وہ دونوں لفٹ لیتی ہیں اور ان کا پہلا سفر 31 کلومیٹر کا ہوتا ہے۔ ماریا کے مطابق زیادہ تر ان کو ٹرک ڈرائیور لفٹ دے دیتے ہیں۔
وہ سین گبرئیل قصبے میں اتر جاتی ہیں۔ یہاں سے ایک اور جانب سڑک نکلتی ہے جہاں وہ ایک بار پھر لفٹ کے انتظار میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔
اس مقام کے بعد ان کو 63 کلومیٹر کا مزید سفر کرنا ہے۔ نویلیا کچھ ہی دور جا کر اتر جاتی ہیں کیونکہ ان کی منزل آ چکی ہے۔
کبھی کبھار ماریا کے مطابق ان کو لفٹ دینے والا ڈرائیور ان کی منزل سے پہلے ہی سفر ختم کر دیتا ہے تو ان کو تیسری لفٹ بھی لینا پڑ جاتی ہے۔
40 منٹ کے سفر کے بعد وہ ایک دیہی علاقے میں پہنچ جاتی ہیں۔ یہاں ’ایکو‘ ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا موٹر سائیکل ہے جو ان کی والدہ نے ان کو اس وقت تحفے میں دیا تھا جب وہ 15 سال کی ہوئی تھیں۔
اس قصبے کے ایک مقامی کاشتکار نے ایکو کی ذمہ داری لے رکھی ہے جس پر سوار ہو کر وہ اپنی حتمی منزل پر پہنچتی ہیں۔
ماریا نے 2019 میں تعلیم مکمل کی اور اگلے ہی سال کورونا کی وبا دنیا بھر کی طرح یوروگوائے میں پھیل گئی اور سکولوں میں کلاسز معطل کر دی گئیں۔
مئی 2020 میں پابندی سب سے پہلے دیہی علاقوں میں ختم ہوئی۔ اسی وقت علاقے میں سکولوں کے ڈائریکٹر نے ماریا سے رابطہ کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے ہاں کر دی اور بعد میں پوچھا کہ میں نے اس علاقے تک پہنچنا کیسے ہے۔‘
2020 اور 2021 میں ان سکولوں تک بس دستیاب تھی۔ گزشتہ ایک سال سے ان کو لفٹ لینا پڑی ہے۔ کسی اور ذریعے کی غیر موجودگی میں ان کو اپنے موٹر سائیکل کا سہارا لینا پڑا جو کیچڑ سے بھرے کچے راستوں پر آسان نہیں تھا۔
دوسری ماں
ماریا موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ایک کچے راستے پر سفر کرتے ہوئے 12 کلومیٹر دور اپنے سکول پہنچیں تو نو بج کر 50 منٹ ہو چکے تھے۔ سب کچھ تیار کرنے کے لیے کم ہی وقت تھا۔ جولیانا اور بنجیمن 10 بجے پہنچ جایا کرتے تھے۔
لیکن صرف دو بچوں کے لیے سکول کھلا ہی کیوں رکھا گیا ہے؟
ماریا اس کا جواب یوں دیتی ہیں: ’کسی بچے کو اس سکول میں ہی کیوں جانا ہے اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ بہت دور رہتا ہو اور یہی قریبی سکول ہو۔ ہو سکتا ہے اس کے والدین ایسا کام کرتے ہوں یا اس کی رسائی ہی یہاں تک ہو۔‘
پاسو ڈیلا کرز کا یہ سکول کسی گھر جیسا ہے۔ یہاں ایک کلاس روم، دو باتھ روم، ایک کچن اور ایک چھوٹا سا کمرہ بھی ہے جہاں ماریا نے ایک بستر اور کمبل رکھا ہوا ہے تاکہ اگر ان کو کبھی رات گزارنا پڑے تو سامان کی کمی نہ ہو۔
کچھ ہی دیر میں بینجمین اپنی والدہ کارلا کے ساتھ آ گئے۔ کارلا کو مقامی انتظامیہ نے سکول کو صاف رکھنے اور یہاں کھانا پکانے کی ذمہ داری بھی سونپ رکھی ہے۔
ہر 15 دن بعد ماریا خود مارکیٹ جاتی ہیں اور اس تعلیمی مرکز کے لیے ضروری سامان خرید کر لاتی ہیں۔ انتظامیہ نے خوراک کی فہرست ماہرین غذا سے تیار کروا کر انھیں دے رکھی ہے۔ جو سامان ماریا لاتی ہیں، کارلا اسی سے بچوں اور اپنے لیے بھی کھانا پکاتی ہیں۔
دو مختلف عمر کے بچوں کو پڑھانا بھی آسان نہیں۔ اگر ایک بچہ حساب سیکھ رہا ہے تو دوسرا بھی پڑھنا لکھنا سیکھ رہا ہے۔
اسی لیے آغاز میں ماریا بچوں کو بتاتی ہیں کہ آج وہ ان کو کیا پڑھانے والی ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے کی کوشش کریں۔
ماریا بتاتی ہیں کہ ’ایک ہی ہدایت سے میں چھوٹے بچے کو کچھ بنانے کو اور بڑے بچے کو کچھ لکھنے کو کہہ سکتی ہوں۔‘
کلاس کا وقت تین بجے ختم ہوتا ہے۔ درمیان میں کھانے اور کھیل کود کے لیے ایک گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔
ماریا کہتی ہیں کہ بچوں نے ایک سے زیادہ بار ان کو ماں کہہ کر پکارا ہے۔ ’ایسا ہونا ہی تھا کیوں کہ ہمارا اتنا قریبی تعلق ہے۔‘
سکول بند کرنے کے بعد ماریا ایکو پر سوار ہو کر واپس جاتی ہیں اور پھر سے سڑک کنارے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ان کو ایک بار پھر سے واپسی کے سفر کے لیے لفٹ کا انتظار کرنا ہے۔
Comments are closed.