ڈاکٹر کرسچن برنارڈ: زندہ شخص سے انسانی دل کی پیوندکاری کا پہلا کامیاب آپریشن کرنے والے ڈاکٹر
- ڈاکٹر عائشہ نتھو
- سینٹر فار میڈیکل ہسٹری، یونیورسٹی آف ایگزیٹر
آج سے تقریباً 54 برس قبل ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والی 26 سالہ ڈینیز ڈاروال کا دل ایک 54 سالہ دکاندار لوئس واشکینسکی کے سینے میں دھڑکنے لگا تھا۔
یہ کارنامہ تین دسمبر 1967 کو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں سرجن کرسچن برنارڈ نے سرانجام دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی انسان میں کسی دوسرے انسان کا دل ٹرانسپلانٹ کیا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ خبر دنیا بھر کی شہ سرخیوں کی زینت بنی۔
صحافیوں اور کیمرہ پرسنز نے کیپ ٹاؤن کے گروٹ شر ہسپتال پر دھاوا بول دیا اور جلد ہی برنارڈ اور واشکینسکی کا نام زبان زد عام ہو گیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس آپریشن کو ‘تاریخی’ اور ‘کامیاب’ قرار دیا گیا تھا تاہم اس آپریشن کے بعد واشکینسکی صرف 18 روز تک ہی زندہ رہ پائے تھے۔
تاریخ کے اس پہلے دل کے ٹرانسپلانٹ کو میڈیا میں خاصی توجہ ملی تھی جس سے ڈاکٹروں اور مریضوں کے سیلیبرٹی بننے اور آپریشن کے بعد پریس کانفرنسز اور میڈیکل کے شعبے میں تعلقاتِ عامہ کی اہمیت میں اضافہ ہوا تھا۔
یہ 20ویں صدی کے سب سے مقبول واقعات میں سے ایک بن گیا اور اسے چاند پر پہلے انسان کے پہنچنے کے تاریخی واقعے جتنی اہمیت ملی۔
ایک صحافی نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ‘اس خبر میں وہ سب کچھ تھا جو ایک رپورٹر کا خواب ہوتا ہے۔‘
یہ ٹیکنالوجی کی دنیا کا ایک بہترین کارنامہ تھا جس میں اہم ترین انسانی اعضا میں سے ایک کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا اور کہانی بھی ایسی کہ جس میں ایک زندگی کا خاتمہ دوسری کو بچانے کا باعث بنا۔
توجہ کا مرکز
ہسپتال میں واشکینسکی کے وارڈ میں ان کی روزانہ کی سرگرمیاں اور جذبات انتہائی باریک بینی کے ساتھ رپورٹ کیے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ اب وہ بیٹھ چکے ہیں، یا بول رہے ہیں، مسکرا رہے ہیں، اب انھیں ناشتے میں ابلا ہوا انڈہ دیا گیا، یہ تمام باتیں اخباروں کے سرورق پر چھپیں۔
ان کی اہلیہ اور دل فراہم کرنے والی لڑکی کے والد بھی اس میڈیا کوریج کا نمایاں حصہ رہے۔ ان کی ایک ساتھ تصاویر بھی بنائی گئیں جس میں واشکینسکی کی اہلیہ کو لڑکی کے والد کے سامنے روتے دیکھا جا سکتا ہے جیسے وہ ان کے شوہر کو ’زندگی کا تحفہ‘ دینے پر آمادہ ہونے پر ان کی مشکور ہوں۔
جب واشکینسکی کو نمونیا ہو گیا اور ان کی وفات ہوگئی تو عوامی سطح پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ ڈاروال نے دوسری مرتبہ اپنے بیٹے کو کھویا کیونکہ اس مرتبہ ان کے جسم کا کوئی حصہ زندہ نہ تھا۔
مگر برنارڈ متواتر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
پرکشش اور تصاویر میں بہترین نظر آنے والے برنارڈ میگزینوں کے سر ورق پر نظر آنے لگے، ستاروں اور سیلیبریٹیز سے ملاقاتیں ہونے لگیں، اور وہ جہاں جاتے فوٹوگرافر ان کے اردگرد ہوتے تھے۔
مگر دل ٹرانسپلانٹ کرنے پر خاموشی بھی ٹوٹ رہی تھی اور طبی برادری اس حوالے سے منقسم تھی۔ بہت سے سرجن دل کا ٹرانسپلانٹ کرنے کو تیار تھے اور برنارڈ کے آپریشن کے بعد سے اس حوالے سے بہت ساری چیزیں بین الاقوامی سطح پر ہونے لگی تھیں۔
سنہ 1968 میں دنیا بھر میں 47 مختلف ٹیموں نے 100 سے زیادہ دل کے ٹرانسپلانٹ کیے تھے۔ ہر ٹرنسپلانٹ کو میڈیا میں نمایاں کیا گیا اور لوگوں کی توجہ ان پر مرکوز رہی۔
مگر شروع شروع میں جن کو دل کا ٹرانسپلانٹ دیا گیا وہ کچھ عرصہ ہی زندہ رہ سکے، اور کچھ کیسز میں تو یہ صرف چند گھنٹے ہی تھا۔ اس حوالے سے عام لوگوں میں بھی جھجک آنے لگی اور طبی برادری میں بھی انتہائی زیادہ اموات کی شرح کی وجہ سے سوالات اٹھنے لگے۔
یہ بھی پڑھیے
کچھ لوگوں نے یہ سوال کیا کہ کیا امیونولوجی یعنی مدافعتی نظام کی مینجمنٹ سرجری میں تیزی سے بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کی رفتار سے ترقی کر سکتی ہے یا نہیں، اور یہ کہ کیا یہ انتہائی جدید ٹیکنالوجی والے آپریشن کسی کے فائدے میں تھے بھی یا نہیں۔
ایک دھڑکتے ہوئے دل کو نکالنے کے بارے میں پیچیدہ قانونی اور اخلاقی سوالات ابھرنے لگے۔ دل آخر روایتی طور پر زندگی اور موت کی علامت تھا۔ یہ سوال کیا جانے لگا کہ کیا یہ عطیہ کرنے والے مریض کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
اخلاقی پیچیدگیاں
برنارڈ کے دوسرے ٹرانسپلانٹ کے بعد یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے ممکنہ عطیہ کنندگان کو بچانے میں دلچسپی پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
یہ سوال اس تناظر میں کیے گئے کیونکہ برنارڈ کے دوسرے آپریشن میں جنوبی افریقہ میں ایک سیاہ فام شخص کا دل ایک سفید فام شخص کو ایسے دور میں دیا گیا جب ملک میں نسل پرستی کی بنیاد پر امتیازی قوانین رائج تھے۔
اس طرح کی ‘سپیئر پارٹ‘ سرجری سے کچھ لوگوں کو امید ملی تو کچھ لوگ خوفزدہ ہونے لگے۔
فروری 1968 میں بی بی سی کے پروگرام ٹوموروز ورلڈ (آنے والی دنیا) میں ایک خصوصی قسط نشر کی گئی جس کا نام ’برنارڈ کا ناقدین سے سامنا‘ رکھا تھا۔ اس پروگرام میں ایسے اخلاقی اور سماجی سوالات کو پرکھا گیا۔
اس پروگرام میں برنارڈ کے ساتھ ساتھ متعدد معروف ڈاکٹروں نے بھی شرکت کی اور اس میں عام طور پر مریضوں اور ڈاکٹروں کے حوالے سے معلومات کو خفیہ رکھنے کی روایت کو بھی توڑا گیا۔
دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی پہلی ہارٹ ٹرانسپلانٹ سرجری کو مئی 1968 میں میڈیا میں کافی زیرِ بحث لایا گیا اور یہ تنازعات 1970 کی دہائی تک زیرِ غور رہے۔
ادھر امیونولوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں دل کے ٹرانسپلانٹس کے پروگرام شروع ہونے لگے۔
آج یہ انتہائی اہم، زندگی کو طول دینے والی سرجری ہے مگر برنارڈ کے پہلے آپریشن سے آج کی اس روزمرہ کی سرجری تک کا سفر اتنا آسان نہیں تھا۔
ڈاکٹر کرسچن برنارڈ دو ستمبر 2001 کو وفات پا گئے تھے اور اُن کے یومِ وفات کے موقع پر یہ تحریر قارئین کے لیے پیش کی گئی۔
Comments are closed.