2019 میں سویڈش حکام نے اپنی تحقیقات ختم کر دیں۔تاہم جولین کو خفیہ معلومات لیک ہونے پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے اگلے پانچ سال ایک برطانوی جیل میں امریکہ کو حوالگی کے خلاف لڑتے ہوئے گزارے۔لیک ہونے والی معلومات میں امریکی فوج کی ایسی فوٹیج شامل تھی جس میں امریکی آپریشن میں عام عراقی شہریوں کو ہلاک ہوتے دکھایا گیا ہے۔ ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی فوجیوں نے غیر رپورٹ شدہ واقعات میں سینکڑوں افغان شہریوں کو ہلاک کیا۔امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اسانج کو بالآخر گذشتہ ماہ رہا کر دیا گیا ہے۔آرڈین کو اسانج کے وکی لیکس کے لیے کام پر بہت فخر ہے اور وہ اصرار کرتی ہیں کہ ان کو قید میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں اپنے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’میں اسانج اور ان کے خاندان کے لیے خلوص دل سے خوش ہوں کہ اب وہ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ انھیں جو سزا ملی وہ مناسب نہیں تھی۔‘سٹاک ہوم سے زوم پر آرڈین سے بات کرتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن میں اسانج کے دو خاکے بنا رکھے ہیں جن میں سے ایک میں وہ دوراندیش سماجی کارکن ہیں جبکہ دوسرے میں وہ ایک ایسے شخص کا روپ دھارے ہوئے ہیں جو خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔وہ نہ انھیں ہیرو کہہ سکتی ہیں نہ ہی برا آدمی۔۔۔ بلکہ وہ انھیں ایک پیچیدہ شخصیت سمجھتی ہیں۔45 سالہ آرڈین مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں اور معاف کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ پورے انٹرویو کے دوران ’سچائی‘ اور ’شفافیت‘ کے الفاظ بار بار دہراتی ہیں جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ وہ وکی لیکس کے کارناموں سے اتنی متاثر کیوں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ انھیں سخت مایوسی بھی ہے کہ ان کے اسانج پر لگائے گئے الزامات کی کبھی کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسانج نے ان الزامات کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے خلاف امریکی سازش تھے۔ وکی لیکس نے حال ہی میں 76 ہزار امریکی فوجی دستاویزات کو لیک کیا تھا جس نے بڑے پیمانے پر عالمی توجہ حاصل کی اور امریکی خارجہ پالیسی پر کڑی تنقید کی گئی۔21 اگست 2010 کو وکی لیکس نے ٹویٹ کیا: ’ہمیں ’سازشی حربوں‘ کے متعلق خبردار کیا گیا تھا اور اب ان میں سے پہلا حربہ رونما ہو چکا ہے۔‘اگلے دن ایک اور پوسٹ آئی: ’یاد دہانی کرواتے چلیں: امریکی انٹیلی جنس نے 2008 میں وکی لیکس کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔‘اسانج کے برطانوی وکیل مارک سٹیفنز نے دعویٰ کیا کہ ’ہنی ٹریپس کا جال‘ بچھایا گیا ہے اور اس کے پس پشت بڑی قوتیں کام کر رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر جو ہنگامہ برپا ہوا آرڈین اسے ’جہنم‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھیں موت کی دھمکیاں تک دی گئیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں سویڈن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔’میں کام نہیں کر سکتی تھی۔ میری زندگی کے دو سال ضائع ہو گئے۔‘آج تک بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ آرڈین ’امریکی سازش کا حصہ ہیں‘ اور یہ کہ ان کے الزامات جھوٹے ہیں۔ یونان کے سابق وزیر خزانہ یانس وروفاکیس جو ایک طویل عرصے سے اسانج کے حامی ہیں، انھوں نے گذشتہ ہفتے آرڈین کے دعووں کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔آرڈین کے امریکی انٹیلی جنس سے تعلق کے متعلق کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ اسانج کی طرف سے پھیلایا گیا بیانیہ قابلِ فہم تھا کیونکہ وہ پینٹاگون کا جینا حرام کر رہے تھے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں امریکی سازش کا حصہ سمجھنے والے دعوے ’جھوٹ اور انھیں بدنام کرنے والی مہم‘ تھے۔،تصویر کا ذریعہAlamy
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.