وکی لیکس بانی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی خاتون جو ان کی آزادی پر خوش ہیں،تصویر کا ذریعہAlamy
،تصویر کا کیپشنسویڈن کی انسانی حقوق کی کارکن اینا آرڈین خوش ہیں کہ جولین اسانج اب آزاد ہیں
ایک گھنٹہ قبلسویڈن کی انسانی حقوق کی کارکن اینا آرڈین خوش ہیں کہ وکی لیکس بانی جولین اسانج اب آزاد ہیں۔ ماضی میں انھوں نے جولین کے متعلق جس قسم کے دعوے کیے ہیں ان سے یہی گمان ہوتا ہے کہ ان کے دل میں جولین کے لیے نیک خواہشات رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہے۔وہ ان دو خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے 14 سال قبل وکی لیکس کے بانی پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔جولین اسانج نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم یہ دھماکہ خیز تھے اور پوری دنیا کے اخباروں کی زینت بنے تھے۔ اس سے واقعات کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران جولین اسانج سات سال تک لندن کے سفارت خانے میں سیاسی پناہ حاصل کر کے سویڈن کو حوالگی سے بچنے کی کوششیں کر رہے تھے۔

2019 میں سویڈش حکام نے اپنی تحقیقات ختم کر دیں۔تاہم جولین کو خفیہ معلومات لیک ہونے پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے اگلے پانچ سال ایک برطانوی جیل میں امریکہ کو حوالگی کے خلاف لڑتے ہوئے گزارے۔لیک ہونے والی معلومات میں امریکی فوج کی ایسی فوٹیج شامل تھی جس میں امریکی آپریشن میں عام عراقی شہریوں کو ہلاک ہوتے دکھایا گیا ہے۔ ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی فوجیوں نے غیر رپورٹ شدہ واقعات میں سینکڑوں افغان شہریوں کو ہلاک کیا۔امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اسانج کو بالآخر گذشتہ ماہ رہا کر دیا گیا ہے۔آرڈین کو اسانج کے وکی لیکس کے لیے کام پر بہت فخر ہے اور وہ اصرار کرتی ہیں کہ ان کو قید میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں اپنے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’میں اسانج اور ان کے خاندان کے لیے خلوص دل سے خوش ہوں کہ اب وہ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ انھیں جو سزا ملی وہ مناسب نہیں تھی۔‘سٹاک ہوم سے زوم پر آرڈین سے بات کرتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن میں اسانج کے دو خاکے بنا رکھے ہیں جن میں سے ایک میں وہ دوراندیش سماجی کارکن ہیں جبکہ دوسرے میں وہ ایک ایسے شخص کا روپ دھارے ہوئے ہیں جو خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔وہ نہ انھیں ہیرو کہہ سکتی ہیں نہ ہی برا آدمی۔۔۔ بلکہ وہ انھیں ایک پیچیدہ شخصیت سمجھتی ہیں۔45 سالہ آرڈین مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں اور معاف کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ پورے انٹرویو کے دوران ’سچائی‘ اور ’شفافیت‘ کے الفاظ بار بار دہراتی ہیں جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ وہ وکی لیکس کے کارناموں سے اتنی متاثر کیوں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ انھیں سخت مایوسی بھی ہے کہ ان کے اسانج پر لگائے گئے الزامات کی کبھی کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اسانج کو گذشتہ ماہ رہا کر دیا گیا ہے
آرڈین نے اپنی کتاب ’نو ہیروز، نو مونسٹرز: انٹرنیٹ پر سب سے ناپسندیدہ عورت کے طور پر میں نے کیا سیکھا‘ میں اسانج کے ساتھ اپنی ملاقات کے متعلق بتایا ہے۔2010 میں وکی لیکس کی جانب سے افغان جنگ کی معلومات شائع ہونے کے صرف تین ہفتے بعد انھوں نے اسانج کو سویڈن کے سوشل ڈیموکریٹس کے مذہبی ونگ کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں شرکت کے لیے سٹاک ہوم میں مدعو کیا۔اسانج سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہوٹل میں نہیں ٹھہرنا چاہتے تھے اور آرڈین کو ان دنوں شہر سے باہر جانا تھا لہذا انھوں نے اسانج کو اپنا فلیٹ میں رہنے کی پیشش کی۔ لیکن وہ جلد ہی واپس آ گئیں۔ایک شام سیاست اور انسانی حقوق پر بحث کے بعد دونوں میں جنسی تعلق قائم ہوا۔ آرڈین کے مطابق سیکس کے دوران انھیں ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔آرڈین کا کہنا ہے کہ وہ اسانج کے ساتھ کنڈوم کا استعمال کرتے ہوئے سیکس کرنے پر راضی تھیں لیکن کنڈوم ٹوٹنے کے بعد بھی اسانج نہیں رکے۔آرڈین کو شبہ ہے کہ اسانج نے جان بوجھ کر کنڈوم توڑا۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو سویڈش قانون کے تحت یہ ایک جرم ہے۔آرڈین لکھتی ہیں کہ انھوں نے سیمینار میں شرکت کرنے والی ایک اور خاتون، جن کا نام قانونی دستاویزات میں ’ایس ڈبلیو‘ ہے، سے سنا کہ جب وہ سو رہی تھیں تو اس دوران اسانج نے ان کی اجازت کے بغیر ان کے ساتھ سیکس کیا۔سویڈش پراسیکیوٹرز کے سامنے 2016 میں دیے ایک بیان میں اسانج کا کہنا تھا کہ ایس ڈبلیو کے ساتھ ان کا جنسی تعلق مکمل طور پر رضامندی سے قائم کیا گیا تھا اور یہ کہ ان کے وکلا نے وہ ٹیکسٹ پیغام دیکھا ہے جس میں وہ اپنی ایک دوست کو بتاتی ہیں کہ میں’آدھی نیند‘ میں تھی۔دونوں خواتین نے پولیس رپورٹیں درج کرائیں۔آرڈین کے کیس کو مبینہ جنسی جرم اور ایس ڈبلیو والے واقعے کی درجہ بندی مبینہ ریپ کے طور پر کی گئی۔ جیسے ہی یہ خبر اخبارات تک پہنچی غیر معمولی واقعات کا ایک نہ ختم ہونے سلسلہ شروع ہو گیا۔،تصویر کا ذریعہAlamy
،تصویر کا کیپشنآرڈین نے اپنی کتاب ’نو ہیروز، نو مونسٹرز: انٹرنیٹ پر سب سے ناپسندیدہ عورت کے طور پر میں نے کیا سیکھا‘ میں اسانج کے ساتھ اپنی ملاقات کے متعلق بتایا ہے

اسانج نے ان الزامات کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے خلاف امریکی سازش تھے۔ وکی لیکس نے حال ہی میں 76 ہزار امریکی فوجی دستاویزات کو لیک کیا تھا جس نے بڑے پیمانے پر عالمی توجہ حاصل کی اور امریکی خارجہ پالیسی پر کڑی تنقید کی گئی۔21 اگست 2010 کو وکی لیکس نے ٹویٹ کیا: ’ہمیں ’سازشی حربوں‘ کے متعلق خبردار کیا گیا تھا اور اب ان میں سے پہلا حربہ رونما ہو چکا ہے۔‘اگلے دن ایک اور پوسٹ آئی: ’یاد دہانی کرواتے چلیں: امریکی انٹیلی جنس نے 2008 میں وکی لیکس کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔‘اسانج کے برطانوی وکیل مارک سٹیفنز نے دعویٰ کیا کہ ’ہنی ٹریپس کا جال‘ بچھایا گیا ہے اور اس کے پس پشت بڑی قوتیں کام کر رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر جو ہنگامہ برپا ہوا آرڈین اسے ’جہنم‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھیں موت کی دھمکیاں تک دی گئیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں سویڈن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔’میں کام نہیں کر سکتی تھی۔ میری زندگی کے دو سال ضائع ہو گئے۔‘آج تک بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ آرڈین ’امریکی سازش کا حصہ ہیں‘ اور یہ کہ ان کے الزامات جھوٹے ہیں۔ یونان کے سابق وزیر خزانہ یانس وروفاکیس جو ایک طویل عرصے سے اسانج کے حامی ہیں، انھوں نے گذشتہ ہفتے آرڈین کے دعووں کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔آرڈین کے امریکی انٹیلی جنس سے تعلق کے متعلق کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ اسانج کی طرف سے پھیلایا گیا بیانیہ قابلِ فہم تھا کیونکہ وہ پینٹاگون کا جینا حرام کر رہے تھے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں امریکی سازش کا حصہ سمجھنے والے دعوے ’جھوٹ اور انھیں بدنام کرنے والی مہم‘ تھے۔،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشنان کا کہنا ہے کہ انھیں امریکی سازش کا حصہ سمجھنے والے دعوے ’جھوٹ اور انھیں بدنام کرنے والی مہم‘ تھے
ان واقعات کے مہینوں بعد اسانج (جو اس وقت لندن میں تھے) کے لیے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔دسمبر 2010 میں انھوں نے بی بی سی کے سامنے اعتراف کیا کہ ’ہو بھی سکتا ہے اور ایسا ممکن نہیں بھی ہے‘ کہ وہ ہنی ٹریپ آپریشن کا شکار ہوئے ہوں۔ تاہم انھوں نے کسی بھی غلط کام سے انکار کیا۔اسانج کو یقین تھا کہ اگر وہ سویڈن گئے تو انھیں امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا جہاں سزائے موت ان کی منتظر تھی۔ 2012 میں انھوں نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لی۔سویڈن نے اس بات کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا کہ انھیں امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا، لیکن اتنا ضرور کہا کہ ایسے کسی بھی اقدام کے لیے اسے برطانیہ سے بھی منظوری لینا ہو گی۔ دونوں ممالک نے یہ بھی کہا کہ اگر انھیں لگا کہ جولین کو امریکہ میں سزائے موت دی جا سکتی ہے تو اس صورت میں وہ انھیں امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے۔2015 میں سویڈش پراسیکیوٹرز نے آرڈین کے الزامات پر تحقیقات ختم کردیں کیونکہ بہت وقت گزر گیا تھا۔2019 میں استغاثہ نے ایس ڈبلیو کے دعووں کے حوالے سے بھی تحقیقات ترک کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل وقت گزر جانے کے باعث شواہد کافی کمزور ہو چکے ہیں۔اس وقت تک اسانج کو لندن کی ہائی سیکیورٹی والی بیلمارش جیل میں رکھا گیا تھا اور انھیں جاسوسی کے الزام میں امریکہ کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں انھیں 170 سال تک قید کی سزا ہو سکتی تھی۔اسانج نے بالآخر 2024 میں امریکی جاسوسی ایکٹ کے تحت ایک الزام میں جرم قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور یوں انھوں نے اپنی آزادی حاصل کر لی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesآرڈین کی اب بھی یہی خواہش ہے کاش اسانج نے ان کے خلاف مبینہ جنسی جرم کے مقدمے کا سامنا کیا ہوتا ’لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا۔ اس لیے مجھے اسے بھول کر آگے بڑھنا ہو گا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ان پر شک کرنے والے ان کے ردِعمل کو ڈرامائی سمجھتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کو لگتا ہے کہ جنسی حملہ ہمیشہ وحشیانہ ہوتا ہے اور اس میں بہت زیادہ تشدد شامل ہوتا ہے اور متاثرہ کو بہت زیادہ صدمے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو آپ کے ساتھ ایسا کرنے والا مجرم نہیں ہو سکتا۔‘لیکن آرڈین کا تجربہ اس سے مختلف رہا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ یہ چیز اسے کم سنجیدہ یا ناقابل قبول نہیں بناتی۔وہ اسانج کے بہت سے حامیوں اور صحافیوں پر الزام عائد کرتی ہیں کہ انھوں نے یک طرفہ بیانیہ بنایا جس میں جولین کو ایک ہیرو اور انھیں ایک ’بری سی آئی اے ایجنٹ‘ سمجھا گیا۔’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہیرو بے عیب ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ ایسے ہیرو پریوں کی کہانیوں کے علاوہ بھی کہیں موجود ہوتے ہیں۔‘آرڈین کا کہنا ہے کہ ان کا کبھی ایسا ارادہ نہیں تھا کہ اسانج کو ایک برے ولن کے طور پر پیش کرکے معاشرے کو ان کے خلاف کر دیں۔’میں چاہتی ہوں کہ انھیں ایک عام آدمی کے طور پر دیکھا جائے۔ عام لوگ کبھی کبھار ایسا کرتے ہیں۔ وہ دوسرے لوگوں کی بنائی حدود کو پار کر دیتے ہیں۔‘وہ سمجھتی ہیں کہ ترقی پسند تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے وہ اکثر اپنے لیڈروں کو آئینہ دکھانے سے گھبراتی ہیں۔ انھیں خوف ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کی تنقید پوری تحریک کو غیر قانونی نہ بنا دے۔آپ ایک ہی وقت میں خود کو لیڈر کہلوانے کے ساتھ ساتھ تحریک میں سرگرم لوگوں کو گالی نہیں دے سکتے کیونکہ ایسا ہوا تو تحریک نہیں چل پائے گی۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ لوگوں کو جنسی جرائم یا کسی بھی جرم سے صرف اس لیے نہیں بچ نکلنے کے قابل ہونا چاہیے کیونکہ وہ بااثر ہیں۔بی بی سی نے اسانج کے وکلا سے انٹرویو میں آرڈین کے دہرائے گئے دعوؤں پر تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ ’جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘انٹرویو کے آخر میں میں نے ان سے پوچھا کہ اگر انصاف مل جاتا تو انھیں کیسا لگتا؟آرڈین کا کہنا ہے کہ انھیں کسی کو سزا دلوانے میں خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ’میرے لیے انصاف شفافیت ہوتا۔ میں خوش نہیں تھی کہ اسے جیل میں بند کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ غلط وجہ سے قید تھا۔‘آرڈین ایک بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مسیحی ہیں جو مفاہمت اور تبدیلی کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔لیکن وہ کہتی ہیں کہ مجرموں کو اپنا کیا تسلیم کرنے اور تبدیلی کا عہد کرنا چاہیے۔اس سب کے بعد اب اگر وہ اسانج سے آمنے سامنے ہوئیں تو کیا کہیں گی؟ آرڈین بتاتی ہیں کہ وہ اسے خود کو بہتر انسان بنانے کی ترغیب دیں گی۔وہ اس سے یہ تسلیم کرنے کے لیے کہیں گی کہ ’جو کچھ اس نے میرے ساتھ کیا ایسا کرنے کا اسے حق نہیں تھا اور نہ ہی اسے دوسری عورتوں کے ساتھ یہ حق حاصل تھا۔‘’اسے اپنے کیے کو تسلیم کرنا ہو گا۔۔ اس نے جو کچھ کیا، اسے اس پر غور کرنا ہو گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}