سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ وکلاء کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی ثالثی پر کانفرنس سے خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں ہر جج کے پاس اوسطاً 1800 کیس ہوتے ہیں اور ہر روز ان کی تعداد بڑھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سول کیسز کو ثالثی کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، جج پرانے کیسز کے فیصلے لکھتے ہیں، پھر نئے کیسز آجاتے ہیں تو تعطل ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج نے مزید کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ کیسز کو ثالثی سینٹر بھیجا جائے، اس حوالے سے وکلا کی سوچ بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ فریقین کو مصالحت کے ذریعے کیس کا حل دینے کی ضرورت ہے، جون2017 سے اب تک 30 ہزار کیسز مصالحت کے لیے بھیجے گئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ 14ہزار کیسز میں مصالحت کامیاب ہوئی، اب کلچر بدل رہا ہے، ثالثی کا پہلا مرحلہ بات چیت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثالثی کے لیے پرانے قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اصل مسئلہ سول عدالتیں ہیں، جہاں برسوں کیسز زیر سماعت رہتے ہیں۔
سپر یم کورٹ کے جج نے کہا کہ ثالثی نظام کے لیےانسانی وسائل اور ریٹائرڈ ججز کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.