گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ کو جج شائستہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ وکیل صفائی نے کہا وڈیو میں بچی کو صحیح سلامت والدہ کے حوالے کیا گیا ہے، رضوانہ کی والدہ بولیں ڈرائیور کے دھمکانے پر ڈر گئی تھی۔
سماعت کے دوران جج نے رضوانہ کی والدہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی بچی اسکارف پہنتی ہے؟
رضوانہ کی والدہ نے رو کر جج کو جواب دیا کہ نہیں، میری بیٹی اسکارف نہیں پہنتی۔
جج نے بچی کی والدہ سے استفسار کیا کہ کیا بات ہوئی گاڑی کے اندر سومیہ عاصم سے؟ سچ بتانا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سومیہ عاصم نے کہا بچی کام نہیں کرتی، اسے واپس لے جاؤ، میں نے بچی سے پوچھا بیٹی کیوں نہیں کام کرتیں، رضوانہ نے جواب نہیں دیا، ڈرائیور نے دھمکی بھی دی ہم بڑے لوگ ہیں، میں ڈر گئی۔
وکیلِ صفائی قاضی دستگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سومیہ عاصم کے خلاف درج مقدمے میں وقتِ وقوعہ نامعلوم لکھا ہوا ہے، وکیل صفائی کی جانب سے مقدمے کا متن پڑھا گیا۔
وکیل قاضی دستگیر نے کہا کہ ویڈیو کے مطابق بچی کو والدہ کے حوالے صحیح سلامت کیا گیا، میری موکلہ نے بچی کو والدہ کے خود حوالے کیا، بچی بس اڈے پر بیٹھتی ہے اور ایک صحت مند فرد کی طرح لیٹ بھی جاتی ہے، میڈیا پر مخصوص فوٹیجز چلائی گئی ہیں، ویڈیوز ڈیڑھ گھنٹے کی ہیں، بچی خود دروازہ کھولتی ہے، دروازے سے کھیلتی ہے، ڈرائیور کے بیٹھنے پر بچی خود گاڑی سے اترتی ہے، سادہ الفاظ میں سومیہ عاصم کے خلاف کہانی بنائی گئی ہے، زخم میں کیڑے گھر میں پڑے ہوئے تھے تو بس اڈے پر کیڑے کہاں گئے؟
کمرۂ عدالت میں جج شائستہ کنڈی کے استفسار پر بس اڈے کی ویڈیو چلائی گئی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ مقدمے کے مطابق سومیہ عاصم نے ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کیا، ڈھائی گھنٹے بچی بس اسٹینڈ پر موجود رہی، بچی کے سر میں اگر کیڑے پڑے ہوتے تو وہ اپنا سر کھجاتی، بچی حوالے کی نہ تو تشدد تھا اور نہ سر میں کیڑے تھے نہ پسلیاں ٹوٹی تھیں، ڈھائی گھنٹے کی ویڈیو کا مقصد، بچی کیسے خود سے گاڑی سے اتر کر چلتی دکھائی دیتی ہے، گاڑی سے اترنے پر والدہ ایک بار بھی بچی کا زخم نہیں دیکھتی۔
جج نے کہا کہ بچی کے اترنے پر والدہ کیوں فوراً زخم چیک کرے گی پہلے تو بچی کو اتارے گی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ سات ماہ بعد بھی ملنے پر بچی کو چیک نہیں کیا، گاڑی میں والدہ اپنی بچی کے ساتھ 10 منٹ سے زائد بیٹھتی ہے، سومیہ عاصم بھی موجود ہے، گاڑی کے اندر ہی سومیہ عاصم اور والدہ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوتی ہے۔
Comments are closed.