وِویک راماسوامی: ریپبلیکن پارٹی کے ’ناتجربہ کار‘ امیدوار جو پہلے صدارتی مباحثے میں کامیاب رہے
امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے امیدواروں کے درمیان پہلا صدارتی مباحثہ کافی ہنگامہ خیز رہا ہے جبکہ اس مباحثے میں شامل آٹھ امیدواروں کے درمیان گرما گرم جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی عدم موجودگی کے باعث یہ مباحثہ بہت ادھورا اور ’پھیکا‘ ہو گا لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ بے شک سابق صدر 2016 میں ابتدائی مباحثوں کے دوران پارٹی کی رونق تھے لیکن گذشتہ روز وسکونسن میں صدارتی مباحثے میں شریک ہونے والے آٹھ حریفوں نے ثابت کیا کہ وہ ان کی مدد کے بغیر بھی کچھ جوش و خروش پیدا کر سکتے ہیں۔
ان میدواروں میں سے کچھ اُبھر کر سامنے آئے اور انھوں نے یہ صدارتی مباحثہ جیت لیا جبکہ چند امیدار ایسے تھے جو خاطر خواہ طور پر متاثر نہ کر سکے۔
سنہ 2024 کے صدارتی انتخاب کے لیے منعقدہ پہلے مباحثے میں شامل انڈین نژاد امریکی شہری وویک راماسوامی ایک ایسے شخص ہیں جنھوں نے اس سے قبل کبھی کسی عوامی عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑا، اور تو اور سنہ 2004 سے 2020 تک کے درمیان انھوں نے کسی صدارتی امیدوار کو ووٹ بھی نہیں دیا۔
اس حقیقت کے باوجود وہ اس ریپبلکن مباحثے میں حریفوں پر غالب نظر آئے۔
’چرب زبان‘ اور چہرے پر ایک بڑی مسکراہٹ سجائے وہ اس مباحثے کے دوران متعدد مرتبہ سٹیج پر واحد ایسے امیدوار کے طور پر دکھائی دیے جو صورتحال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ’سیاسی طور پر ناتجربہ کار‘ شخص توقعات سے بڑھ کر ثابت ہوا اور انھوں نے اس مباحثے میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔
انھوں نے اس مباحثے کے دوران بڑی آسانی کے ساتھ اپنے حریفوں کے لفظی وار روکتے ہوئے کہا کہ ان کے حریف امیدوار کرسٹی بائیں بازو کے نیوز چینل ’ایم ایس این بی سی‘ پر ایک شو کے لیے آڈیشن دے رہے تھے اور محترمہ ہیلی یوکرین کے معاملے پر دفاعی ٹھیکیداروں کے بورڈ میں اپنے عہدوں کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
انھوں نے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں گفتگو کے دوران کہا ’میں سٹیج پر واحد شخص ہوں جسے خریدا نہیں گیا اور اس کی قیمت نہیں لگائی گئی۔‘
جس کے بعد ان کے حریفوں کی جانب سے کافی شور مچایا گیا۔
بار بار راماسوامی نے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے ایک گروہ کے خلاف خود کو ایک بیرونی شخص کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کے بہت سے خیالات جیسا کہ یوکرین کو روس کے حوالے کرنے کا مطالبہ، امریکہ میکسیکو سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال اور امریکی کمپنیوں پر چین کے ساتھ کاروبار کرنے پر پابندی لگانا وغیرہ۔
لیکن جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016 میں ثابت کیا تھا کہ غیر منطقی اور غیر عملی پالیسی تجاویز بھی توجہ حاصل کرنے میں کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔
وویک راماسوامی کے پاس صدارتی نامزدگی کے لیے ٹرمپ کو چیلنج کرنے کے لیے ان جیسی سیاسی حمایت شاید نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہتے بھی نہ ہوں، لیکن گذشتہ رات ہونے والے سیاسی مباحثے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں وہ بھی اس صدارتی دوڑ میں ایک اہم کردار بنے رہیں گے۔
اس صدارتی مباحثے میں ان سمیت آٹھ ریپبلیکن امیدواروں نے شرکت کی تھی جن میں آسا ہچنسن، رون ڈی سینٹس، کرس کرسٹی، مائیک پینس، ڈوگ برگم، ٹم سکاٹ اور نکی ہیلی شریک ہوئے۔
ان آٹھ میں سے وویک راماسوامی، مائیک پینس اور نکی ہیلی نے اس سیاسی مباحثے کو جیت لیا، جبکہ تم سکاٹ اور کرس کرسٹی دوسرے نمبر پر رہے اور آسا ہچنسن، رون ڈی سینٹس اور ڈوگ برگم امریکی عوام کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔
وویک راماسوامی کون ہیں؟
امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے جو کئی صدارتی امیدوار اب تک سامنے آئے ہیں ان میں سے دو بھارتی نژاد امریکی بھی ہیں۔ ان میں سے ایک امیدوار نِکی ہیلی تو جانی پہچانی شخصیت ہیں لیکن وِویک راماسوامی کو زیادہ لوگ نہیں جانتے۔
کیلیفورنیا میں مقیم صحافی سویتا پٹیل نے جائزہ لیا ہے کہ وِویک راماسوامی کی کامیابی کا کتنا امکان ہے اور وہ کیا تبدیلی لا سکتے ہیں۔
راماسوامی ایک ارب پتی انڈین نژاد امریکی کاروباری شخصیت اور ایک کتاب ’ووک اِنک‘ کے مصنف بھی ہیں۔
انھوں نے 21 فروری کو ’فوکس نیوز‘ کے ایک شو میں صدارتی امیدوار کی دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں انھوں اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کیا۔
وِویک راماسوامی ایک کلچرل تحریک کے ذریعے ایک نیا امریکن ڈریم (امریکی خواب) تخلیق کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد ’قابلیت کے حصول‘ پر ہو گی۔
ان کا کہنا ہے ’معاشرے میں تنوع بے معنی ہے جب کوئی ایسی عظیم چیز موجود نہ ہو جو لوگوں کو جوڑ سکے۔‘
37 سالہ راماسوامی امریکی ریاست اوہایو میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے ہارورڈ اور ییل یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہ بائیوٹیکنالوجی کے شعبے میں کاروبار کر کے امیر ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے جائیدادوں کی مینیجمنٹ کرنے والی ایک کمپنی بنائی۔
وہ کاروباری دنیا میں نسل پرستی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر کُھل کر بولتے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے کاروباری دنیا اور ملک دنوں کا نقصان ہوتا ہے۔
وہ خاص طور پر ماحول، سماج اور کارپوریٹ گورننس کے خلاف ہیں جس کے ذریعے کسی کمپنی کے سوشل اور ماحولیاتی اثرات ناپے جاتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ امریکہ کا چین پر معاشی انحصار بھی کم کرنا چاہتے ہیں۔
نکی ہیلی ایک معروف انڈین نژاد شخصیت ہیں
وِویک راماسوامی کے نظریات ریپبلیکن پارٹی کے وِکرم منشرامانی سے ملتے جلتے ہیں جو سنہ 2022 میں نیو ہمپشائر سینیٹ کا انتخاب لڑ چکے ہیں۔ دونوں شخصیات حال ہی میں ملاقات کر چکی ہیں اور وِکرم منشرامانی نے وِویک راماسوامی کو بہت ’متاثر کن، اچھا بولنے والا اور سوچ بچار کرنے والا‘ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے خیالات امریکہ کو متحد کرنے والے ہیں نہ کہ تقسیم کرنے والے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’شناخت کی سیاست نے امریکہ میں جڑ پکڑ لی ہے جس کی وجہ سے متحد ہونے کے بجائے تقسیم کا رجحان پیدا ہوا ہے۔‘
تاہم اس سیاسی تقسیم کی دوسری جانب ایسے بھارتی نژاد امریکی بھی ہیں جو راماسوامی کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ راماسوامی کی انتخابی مہم میں وزن نہیں ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے شیکھر نراسمہن کا کہنا ہے کہ وہ خوش ہیں کہ امریکی سیاست میں ایشیائی نژاد امریکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن وہ راماسوامی کے خیالات سے متفق نہیں ہیں۔
’وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور ان کا ماضی صاف ہے۔ لیکن انھوں نے کیا وعدے کیے ہیں۔ کیا انھوں صحت عامہ کی کوئی فکر ہے؟ انفراسٹرکچر پر رقوم خرچ کرنے کے بارے میں ان کے پاس کیا منصوبے ہیں؟ ان کی آرا ایک جیسی نہیں رہی ہے اور انھوں نے اپنی پالیسیاں ابھی تک واضح طور پر بیان نہیں کی ہیں۔‘
انڈین کمیونٹی کے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس سے پہلے وویک راماسوامی کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا اور انھیں اُن سے متعلق اس وقت معلوم ہوا جب انھوں نے صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
Comments are closed.