ولادیمیر پوتن: 24 سال میں مسلسل پانچویں بار صدر بننے والے روسی سربراہ جو مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں
- مصنف, سٹیو روزنبرگ
- عہدہ, بی بی سی روسی سروس ایڈیٹر
- 2 گھنٹے قبل
اگر وہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی چلتے تو یہ راستہ باآسانی طے کر لیتے۔ولادیمیر پوتن پانچویں مرتبہ کریملن کے عظیم محل سے سینٹ اینڈریو تھرون ہال تک پیدل چلے اور ایک بار پھر چھ سال کی مدت کے لیے روس کے صدر کا حلف اٹھایا۔پوتن نے وزرا اور معززین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم متحد اور عظیم قوم ہیں۔ ہم مل کر تمام رکاوٹوں پر قابو پالیں گے، اپنے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں گے اور جیت ہماری ہی ہو گی۔‘اگرچہ ریڈ کارپٹ پر چل کر جانے والا راستہ ان کے لیے نیا نہیں تھا لیکن مئی 2000 میں صدر پوتن کی پہلی تقریبِ حلف برداری کے بعد سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔
اس وقت صدر پوتن نے ’جمہوریت کے تحفظ، ترقی اور روس کی حفاظت‘ کرنے کا عہد کیا تھا۔24 سال بعد آج کریملن کا لیڈر یوکرین کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں روس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اندرون ملک جمہوریت کو فروغ دینے کے بجائے صدر پوتن اسے کمزور کر رہے ہیں۔۔۔ انھوں نے ناقدین کو جیلوں میں ڈالنے سے لے کر اقتدار کے حوالے سے اپنے احتساب کے ہر ممکن طریقے کو ختم کر دیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی سابق قومی سلامتی کی مشیر فیونا ہل کا خیال ہے کہ ’پوتن اب خود کو ولادیمیر عظیم، روسی زار سمجھنے لگے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’پوتن کی پہلی دو صدارتی مدتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ان کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔۔۔ انھوں نے بہت سے مسائل کو حل کیا اور ملک کو سیاسی طور پر مستحکم بنایا۔ ان ادوار میں روسی معیشت اور نظام کسی بھی سابقہ دور سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔‘’یوکرین کی جنگ نے ڈرامائی طور پر اس رفتار کوسست کر دیا ہے۔ پوتن نے خود کو عملیت پسند کے بجائے سامراجی شخصیت میں ڈھال لیا ہے۔‘
فیونا کا ماننا ہے کہ ’جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘’جس وقت پوتن نے یوکرین کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی، تب چین، انڈیا، جاپان جیسے چند ممالک غیر معمولی طور پر گھبرا گئے تھے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اس طرح کی دھمکیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک بنا کر روس پر پابندیاں نافذ کر سکتے ہیں۔’شاید یہ ایک مثال ہے کہ ہم ولادیمیر پوتن کے ساتھ کیسے نمٹ سکتے ہیں جو بہت سے معاملات میں ایک من مانی کرنے والے رہنما کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ایک ایسا سختی والا ماحول بنانے کرنے کی ضرورت ہے جس میں، پوتن جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اس قسم کے اقدامات اٹھانے کی انھیں کم سے کم اجازت ہو۔سرکاری طور پر ولادیمیر پوتن نے مارچ کے صدارتی انتخابات میں 87 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم ایک ایسا انتخاب جسے بڑے پیمانے پر غیر آزادانه اور غیر منصفانه مانا جاتا ہے، اس میں پوتن کو کسی سنجیدہ اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔میں نے یہی سوال روس کے مرکزی الیکشن کمیشن کی چیئرپرسن ایلا پامفیلووا کے سامنے رکھا۔میں نے ان سے کہا ’صدر کے بہت سے مخالفین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔‘پامفیلوفا نے جواب دیا ’جو لوگ ایسی تنقید کرتے ہیں وہ یا تو کبھی روس نہیں گئے یا طویل عرصے تک روس میں رہے نہیں ہیں۔ یہ سب خرافات اور جھوٹ ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.