سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے ون مین پاور کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
الیکشن از خود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا فیصلہ سامنے آ گیا۔
دونوں ججز نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائیکورٹ زیرالتوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا کہ وقت آگیا ہے کہ چیف جسٹس آفس کا ’ون مین شو‘ کا لطف اٹھانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
دو ججز نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ون مین شو نہ صرف فرسودہ بلکہ ایک برائی بھی ہے، چیف جسٹس کا ون مین شو جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔
دو ججز کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ون مین شو مختلف آراء کو محدود کرتا ہے، ون مین شو سے آمرانہ حکمرانی کا خطرہ ہے، مشترکہ رائے سے ہونے والی فیصلہ سازی طاقت کا توازن برقرار رکھتی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وسیع اعزازات سے نوازا جاتا ہے، ستم ظریفی ہے سپریم کورٹ قومی اداروں کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس کا آرڈر آف کورٹ چار تین کا فیصلہ ہے، پاناما کیس میں پہلے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ دو تین کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ 184 (3) کے اختیار سماعت کو ریگولیٹ کیا جائے، ازخود نوٹس چار ججز نے مسترد کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے ’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیشل بنچ، آئینی معاملات پر بینچ کی تشکیل کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ از خود نوٹس کے اختیار کے بارےمیں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس کا اختیار ریگولیٹ ہونا ضروری ہے، سپریم کورٹ کی طاقت عوامی اعتماد پر منحصر ہے۔
Comments are closed.