وفاقی وزارت صحت نے ’ڈائبیٹیز رجسٹری آف پاکستان‘ کو سرکاری درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور جلد ہی ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ رجسٹری قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد میں باقاعدہ کام شروع کردے گی۔
اس بات کا انکشاف پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے ایگزیکٹو کونسل ممبر اور نامور ماہر امراضِ ذیابطیس پروفیسر عبدالباسط نے اتوار کے روز اسلام آباد میں نیشنل ڈائبیٹیز پریوینشن پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ابرار احمد نے ذیابطیس سے بچاؤ کے قومی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت قومی سطح پر ذیابطیس سے محفوظ رہنے کے لیے آگاہی پروگرام چلائے جائیں گے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدے کیے جائیں گے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹی کے طلباء میں آگاہی پیدا کی جائے گی۔
ذیابطیس سے بچاؤ کے قومی پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ڈائبیٹیز رجسٹری آف پاکستان غیر سرکاری طور پر شروع کی گئی تھی جس کا مقصد پاکستان میں اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا لیکن اس مرض کی شدت کا اندازہ کرنے کے بعد وفاقی وزارت صحت نے اس رجسٹری کو قومی ادارہ برائے صحت کے ایک پروگرام کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
کورونا کے اعداد و شمار کی طرح ذیابطیس کے اعداد و شمار بھی قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد میں جمع ہوں گے اور ذیابطیس کے مرض پر قابو پانے کے حوالے سے پالیسی بنانے کے لیے ان اعداد و شمار کا سہارا لیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2045 تک شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 6 کروڑ پچاس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
پروفیسر عبد الباسط نے مزید کہا کہ شوگر کے مرض سے بچاؤ کے لیے بچوں اور نوجوانوں میں آگاہی پیدا کرنی ہوگی، مصنوعی میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھا کر انہیں عوام کی پہنچ سے دور کرنا ہوگا، اسکنڈینیوین ممالک کی طرح ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا، وقت آ گیا ہے کہ اب ہم گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سفر کے بجائے پیدل چلنے پر دھیان دیں اور قومی سطح پر اپنی خوراک کی عادتیں یکسر تبدیل کریں۔
پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ابرار احمد نے اس موقع پر بتایا کہ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ان تمام مریضوں کا علاج کرنا ممکن نہیں، اس وقت پاکستان میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں شوگر کا مرض لاحق ہے لیکن انہیں اس کے متعلق علم ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ شوگر کے مرض سے بچاؤ اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے آگاہی مہمات چلائی جائیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت نجی اداروں اور سول سوسائٹی کو اس مرض پر قابو پانے کے لیے پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کا ساتھ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر ابرار احمد کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ذیابطیس سے بچاؤ کا قومی پروگرام شروع کر دیا ہے لیکن اس کا رزلٹ آنے میں کافی وقت لگے گا۔
انہوں نے اس موقع پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے اپیل کی کہ ذیابطیس سے بچاؤ کے پیغامات کو پرائم ٹائم میں اجاگر کیا جائے تاکہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا ہو سکے۔
اس موقع پر ڈاکٹر نوازش وارث، ڈاکٹر ارشد حسین، ڈاکٹر عثمان خان سمیت دیگر لوگوں نے بھی خطاب کیا۔
Comments are closed.