اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہیومن رائٹس کورٹس کے قیام، آئی جی جیل خانہ جات اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف کارروائی اور اڈیالہ جیل میں شکایت سیل بنانے کا حکم دے دیا۔
اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے واقعات کے تناظر میں دائر کیے گئے کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت قیدیوں پر تشدد برداشت نہیں کرے گی، کسٹڈی میں ٹارچر اب ختم ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا، اسی ہفتے ہیومن رائٹس کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جیل میں کسٹوڈیل ٹارچر جاری ہے، قیدیوں کی تضحیک کی جاتی ہے، یہ جیل نہیں، کانسنٹریشن کیمپ ہیں، بے بس لوگوں کی آواز کوئی نہیں اٹھاتا، ہیومن رائٹس کمیشن کسی بھی قیدی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے حراست کے دوران تشدد پر رپورٹ دی، رپورٹ دیکھنے کے بعد اڈیالہ جیل کم، حراستی مرکز زیادہ لگتا ہے، انہی حالات کی وجہ سے جیل کا دورہ کرنا پڑا، بے بس لوگوں کی آواز کوئی نہیں اٹھاتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدلیہ کا 130 واں نمبر کہا جاتا ہے، یہ نمبر دراصل رول آف لاء کا ہے، سسٹم ٹھیک کرنا عدلیہ نہیں، ایگزیکٹیوز کا کام ہے، یہ بہترین رپورٹ اور ٹپ آف دا آئس برگ ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے سیکریٹری ہیومن رائٹس سے مخاطب ہو کر کہا کہ قانون کے مطابق پبلک سرونٹس کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے، سیکریٹری صاحب وفاقی حکومت کو اس پر عمل کرنا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اس سے جیلوں میں قیدی بے بس ہیں، آپ نے یہ رپورٹ کانفیڈنشل کیوں رکھی ہے؟ ہم اس رپورٹ کو پبلک کر رہے ہیں، آپ اسے ویب سائٹ پر بھی لگائیں۔
سیکریٹری ہیومن رائٹس نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ تو ازخود ایک ٹارچر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، بہترین رپورٹ اور ٹپ آف دا آئس برگ ہے، آپ کو معلوم ہے کہ جیل وزٹ کے دوران ایک قیدی نے کیا کہا؟ قیدی نے کہا کہ اگر ہم سچ بولیں گے تو آپ کے جانے کے بعد ہمیں بھگتنا پڑے گا، میں نے کہا کہ آپ کے لیے روز بھی آنا پڑا تو یہاں آؤں گا، ملاقاتی قیدیوں کے لیے جو کھانا لے کر جاتے ہیں وہ اسٹاف نکال لیتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہیومن رائٹس کورٹس کے قیام کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسی ہفتے ہیومن رائٹس کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے، انسانی حقوق سے متعلق قوانین کافی مضبوط ہیں جو خلاف ورزیوں کو دیکھ سکتے ہیں، اس کا کریڈٹ 2012ء کی پارلیمنٹ کو جاتا ہے۔
سیکریٹری ہیومن رائٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 11 بچوں کی ضمانت ہو گئی جن کے لیے رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان کو چیف منسٹر یا پی ایم ہاؤس میں کیوں نہ ٹھہرا دیں؟
سیکریٹری ہیومن رائٹس کمیشن نے بتایا کہ 1400 قیدی منشیات کے عادی ہیں، 4 ہزار قیدیوں کے لیے صرف ایک میل ڈاکٹر ہے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اس رپورٹ کی ایک کاپی عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کو بھی دے دیں، یہ کم از کم اپنی حکومت کو تو اس سے متعلق آگاہ کریں، ہیومن رائٹس کمیشن کسی بھی قیدی تک رسائی لے سکتا ہیں، انہیں سپرنٹنڈنٹ جیل یا کوئی اور بھی منع نہیں کر سکتا، آپ کو قانون میں بہت زیادہ اختیار ہے، آپ کنسلٹنٹس بھی ہائر کر سکتے ہیں، اس عدالت کو ہر روز شکایات موصول ہوتی ہیں جو آپ کو بھجوائی جا رہی ہیں، عدالت قیدیوں پر تشدد برداشت نہیں کرے گی، کسٹڈی میں ٹارچر اب ختم ہونا چاہیے۔
Comments are closed.