وسعت اللہ خان کا کالم ’بات سے بات‘: رل تو گئے پر مزہ بہت آیا
جس طرح امریکہ کو اندازہ نہیں تھا کہ افغان قالین اس قدر تیزی سے پیروں تلے سے کھسک جائے گا، اسی طرح پاکستان کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ افغان قالین پیروں تلے آنے سے پہلے ہی پھسلنا شروع ہو جائے گا۔
سی آئی اے کا تخمینہ تھا کہ تیس سے نوے دن کی کھڑکی مل جائے گی جس کے دوران افغانستان سے منظم اور جامع انخلا ہو پائے گا۔
یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ بگرام کا سب سے اہم اور مرکزی اڈہ سب سے آخر میں چھوڑنے کے بجائے سب سے پہلے راتوں رات خالی کیا گیا مگر جس ٹیرا کوٹا افغان آرمی کے بل پر یہ قدم اٹھایا گیا وہ آخری امریکی فوجی نکلنے سے پہلے ہی ساکت ہو گئی۔
اسی طرح پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو گمان تھا کہ ڈیجیٹل دور کی اینڈورائیڈ پسند طالبان نسل گذشتہ نسل کے برعکس اپنا نظریاتی وجود برقرار رکھتے ہوئے ہاتھ ہولا رکھے گی۔ لہٰذا قومی سطح پر صنفی و نسلی نمائندگی اور اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے وعدوں پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
طالبان بھی افغان ہیں لہٰذا ایک کثیر نسلی افغان ڈھانچے کی اندرونی نزاکتیں ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔
اسی اعتماد کے سہارے طالبانی کابینہ کی تشکیل سے قبل آئی ایس آئی کے ہنس مکھ سربراہ نے کابل میں کیمروں کے سامنے چائے کا کپ تھاما۔
پر یہ تو جیدا حلوائی بھی جانتا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان چھوڑا ضرور ہے مگر خزانے کی چابی نیفے میں اڑس کے لے گئے ہیں۔ یہ تو اسلم کن کٹے کو بھی ادراک تھا کہ کیا دوست کیا دشمن سب کی ایکسرے نگاہیں اس وقت طالبان کا ایک ایک قدم گن رہی ہیں۔
سب کو توقع تھی کہ دنیا دکھاوے کے لیے سہی مگر طالبانی کابینہ کی تشکیل کچھ یوں ہو گی کہ اس میں کم ازکم ایک خاتون (بھلے وہ مکمل باپردہ ہی کیوں نہ ہو)، ایک ممتاز تاجک چہرہ، ایک ازبک اور ایک ہزارہ شخصیت ضرور شامل ہو گی تاکہ طالبانی دوست باقی دنیا سے کہہ پائیں کہ افغان طبقات کی نمائندگی کے وعدے کی جانب ابتدائی پیشرفت ہو رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ نمائندگی اور بڑھتی جائے گی۔
مگر کابینہ کے ناموں سے اندازہ ہوا کہ طالبان کے دوست بھی انھیں یہ سمجھانے میں ناکام رہے کہ نظریہ بھلے آسمانی ہی کیوں نہ ہو لیکن کاروبارِ حکومت و ریاست زمین پر ہی چلتے ہیں۔ ڈرائیور کا تقویٰ و پرہیز گاری و سادگی سر آنکھوں پر مگر گاڑی صرف پیٹرول کی زبان سمجھتی ہے۔
اب تصویر کچھ یوں بن رہی ہے کہ مغرب طالبانی حکومت کا معاشی گلا گھونٹنے کے درپے ہے اور طالبان ریاستی بقا کے لیے ناگزیر مصلحتی حکمتِ عملی اپنانے پر بھی تیار نہیں۔ اس کے نتائج جو نکلیں گے سو نکلیں گے مگر پاکستان کا گھبرانا بنتا ہے۔
جوں جوں دن گزر رہے ہیں توقعات پر پورے نہ اترنے والے طالبان اور پنڈی اسلام آباد سے ہر توقع وابستہ کرنے والی مغربی دنیا کے مابین پاکستان سینڈوچ بنتا جا رہا ہے۔
ہم نے ہاتھی تو خوشی خوشی خرید لیا مگر اسے اب کھلائیں کہاں سے اور سدھائیں کیسے؟ چالیس برس سے ’رل تے گئے ہاں پر چس بڑی آئی اے‘ کے اصول پر کھڑی افغان پالیسی سے جان چھڑانا بھی مشکل اور اس کی کل سیدھا کرنا تو اور مشکل۔
کل تک ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی کہ بے اقتدار طالبان اگر کسی کی سنتے ہیں تو بس ’آپ کے بھائی‘ کی سنتے ہیں لیکن اب با اقتدار طالبان جس طرح کا رویہ دکھا رہے ہیں اس کے بعد پاکستان بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ پہلے وہ بھائی کی تھوڑی بہت سن لیتے تھے مگر اب نہیں۔
مگر باقی دنیا کو آج بھی یقین ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کے بارے میں خوامخواہ کسرِ نفسی سے کام لے رہا ہے۔ ورنہ آئی ایس آئی کے سربراہ کاہے کو کابل جا کر کہتے کہ ’جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
طالبان کو توقع ہے کہ چین، روس، خلیجی ریاستیں اور پاکستان افغانستان کی معاشی کشتی ڈوبنے نہیں دیں گے۔ پاکستان بھی مغرب کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان ڈوبا تو اکیلے نہیں بلکہ بہت سوں کو لے کر ڈوبے گا۔
لیکن اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی ترجیح چین کا سٹرٹیجک گھیراؤ ہے اور اسے گذشتہ ماہ کی کابلی سبکی کے بعد یہ ثابت بھی کرنا ہے کہ وہ اب بھی ’لمبر ون‘ ہے، چنانچہ کوئی بھی ایسا علاقائی بحران جس سے چینی مفادات پر ضرب پڑ سکتی ہو امریکہ کو قابلِ قبول ہے۔
اب پاکستان جیسے ملکوں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ انھیں ہاتھیوں کی ناگزیر لڑائی میں کس طرح عدم استحکام اور دھشت گردی کی ممکنہ لہر سے خود کو، سی پیک کو، اپنی علاقائی و سٹرٹیجک اہمیت اور رسے پر تنی معیشت کو بچانا ہے۔
اب تو عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ طالبان کو وسیع تر نمائندہ حکومت کی اہمیت پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
خدا کرے خان صاحب کی یہ گھبراہٹ ’سب سے پہلے تو گھبرانا نہیں ہے‘ کے منتر کی زد میں نہ آ جائے۔ شاید یہی گھبراہٹ کوچہِ خرد تک لے جانے والی پگڈنڈی بن جائے۔
Comments are closed.