وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار دورۂ امریکا مکمل کر کے وطن واپس روانہ ہو گئے۔
اسحاق ڈار نے دورے میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ نے اپنے دورۂ امریکا کے دوران مالیاتی اداروں اور امریکی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔
وطن واپسی سے قبل واشنگٹن میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ دورے کا مقصد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی میٹنگز میں شرکت تھا، ان اداروں کو اعتماد دلانا تھا کہ پاکستان اپنی معاشی پالیسیوں کو جاری رکھے گا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے کہا تھا کہ سبسڈیز نہیں دی جانی چاہئیں، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کیےجائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ریفارمز پر کام جاری رہے گا، بجٹ ریفارمز میں 15 سے 20 فیصد تک کام رہ چکا ہے، مالیاتی ریفارمز پر 5 سے 10 فیصد کام باقی رہ گیا ہے، توانائی سیکٹر میں ریفارمز کا عمل بھی جاری رہے گا، فیٹف کی میٹنگ ہونے والی ہے، امید ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل آئے گا، پاکستان نے بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لیے بہت کام کیا، فیٹف نے کوئی اور اعتراض کیا تو اس کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ ورلڈ بینک اور دیگر اداروں نے سیلاب سے 32 اعشاریہ 4 ارب ڈالرز کے نقصانات کا تخمینہ لگایا ہے، سیلاب زدگان و نقصانات کی بحالی پر 16 اعشاریہ 2 ارب ڈالرز لگیں گے، جس کے لیے پاکستان پہلے ہی کام کر رہا ہے، اب تک سیلاب سے بحالی پر 99 ارب روپے لگائے جا چکے ہیں، مزید کام جاری رہے گا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان غیر ذمے دارانہ بیانات دیتے ہیں جس سے امریکا کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا ہے، پاکستان کا کمانڈ و کنٹرول سسٹم انتہائی مضبوط اور محفوظ ہے، یہ کمانڈ و کنٹرول سسٹم 2013ء سے 2018ء تک بھی مضبوط تھا، آگے بھی مضبوط رہے گا۔
وزیرِ خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ آئی اے ای اے کو 3 ہزار شکایات موصول ہوئیں، ان میں سے ایک بھی پاکستان کی نہیں، ہمارے پاس آپشن تھا کہ عدم اعتماد نہ لاتے، مگر ہمیں سیاست اور ریاست میں سے کسی ایک کو بچانا تھا، 4 سال معیشت کو جو نقصان ہوا پہلے اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Comments are closed.