لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے حمزہ شہباز کی بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب حلف برداری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو نامزد کرنے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران کئی سوالات اٹھا دیے۔
دورانِ سماعت لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے حمزہ شہباز اور پی ٹی آئی کے وکلاء پیش ہوئے۔
جسٹس شہرام سرور نے استفسار کیا کہ گورنر نے صدر کو جو خط لکھا اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟
تحریکِ انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ گورنر کو کسی نے ایڈوائس کی تھی کہ صدر کو خط بھیجیں، مجھے اسی ملک میں رہنا ہے، اس لیے سب کچھ نہیں بتا سکتا۔
لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ انہوں نے خط لکھا جس سے یہ بحران شروع ہوا۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ گورنر کا دفاع نہیں کر رہا، میں تحریکِ انصاف کی نمائندگی کرتا ہوں، عثمان بزدار کے استعفے کو ذاتی طور پر سپورٹ نہیں کرتا، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ گورنر کو ایڈوائس درست نہیں دی گئی۔
عدالت نے گورنر کے صدر کو لکھے گئے خط کو پڑھنے کی ہدایت کر دی۔
تحریکِ انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت میں خط پڑھ کر سنایا جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے الیکشن درست نہیں کرایا، ووٹوں کا شمار قانون کے مطابق درست نہیں تھا، وزیرِ اعلیٰ کے الیکشن کا کیس کلاسیکل تھا جس میں آئین کی خلاف ورزی ہوئی۔
عدالت نے سابق ایڈووکیٹ جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ احمد اویس صاحب! اب آپ بتائیں، کیونکہ یہ ایڈوائس آپ نے دی تھی۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ یہ غیر معمولی صورتِ حال تھی، جھگڑا ہوا تھا۔
عدالت نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنی ایڈوائس کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے کہنے پر گورنر نے حلف سے انکار کیا؟
احمد اویس نے جواب دیا کہ میری ایڈوائس فیکچوئل پوزیشن پر تھی۔
تحریکِ انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ احمد اویس نے یہ کہا تھا کہ حلف نہیں لینا، گورنر کو کچھ لوگوں نے حلف لینے کا کہا، ایڈووکیٹ جنرل اس میں ایڈوائس نہیں کر سکتے تھے اس لیے کہا کہ صدر سے ایڈوائس لیں، گورنر نے اسی لیے صدر سے ایڈوائس مانگی، گورنر کو تو آئینی ذمے داری پوری ہی نہیں کرنے دی گئی۔
جسٹس شاہد جمیل نے حمزہ شہباز کے وکیل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ موسمِ گرما کی عدالتی تعطیلات سے پہلے اس کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، آپ آج اپنے دلائل مکمل کر لیں، اگر کچھ رہ جائے تو تحریری دلائل دے دیجیئے گا۔
حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں وزیرِ اعلیٰ کو گورنر مقرر کرتا ہے، وہاں گورنر کے پاس وزیرِ اعلیٰ کے تقرر کا اختیار ہے، اگر گورنر کی رائےمیں یہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوا تب وہ حلف لے گا اور پھر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے، اگر آئین میں لکھا ہوتا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہو گا تب بھی گورنر حلف لینے کے پابند تھے، اسپیکر اسمبلی کے پاس ووٹ کو جانچنے کا اختیار ہے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ تو پھر گورنر کا اختیار کیا ہے؟
لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ حمزہ شہباز کے وکیل آئندہ سماعت پر بتائیں کہ کیا عدالت کسی اور کو حلف کے لیے کہہ سکتی ہے؟ کیا عدالت صدر کا اختیار اپناتے ہوئے کسی اور کو حلف لینے کے لیے مقرر کر سکتی ہے؟
Comments are closed.