بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ورچوئل سمٹ میں عدم شرکت: پاکستان نے امریکہ سے تعلقات میں بہتری کا موقع گنوا دیا؟

ورچوئل سمٹ میں عدم شرکت: پاکستان نے امریکہ سے تعلقات میں بہتری کا موقع گنوا دیا؟

  • سحر بلوچ
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

امریکی صدر جو بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘پاکستان نے ایک بہت اچھا موقع گنوا دیا۔ امریکہ کی جانب سے اس دعوت کے بعد شرکت کا مطلب پاکستان کو ایک جمہوری حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا۔’ کچھ ماہرین کے مطابق خطے کی بدلتی صورتحال اور خاص طور سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کو اپنی خارجی پالیسی وسیع کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے سکیڑنے کی۔

چند روز قبل امریکہ نے پاکستان کو جمہوریت پر ایک ورچوئل سمِٹ میں مدعو کیا تھا۔ یہ دو روزہ سمِٹ 9 دسمبر کو شروع ہوئی اور آج یعنی 10 دسمبر کو اس کا آخری دن تھا۔ پاکستان نے اس سمِٹ میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ‘مستقبل میں کسی اور موقع پر ساتھ بیٹھنے’ کی خواہش کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے 110 ممالک کو اس ورچوئل سمِٹ میں مدعو کیا گیا تھا جن میں کئی بڑے مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ انڈیا اور پاکستان بھی شامل تھے۔ چین، روس اور بنگلہ دیش سمیت چند دیگر ممالک کو اس سمِٹ میں نہیں بلایا گیا۔ چند ماہرین کے مطابق پاکستان نے چین کے دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ لیا جو دانشمندانہ نہیں تھا۔

‘آئرن برادر’

پاکستان کی جانب سے امریکی سمٹ میں شرکت سے انکار کے بعد چین کے دفترِ خارجہ کے ترجمان لیجیان ثاؤ نے ایک ٹوئیٹ میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو امریکی دعوت رد کرنے پر ‘آئرن برادر’ کہا ہے۔

اس سمِٹ کے بارے میں ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے چین کی نمائندگی کے لیے بیجنگ کے بجائے تائیوان کو مدعو کیا جس پر چین نے اعتراض کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ جبکہ ماہرین کے مطابق، پاکستان کے لیے اس سمِٹ میں جانا چین سے تعلقات بگاڑنے کے مترادف ہوتا جو پاکستان نہیں چاہتا تھا۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ ‘پاکستان کا فیصلہ بالکل درست اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کو چین کے تناظر سے کیوں دیکھا جائے؟ ایک بات جس کا خدشہ پاکستان نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس سمِٹ میں شامل ہونے والے ممالک کیا سچ مچ جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہیں؟’

پاکستان

،تصویر کا ذریعہMINISTRY OF FOREIGN AFFAIRS

امریکی چین کی سرد جنگ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی

وزیرِ اعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی ‘سرد جنگ’ کے بارے میں مختلف فورمز پر کہا ہے کہ پاکستان کسی سرد جنگ کے تحت بننے والے بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک روز پہلے اسلام آباد میں ہونے والے ایک کانکلیو میں کہا کہ ‘اس سے دنیا بھر میں مزید حلقہ بندیاں بنیں گی اور پاکستان کی کوشش یہی ہے کہ کسی حلقے کا حصہ نہ بنے۔’

‘پاکستان نے اس سمٹ میں شرکت سے انکار کر کہ غلطی کی’

قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹیکس اینڈ اینٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر فرحان صدیقی کے مطابق ‘پاکستان نے نہ جا کر غلطی کی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان نے ایک بہت اچھا موقع گنوا دیا۔امریکہ کی جانب سے اس دعوت کے بعد شرکت کا مطلب پاکستان کو ایک جمہوری حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا۔’

فرحان صدیقی کی اس بات کا پسِ منظر یہ ہے کہ پاکستان کو بارہا عالمی سطح پر ایک ‘ہائبرِڈ ریجیم’ کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔ جس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت پر مبنی ایک ملی جُلی حکومت ہے۔ اور پھر ایسا موقع آنے پر جہاں اس حکومت کو ایک جمہوریت کے طور پر تسلیم کیا جاتا، اس کو ہاتھ سے جانے دیا گیا۔

فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ ‘چین کو امریکہ ایک آمریت سمجھتا ہے اور اسی لیے اسے مدعو نہیں کرنا چاہتا تھا جو کہ پاکستان کے لیے خارجی سطح پر مشکلات بڑھا سکتا ہے۔’

پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتی سفارتی سرد مہری

دوسری جانب ماہرین امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کی وجہ رواں سال ہونے والے چند اہم واقعات کو بتاتے ہیں۔ ایک جانب امریکی صدر جوزف بائیڈن کا وزیرِ اعظم عمران خان کو خود فون نہ کرنا، امریکی سینیٹ میں پاکستان کے خلاف طالبان کی حمایت کرنے پر بِل پیش ہونا اور پھر افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہاں طالبان کی حکومت کا قیام اور خطے میں امریکہ کی موجودگی پر پاکستان کا یہ اصرار کرنا کہ ‘پاکستان کو خطے میں تنہا نہ چھوڑا جائے’ ان چند واقعات میں شامل ہے۔

اگر ماضی میں تھوڑا اور پیچھے جائیں تو رواں سال ستمبر میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی فورم کاؤنسل آن فارن ریلیشنز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اب جبکہ افغانستان میں امریکی عسکری مِشن ختم ہوچکا ہے تو اب وقت ہے کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو دہشت گردی کے خاتمے سے ہٹا کر وسیع تر مقاصد کی طرف لے جائیں۔’

ایک ہی ماہ بعد امریکی سفارتکار اور ڈپٹی سیکریٹری خارجہ وینڈی شرمن نے پاکستان آنے سے قبل ممبئی میں ایک تقریب کے دوران بظاہر دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ‘امریکہ پاکستان کے ساتھ وسیع بنیاد پر تعلقات نہیں دیکھتا۔’ اس بیان سے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی فضا مزید کھل کر سامنے آگئی۔

فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ ‘صدر بائیڈن کی طرف سے عمران خان کو فون کرنے سے یہ تاثر جاتا کہ پاکستان امریکہ کی نظر میں اب بھی اہم ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ بھی پاکستان سے تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ امریکہ ایک قدم بڑھا رہا تھا تو پاکستان کو بھی اسے خارجہ پالیسی میں ایک اہم قدم سمجھتے ہوئے قبول کرنا چاہیے تھا۔’

انھوں نے کہا کہ ایک طرف تو امریکی سمِٹ میں نہ جانے کا فیصلہ خود مختار فیصلہ سمجھا جارہا ہے، ‘لیکن چینی ترجمان کی خوشی سے یہ تاثر جاتا ہے کہ پاکستان نے یہ فیصلہ کسی دباؤ میں آ کر لیا ہے۔’

یہ بھی پڑھیئے

کیا سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ مہنگا ثابت ہو گا؟

امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں تجزیہ کار عامر رانا نے بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ‘ایک امید یہ بھی تھی کہ ان دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں کی بد اعتمادی ختم ہوجائے گی۔ لیکن جب یہ بد اعمتادی شروع ہوئی اس وقت موجودہ صدر جو بائیڈن سابق صدر اوبامہ کی انتظامیہ کا اہم حصہ تھے اور پاکستان اور خطے کی صورتحال کو بخوبی سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود وہ توقعات پوری نہیں ہوئیں جو پاکستان امریکی قیادت سے کررہا تھا۔’

ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا امریکی ورچوئل سمِٹ میں شرکت نہ کرکے پاکستان نے سفارتی تعلقات میں بہتری کا موقع گنوا دیا ہے؟

فرحان صدیقی کے مطابق ‘اگر آپ ایک جیو اکنامک ماڈل کی پیروی کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ پوری دنیا کے لیے کھلے ہیں۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ امریکی ہمارے ملک اور خطے میں سرمایہ لگائیں تو اسے اپنے امریکہ سے خارجی تعلقات پر کام کرنے پڑے گا۔ اور (سمِٹ میں جانے جیسے) مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینے چاہیے۔’

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان اور چین کے تعلقات کا ماضی؟

چین اور پاکستان کے تعلقات کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے بی بی سی کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ سنہ 1962 میں چین اور انڈیا کی جنگ کے بعد 1965 کی انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ میں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔

مشاہد حسین سید کہتے ہیں ‘حالانکہ امریکہ کے ساتھ ہمارا دفاعی معاہدہ بھی تھا اور وہ اس نوعیت کا ہمارا حریف بھی نہیں تھا لیکن امریکہ نے ان سب باتوں کے برعکس انڈیا کا ساتھ دیا۔ اس وقت چین، جس سے ہماری ابھی نئی نئی قربت شروع ہوئی تھی، اس کا پاکستان کا ساتھ دینا ایک اہم موقع تھا۔’

دوسرا موقع سنہ 1968 میں آیا جب پاکستان نے امریکہ کو پشاور سے چھ کلومیٹر دور بڈھ بیر کے ہوائی اڈے کے استعمال کی مزید اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ امریکہ تقریباً سنہ 1959 سے اس اڈے سے سابقہ سوویت یونین کے خلاف فضائی جاسوسی کرتا رہا تھا۔

جب پاکستان نے کھلے لفظوں میں امریکہ سے اسے بند کرنے کو کہا تو پاکستان کے اس اقدام سے چین خوش ہوا اور اس کے فوراً بعد سوویت یونین نے بھی پاکستان کو ایشین سکیورٹی معاہدے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ مگر پاکستان نے یہ دعوت مسترد کر دی۔

اسی طرح 1971 میں پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کی جس سے چین کو اُس زمانے میں درپیش بین الاقوامی تنہائی میں قدرے کمی واقع ہوئی۔ اب پاکستان اور چین کے تعلقات کے درمیان ایک کڑی 62 ارب ڈالر کی اقتصادی راہداری پر مبنی ہے۔

ماہرین کے مطابق خطے کی بدلتی صورتحال اور خاص طور سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کو اپنی خارجی پالیسی وسیع کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے سکیڑنے کی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.