’ورجینیٹی ٹیسٹ‘: پہلے والدہ کنوارپن ٹیسٹ کے لیے لے گئیں، پھر شادی کے بعد ساس کو بیڈ شیٹ دکھا کر میرے کنوارے ہونے کا ثبوت دیا‘

virginity

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, لز کلیمینٹس
  • عہدہ, بی بی سی نامہ نگار
  • مقام بی بی سی ویلز

شادی کو زندگی کا ایک نیا موڑ سمجھا جاتا ہے جس کے لیے عموماً لڑکا اور لڑکی دونوں نے کچھ نہ کچھ خواب بُنے ہوتے ہیں تاہم ویلز کی رہائشی فرح (فرضی نام) کے لیے اپنی زندگی کا یہ نیا سفر شروع ہونے سے پہلے ہی ایک ذہنی اذیت کا سبب بن گیا۔

فرح کے لیے یہ صرف مرضی کے بغیر کروائی جانے والی زبردستی کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ یہ بھی ہرگز نہیں چاہتی تھیں کہ ان کو اپنے کنوارپن کو ثابت کرنے کے لیے ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنا پڑے۔

18 سالہ فرح کو نہ صرف ان کی مرضی کے خلاف شادی پر زور دیا جا رہا تھا بلکہ اس زبردستی کے بندھن میں جڑنے سے پہلے ان کو اپنے کنوارپن کی سند کے لیے ورجینیٹی ٹیسٹ کروانے پر بھی مجبور کیا گیا۔

فرح کو ان مراحل سے گزرنے میں اپنی تذلیل محسوس ہو رہی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس سب پر شرمندگی محسوس ہوئی، جس سے انھوں نے مجھے گزارا اور شرمندگی اور ذلت کا یہ احساس مسلسل میرے ساتھ ہے۔‘

برطانیہ میں کنوار پن کی جانچ کرنا غیر قانونی ہے لیکن فلاحی ادارے اس بدسلوکی سے گزرنے والی خواتین کی مدد کرتے ہیں۔

فرح کا کہنا ہے کہ ’ان کی ماں انھیں کمیونٹی میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئیں تاکہ وہ میری پاکیزگی کے بارے میں جان سکیں اور میں اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ جا کر رہ سکوں۔ اس کے لیے محض 18 سال کی عمر میں مجھے شادی کے لیے مجبور کیا گیا۔‘

’وہ جانتے تھے کہ میں یہ سب نہیں چاہتی۔ میں نے آخری لمحات تک اس کے خلاف مزاحمت کی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں اس کے لیے مدد لے سکتی ہوں تو شاید میں کسی ایسے شخص سے بات کرتی جو میری بات سمجھ جاتا۔‘

فرح کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس ٹیسٹ کے بعد بھی ان کو ایسے مراحل سے گزرنا پڑا جس نے ان کو جذباتی صدمات سے دوچار کیے رکھا۔

’میں اپنی شادی کے پہلے دن بھی تذلیل کے مراحل سے گزری جب میری ساس کو میری خون آلود بیڈ شیٹ دکھا کر ثبوت دیا گیا کہ میں کنواری ہوں۔‘

virginity

،تصویر کا ذریعہRACHEL STONEHOUSE

کنوار پن کا ٹیسٹ کیا ہے؟

برطانیہ کے قوانین میں ورجینیٹی ٹیسٹ (کنوار پن کا ٹیسٹ) ایک غیر قانونی طریقہ کار ہے جس میں اندام نہانی میں پردہ بکارت (ہائمن) کا معائنہ شامل ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے یہ جانا جاتا ہے کہ کوئی عورت یا لڑکی کنواری ہے یا نہیں۔

لیکن عالمی ادارہ صحت اور رائل کالج آف اوبسٹیٹریشینز اینڈ گائناکالوجسٹ (آر سی او جی) کے مطالعات کے مطابق کنوارپن کے ٹیسٹ کے کوئی سائنسی شواہد یا طبی اشارے موجود نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک معائنہ یہ نہیں بتا سکتا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ آیا عورت نے کسی کے ساتھ ہمبستری(انٹرکورس) کیا۔ اداروں کے مطابق ٹیمپون کے استعمال اور ورزش بھی ہائمن پھٹنے کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

ٹیمپون ماہواری کے دوران خون کو جذب کرنے کے لیے پیڈز کا متبادل ہے، جسے اندام نہانی کے اندر رکھا جاتا ہے۔

کیا کنوارہ پن جانچنا قانون کے خلاف ہے؟

بی بی سی کو 2020 کے دوران اپنی تحقیقات میں یہ علم ہوا کہ بعض برطانوی طبی کلینکس میں خواتین کو متنازعہ کنوار پن کے ٹیسٹ کی پیشکش کی جا رہی ہے۔

ان میں سے کچھ اشتہارات نام نہاد ’ہائمنو پلاسٹی‘ کے بھی ہوتے ہیں جس میں ان کو کنواری ثابت کرنے کے لیے ایک خاص پروسیجر کیا جاتا ہے۔

سال 2022 سے برطانیہ میں کنوار پن کی جانچ کروانا،اس عمل کی پیشکش یا مدد کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا غیر قانونی ہے۔ ایسے عمل میں ملوث افراد کو پانچ سال تک قید کی سزا اور لامحدود جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

ہیلتھ اینڈ کیئر ایکٹ 2022 نے برطانیہ کے شہریوں اور رہائشیوں کے لیے ملک سے باہر ورجینیٹی ٹیسٹ کی جانچ میں مدد کرنے کو بھی غیر قانونی بنا دیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق کم از کم 20 ممالک میں کنوارے پن کی جانچ کی جاتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور اقوام متحدہ ان تمام ٹیسٹوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں اور دونوں ادارے دنیا بھر میں ان پر پابندیوں کے حق میں ہیں۔

برطانیہ میں کنوارے پن کی جانچ سے گزرنے والی خواتین کی درست تعداد کا تو علم نہیں کیونکہ کچھ کمیونٹیز میں جنسی تعلقات سے متعلق معاملات ممنوع ہو سکتے ہیں تاہم بہت سے لوگ اس کو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی یا بدسلوکی کے طور پر نہیں جان پاتے اور نہ ہی ان کو یہ پتا ہے کہ ورجینیٹی ٹیسٹ غیر قانونی ہے اور اس لیے بہت سے لوگ اس کو رپورٹ کرنے کے لیے آگے نہیں آتے۔

وانجیکو نگوتھ مبوگوا

،تصویر کا کیپشن

باوسو کی عبوری چیف ایگزیکٹیو وانجیکو نگوتھ مبوگوا کے مطابق جو کیسزسامنے آئے ان میں مصری، جنوبی افریقہ، پاکستان، انڈین اور سعودی عرب کے پس منظر والے افراد شامل ہیں

یہ بھی پڑھیے:

’خواتین نہیں جانتی کہ مدد کے لیے کہاں جائیں‘

فرح اب ویلز سے دور جا چکی ہیں اوران دنوں وہ ایسے ماحول میں مطمئن زندگی گزار رہی ہیں جہاں ان کے اطراف میں ایسا ’زہریلا ماحول‘ موجود نہیں تاہم جن تلخ تجربات کا انھیں سامنا کرنا پڑا تھا اس نے اپنے انمٹ نشانات چھوڑے ہیں اور اب وہ دوسری نوجوان خواتین کی مدد کرنے کے لیے اپنی کہانی شیئر کرنا چاہتی ہیں تاکہ ایسی بدسلوکی کا سامنا کرنے والی دوسری لڑکیوں کو آگاہی دے سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بہت ساری کمیونٹیز اس حساس موضوع پر بات نہیں کریں گی لیکن میں جانتی ہوں کہ بہت سی لڑکیوں کو اس سے گزرنا پڑتا ہے لیکن وہ لڑکیاں یہ نہیں جانتیں کہ انھیں مدد کہاں سے مل سکے گی۔‘

برطانیہ میں سیاہ فام اور نسلی امتیاز کا سامنا کرنے والی خواتین کی مدد کرنے والی تنظیم ’باوسو‘ نے سات ایسی خواتین کی مدد کی جن کو 2022 میں اپریل سے دسمبر کے درمیان کنوار پن کی جانچ کے تجربے سے گزرنا پڑا جبکہ تین ہائمینو پلاسٹی کروانے والی خواتین کو مدد فراہم کی۔

باوسو نے کہا کہ ان کے سامنے جو کیسز آئے ان میں مصری، جنوبی افریقہ، پاکستان، انڈین اور سعودی عرب کے پس منظر کے لوگ شامل ہیں۔

باوسو کے حکام کے مطابق ’یہ ایک عام مسئلہ ہے کیونکہ ویلز میں بہت سے لوگ ہیں جو ان ممالک سے ہجرت کر چکے ہیں جہاں کنوارپن کی جانچ کی مشق ایک معمول ہے۔‘

’ہم جانتے ہیں کہ لوگ اپنی ثقافت کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور ثقافت سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔ جو لڑکیاں اس عمل سے گزری ہیں وہ خود بہت شرمندہ ہیں۔‘

’اس کے صرف نفسیاتی اثرات نہیں ہوتے بلکہ ان لڑکیوں پر جسمانی اثر بھی پڑتا ہے کیونکہ یہ ان کی عزت نفس پر حملہ ہے اور ہائمن کو چیک کرنا جنسی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمیں ان پسماندہ روایات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ثقافت ایک تکلیف بن جائے تو اسے چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔‘

virginity

،تصویر کا کیپشن

نتاشا رتو سمجھتی ہیں کہ خواتین کے لیے یہ طریقہ کار ’ذہنی صدمے اور درد‘ کا سبب بن سکتا ہے

ایسی بدسلوکی سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے والے فلاحی ادارے ’کرما نروانا‘ نے دو سال کے دوران کنوارے پن کی جانچ سے متاثرہ 19 خواتین کی مدد کی۔ یہ ادارہ ورجینیٹی ٹیسٹ کے غیر قانونی ہونے سے متعلق شعور وآگاہی فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔

کرما نروانا کی ڈائریکٹر نتاشا رتو سمجھتی ہیں کہ ’خواتین کے لیے یہ طریقہ کار ’ذہنی صدمے اور درد‘ کا سبب بن سکتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کنوار پن کے ٹیسٹ شواہد پر مبنی نہیں ہوتے۔

انھوں نے کہا کہ معاشرے کو کنوارپن کے خیال کو ختم کرنا چاہیے اور خواتین کو ان کی جنسی حیثیت سے پرکھنا ختم کر دینا چاہیے۔

ویلز کی چیف نرسنگ آفیسر سو ٹرانکا نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں ممکنہ طور پر ضرورت سے کم بات کی گئی۔ اس پر بات چیت کرنا آسان نہیں کیونکہ یہ کافی حساس معاملہ ہے اور اب اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ خواتین اور لڑکیوں کی اس موضوع پر بات کرنے میں مدد کی جا سکے۔‘

’ہمیں ورجینیٹی ٹیسٹ پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس پر بات کرنے میں نہ صرف بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے بلکہ ساتھ ہی متاثرہ خواتین کی دیکھ بھال اور مدد فراہم کرنے میں آگے بڑھنے کی بھی ضرورت ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ