وال سٹریٹ کے معروف بروکر کے عروج و زوال کی کہانی جن کا ماننا تھا کہ ’لالچ اچھی چیز ہے‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنبوسکی لالچ کا دفاع کرتے تھے
ایک گھنٹہ قبل’لالچ اچھی چیز ہے۔ لالچ آپ کے کام آتا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے انسان میں لگن پیدا کرتا ہے۔ لالچ اپنی تمام تر شکلوں میں زندگی، پیسے، محبت اور علم کا محرک ہے۔ لالچ انسان کی ترقی کا سرچشمہ ہے۔‘یہ بات فلم ’وال سٹریٹ‘ کے مرکزی کردار گورڈن گیکو نے اس وقت کہی جب وہ اپنے کريئر کے عروج پر تھے۔ اس فلم کے لیے سنہ 1988 میں مائیکل ڈگلس کو بہترین اداکار کے لیے آسکر انعام سے نوازا گیا تھا۔لیکن نہ تو گیکو اور نہ ہی اُن کے الفاظ محض افسانہ تھے۔یہ کردار بہت حد تک سٹاک مارکٹ کے بروکر ایوان ایف بوسکی کی زندگی سے متاثر تھا۔ وہ ایک جارحانہ رویے کے حامل شخص تھے اور 1980 کی دہائی میں وال سٹریٹ سٹاک مارکیٹ میں پائے جانے والے ’لالچ‘ کی جیتی جاگتی تصویر۔ وہ اپنے وقت میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے سٹاک بروکر تھے۔

رواں ماہ 20 مئی کو 87 سال کی عمر میں وفات پانے والے بوسکی نے ماضی میں ایک یادگار تقریر کی تھی جس میں انھوں نے ’لالچ‘ کا دفاع کیا تھا۔بوسکی نے سنہ 1986 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے برکلے بزنس سکول کے طلبا کی گریجویشن تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دیکھیں، لالچ بہت اچھی چیز ہے۔ میرے خیال میں لالچ ایک صحت مند چیز ہے۔ آپ لالچی ہو سکتے ہیں اور اس کے باوجود اپنے بارے میں اچھا محسوس کر سکتے ہیں۔‘لیکن پھر کچھ دنوں بعد اِسی لالچ کے سبب بوسکی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفلم میں مائیکل ڈگلس نے گورڈن گیکو کا مرکزی کردار ادا کیا جس کے لیے انھیں آسکر انعام سے نوازا گيا

بڑی بولیاں لگانا

بوسکی ایک ایسے دور میں وال سٹریٹ میں کامیاب ہوئے جب وہاں بڑی کمپنیوں کی خریداری اور انضمام کا دور دورہ تھا۔بوسکی نے اپنے جارحانہ انداز کے ساتھ ایک ایسے مالیاتی شعبے کو ہلا کر رکھ دیا جو بہت قدامت پسند ہوا کرتا تھا۔ اس وقت دلچسپی رکھنے والے گروپس یا افراد عموماً ان کمپنیوں (جن کی ممکنہ خریداری کا پہلے ہی اعلان کیا جا چکا تھا) کے حصص میں چھوٹی سرمایہ کاری کرتے تھے، اس امید پر کہ ان کی قیمت پھر بڑھ جائے گی۔بوسکی نے خریداری یا انضمام کی پیشکشوں کے اعلان سے پہلے ہی اس قسم کی کمپنیوں کی شناخت کرنے کی کوشش کی اور لاکھوں ڈالر کے حصص کی خریداری کی۔انھوں نے بہت سے دوسرے لوگوں کے پیسوں سے یہ خریداریاں کیں اور منافع کی صورت میں انھوں نے 40 فیصد حصہ لیا لیکن نقصان کی صورت میں وہ دس فیصد لیتے تھے یعنی وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ سرمایہ کار کو فائدہ ہو یا نقصان مگر ان کا اپنا فائدہ ہی ہو۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے تقریباً 3000 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کو مستحکم بنانے اور 280 ملین امریکی ڈالر کی ذاتی دولت جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔سنہ 1985 میں فوربز میگزین نے انھیں امریکہ کے 400 امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل کیا اور ان کی دولت کا تخمینہ 150 ملین امریکی ڈالر (2024 میں تقریباً 425 ملین امریکی ڈالر) لگایا گيا۔ان کی سب سے کامیاب کارگزاریوں میں سے ایک وہ تھی جو انھوں نے تیل کمپنی گلف کے شیورون کے حصول کے حوالے سے حاصل کی۔ سنہ 1984 میں ہونے والا یہ اس وقت کا سب سے بڑا انضمام تھا اور اس نے بوسکی کو 65 ملین امریکی ڈالر کا منافع فراہم کیا۔اگلے سال انھوں نے جنرل فوڈز کارپوریشن کی تمباکو کمپنی فلپ مورس کے 5.8 ارب امریکی ڈالر کے انضمام میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت یہ تیل کے شعبے سے باہر سب سے زیادہ مالیت کا انضمام تھا اور اس کے ساتھ بوسکی نے تقریباً 50 ملین امریکی ڈالر کمائے۔ان کے دیگر قابل ذکر آپریشنز میں ٹیکساکو کی جانب سے تیل کمپنی گیٹی آئل کی خریداری، نابسکو برانڈز کمپنی اور تمباکو کمپنی آر جے رینالڈز کے درمیان انضمام اور کیمیکل کمپنی یونین کاربائیڈ کی تنظیم نو شامل تھے۔ان میں سے کچھ منافع بخش لین دین کے دوران بوسکی نے غیر قانونی فوائد حاصل کیے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنبوسکی اپنے وقت کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے بروکر تھے

پورا دن کھڑے ہو کر اور کافی پیتے گزارتے

بوسکی کو وال سٹریٹ پر دو عرفی ناموں پگی (لالچی) اور ’ایون دی ٹیریبل‘ سے جانا جاتا تھا۔ان کا دعویٰ تھا کہ وہ تقریباً دو یا تین گھنٹے کی نیند کے بعد صبح ساڑھے چار بجے بیدار ہوتے اور اپنی لیموزین میں مین ہٹن میں اپنے دفتر جانے سے پہلے ورزش کرتے تھے۔اس کے بعد وہ تقریباً پورا دن کھڑے ہو کر، بغیر کچھ کھائے کافی پیتے گزارتے۔ اس دوران وہ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی مارکیٹ کی معلومات پر نظر رکھتے، اس کے ساتھ وہ 160 ٹیلی فون لائنوں اور سکرینوں کے ایک گروپ کو کنٹرول کرتے اور یہ دیکھتے کہ ان کے ملازمین کیا کر رہے ہیں۔کام سے باہر وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنا پسند کرتے اور اپنے پرتعیش اخراجات پر پیسے بچانے کی نہیں سوچتے تھے۔مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ ریستوران میں جاتے تو مینو میں موجود تمام پکوانوں کا آرڈر دیتے اور سب کو چکھنے کے بعد اس میں سے ایک ہی کھاتے باقی سب چھوڑ دیتے تھے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سنہ 1986 میں انھیں نیویارک میں منعقد ہونے والی سب سے پُرتعیش پارٹیوں میں سے ایک میں مدعو کیا گیا تھا اور یہ پارٹی ملکہ الزبتھ ٹو کروز شپ پر ہوئی تھی جسے تقریباً دس لاکھ امریکی ڈالر (تقریباً آج کا 40 لاکھ امریکی ڈالر) میں چارٹر کیا گیا تھا۔ اسے ایک بزنس مین نے اپنے بیٹے کی سالگرہ منانے کے لیے منعقد کیا تھا۔وقت پر بندرگاہ پر نہ پہنچ پانے کی صورت میں بوسکی نے ہیلی کاپٹر لیا اور بحری جہاز کے روانہ ہونے کے عین موقع پر وہ فلمی انداز میں پورے سوٹ بوٹ میں ملبوس ہیلی کاپٹر سے بندرگاہ پر اترے تھے۔وہ اپنی کامیابیوں کا فخریہ انداز میں ذکر کرنا پسند کرتے تھے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وال سٹریٹ کے پہلے تاجر تھے جنھوں نے اپنے تعلقات عامہ کو سنبھالنے کے لیے ایک فرم کی خدمات حاصل کی تھیں اور سنہ 1985 میں انھوں نے ’مرجر مینی‘` نامی ایک کتاب شائع کی جس میں انھوں نے ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا فخریہ انداز میں ذکر کیا جو فروخت ہو سکتی تھیں یا جن کا انضمام ہو سکتا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمائیکل ملکن کو بوسکی کی وجہ سے سزا ہوئی

اندرونی معلومات

لیکن یہ کہنا زیادہ درست نہیں ہو گا کہ ان کی چھٹی حس یا مہارت نے ہی انھیں اتنی ساری دولت جمع کرنے میں مدد کی۔سنہ 1982 میں بوسکی نے تیل کمپنی سیٹیز سروس کے حصص کی بڑے پیمانے پر خریداری کی جو کہ گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی جس سے بوسکی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔دیوالیہ پن سے بچنے اور اندرونی معلومات حاصل کرنے کے لیے انھوں نے ایک کرپٹ سکیم تیار کی جس نے آگے چل کر سٹاک مارکیٹ کی سرمایہ کاری میں ہمیشہ انھیں درست فیصلے لینے کے قابل بنایا۔ان کے اہم شراکت داروں میں سے ایک مارٹن سیگل تھے جو کہ سرمایہ کاری والے بینک کِڈر، پیبوڈی اینڈ کمپنی میں کام کرتے تھے۔بوسکی کوریئر کے ذریعے سیگل کو لاکھوں ڈالر کی نقدی والے بریف کیسز بھیجتے جو نیویارک کے ہوٹل پلازہ کی لابی میں پہنچا دیے جاتے اور بدلے میں سیگل کمپنیوں کے انضمام یا حصول کے بارے میں اندرونی معلومات انھیں فراہم کرتے۔ایک اندازے کے مطابق بوسکی نے سیگل کو مختلف لین دین کے معاملات میں 750000 ڈالرز سے زیادہ دیے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنبوسکی سنہ 1987 میں عدالت پیشی سے قبل

زوال

لیکن بوسکی کا زوال سیگل کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک اور شخص کی وجہ سے ہوا۔ مئی 1986 میں امریکی حکام نے ڈریکسل برنہم لیمبرٹ انویسٹ بینک میں کام کرنے والے ڈینس لیون پر بروکرز کو اندرونی معلومات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا۔تحقیقات کے دوران تفتیش کاروں نے ڈینس لیون کے نوٹس میں بوسکی کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ بوسکی ان کی اندرونی معلومات کے خریداروں میں سے ایک تھے۔17 ستمبر 1986 کو بوسکی نے وفاقی حکام کے سامنے اعتراف جرم اور اور ان کے ساتھ مل کر انھوں مائیکل ملکن کو پکڑنے میں مدد فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ مائیکل ملکن اس وقت بانڈز مارکیٹ کو فروغ دینے میں اپنے کردار کی وجہ سے ’جنک بانڈ کنگ‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان بانڈز میں اگرچہ ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ تھا لیکن یہ زیادہ منافع دینے والے بانڈز تھے۔ملکن نے ڈریکسل برنہم لیمبرٹ میں بھی کام کیا تھا اور بوسکی کے ساتھ ان کا قریبی تعلق تھا۔ انھوں نے بوسکی کو سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ فراہم کیا اور ساتھ ہی اندرونی معلومات بھی فراہم کی۔حکام کے ساتھ اپنے معاہدے کے تحت بوسکی نے ملکن کے ساتھ ساتھ اس کرپٹ سکیم میں شامل دیگر لوگوں کے ساتھ اپنی گفتگو کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک خفیہ مائیکرو فون پہننے پر اتفاق کیا۔حکام کے ساتھ تعاون کرنے کے معاہدے کی بدولت بوسکی نے اندرونی معلومات حاصل کر کے کام کرنے کا جرم قبول کیا اور 100 ملین امریکی ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔دسمبر 1987 میں بوسکی کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ بہر حال رہائی حاصل کرنے سے قبل انھوں نے جیل میں دو سال گزارے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}