والدہ کی لاش کو کچرے کے پہاڑ سے نکالنے کی جدوجہد: ’پہلے بتایا گیا کہ والدہ کو لینڈ فِل سے نکالنا ناممکن ہے‘
والدہ کی لاش کو کچرے کے پہاڑ سے نکالنے کی جدوجہد: ’پہلے بتایا گیا کہ والدہ کو لینڈ فِل سے نکالنا ناممکن ہے‘
کیمبریا ہیرس اپنی مقتول ماں کی لاش کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہیں
سات ماہ تک اپنی والدہ کی کوئی خبر نہ ملنے کے بعد کیمبریا ہیرس کو ایک روز اچانک معلوم ہوا کہ ایک سیریل کلر نے انھیں قتل کر دیا ہے۔
اتنا یہ بھی بتایا گیا کہ اُن کی والدہ کی لاش کینیڈا کے شہر ونی پیگ میں ایک کوڑے کے بڑے ڈھیر میں پھینک دی گئی تھی اور اب یہ وہاں کئی ٹن کچرے کے نیچے دبی ہوئی تھی۔
کیمبریا ہیریس کی والدہ اُس سیریل کلر کی واحد شکار نہیں تھیں۔ قاتل نے تین دیگر مقامی خواتین کو بھی قتل کیا تھا۔
کیمبریا بتاتی ہیں کہ یکم دسمبر 2022 کو انھیں پولیس کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی۔
’وہ مجھے ایک عمارت میں لے گئے اور جب میں وہاں داخل ہوئی تو میرا پورا خاندان وہاں موجود تھا۔ میری بہنیں، میری خالہ، میرے چچا، میرے کزن اور وہ تمام لوگ جو میری والدہ کے بارے میں پریشان تھے اور جنھوں نے ان کو ہر جگہ تلاش کرنے کا کام کیا تھا۔‘
’پولیس نے ہم سب کو بٹھایا اور بتایا کہ فرانزک ٹیسٹ کے ذریعے وہ اس بات کا تعین کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ میری والدہ کو قتل کیا گیا ہے۔‘
’انھوں نے ہمیں لینڈ فل (وہ جگہ جہاں شہر بھر کا کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ہے) کی تصاویر دکھائیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ دیکھو تمہاری ماں کچرے کے ایک بڑے پہاڑ کے نیچے دبی ہوئی ہے اوروہ کچھ نہیں کر پائیں گے اور یہ کہ ہم انھیں ڈھونڈنے نہیں جا رہے ہیں۔‘
کیمبریا کو پولیس کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اُن کی والدہ کی لاش نکالنے کے لیے لینڈ فل کی تلاش ناممکن ہے تاہم حال ہی میں حکومت کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ یہ ممکن ہے۔
انھیں بتایا گیا کہ اس عمل کو مکمل ہونے میں تقریباً تین سال لگیں گے اور اس پر 184 ملین ڈالر کی لاگت آئے گی، لہٰذا وفاقی حکومت یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ لاش کی تلاش شروع کی جائے یا نہیں۔
کیمبریا کو نہیں لگتا تھا کہ ایسا ممکن ہو سکے گا۔
کینیڈا کی مقامی خواتین کی ایسوسی ایشن نے 4,000 سے زیادہ ان خواتین کے نام بتائے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ انھیں پچھلے 30 سال میں انھیں قتل کیا گیا۔
سنہ 2019 میں کینیڈا کی حکومت کی جانب سے کی گئی ایک انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ خواتین کینیڈین نسل کشی کا شکار تھیں جو ریاستی اقدامات اور نوآبادیاتی نظریات کی وجہ سے ہوا کرتی تھیں۔
کیمبریا ہیرس نے پھر اپنی کہانی سنائی۔
کیمبریا ہیرس کو دسمبر میں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ کو قتل کر کے گڑھے میں پھینک دیا گیا تھا
میرا نام کیمبریا ہیرس ہے، میں ونی پیگ میں پیدا ہوئی اور وہیں پرورش پائی۔ میری پیدائش کے پندرہ ماہ بعد میری بہن کیرا پیدا ہوئی اور چند سال بعد میری بہن جینیل اور بھائی سیت کی پیدائش ہوئی۔
میری ابتدائی زندگی اچھی تھی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ میرا گھر خالی ہو اور مجھے ہمیشہ خالہ، چچا اور میرے تمام کزنز جو نزدیک ہی رہتے تھے، ہمارے گھر آتے رہتے۔
میرے گھر میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب گھر میں قہقہے نہ گونجتے ہوں لیکن ایک دن جب میں چھ سال کی تھی، میں گھر آئی تو وہاں پولیس والوں کو پایا۔
وہ شاید میرے گھر میں گھس گئے یا کسی چیز کے لیے میری ماں کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور یہی وہ دن تھا جب چائلڈ اینڈ فیملی سروسز والے مجھے لے گئے۔
یہ بہت تکلیف دہ تھا۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ میں کافی دیر تک ایک شیلٹر یا پناہ گاہ میں رہنے والی ہوں اور 18 سال کی عمر تک یہی میری حقیقت بن کر رہی۔
میرے پردادا، دادی اور دیگر رشتہ داروں کو ہجرت کرنی پڑی اور وہ ایک سڑک کے کنارے رہنے لگے۔
پھر وہاں تعمیر کا کام شروع ہوا تو انھیں بے گھر کر دیا گیا اور وہ ایک گندے علاقے میں انتہائی بُرے حالات میں رہنے لگے۔ میری دادی نشے کا شکار ہو گئیں۔ میری ماں نے بھی درد کش گولیاں کھانی شروع کر دیں۔ انھیں یہ دوائیں برسوں پہلے تجویز کی گئی تھیں۔
میں تقریباً 11 یا 12 سال کی تھی جب میری والدہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھیں اور دماغی بیماری سے لڑتے ہوئے سڑک پر آ گئیں۔
جب تک مجھے یاد ہے پھر وہ علاج کے لیے شیلٹر ہومز میں آتی جاتی رہیں لیکن ایک بار پھر وہ سڑک پر آ گئیں۔
ان کے پاس رہنے کے لیے وسائل نہیں تھے۔ پھر وہ غائب ہو گئیں۔ میری ماں کہیں نظر نہیں آئیں۔ ہم نے پلوں کے نیچے دیکھا، ہم نے انھیں کلبز، ویران گھروں اور خطرناک مقامات پر ہر جگہ تلاش کیا۔ ہم مختلف مقامات پر انھیں تلاش کرتے رہے اور ہر ممکن دروازہ کھٹکٹاتے رہے۔
مئی میں ہمیں ربیکا کونٹوئس کے قتل کا علم ہوا، جن کی لاش ایک اور کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
یہ جاننا بہت پریشان کن اور چونکا دینے والا تھا کہ سیریل کلر سڑکوں پر گھوم رہا تھا۔
مجھے خدشہ تھا کہ کہیں میری ماں اس کے شکاروں میں سے ایک نہ ہو۔ مہینے گزر گئے اور پھر پولیس سے ہمیں خبر ملی۔
میرا سب سے بڑا درد یہ ہے کہ میرے پاس ان کی باقیات نہیں۔ میں ان کی لاش تک نہیں دیکھ سکی اور وہ مجھے کہتے ہیں کہ میری ماں مر گئی ہے لیکن وہ کہاں ہے؟
22 سال کی کیمبریا ہیرس 18 سال کی عمر میں ماں بن گئی تھیں
اگر ان کی موت بھی ہو گئی ہے تو ان کی لاش تو ملنی چاہیے یہ ڈمپ یارڈ ایک اجتماعی قبر کی مانند ہے۔
میں اس کوڑے کے ڈھیر پر گئی اور وہاں جا کر رسومات ادا کیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آپ بے بس ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
میری ماں نے مجھے 18 سال کی عمر میں جنم دیا تھا اور یہی وہ عمر تھی جب میں بھی حاملہ ہوئی۔
میرے اندر یہ خوف پیدا ہوا کہ نوعمری میں حاملہ ہونے کی وجہ سے میری بیٹی کو مجھ سے چھین لیا جائے گا۔
میں صدمے اور پریشانیوں کے اس چکر کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہوں جو نسل در نسل غیر منصفانہ طور پر ہوتا رہا اور میری سب سے بڑی فتح اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ میری بیٹی کو کبھی بھی اس سب سے گزرنا نہ پڑے جس سے میں گزری ہوں۔
Comments are closed.