وائس آف دی گلوبل ساؤتھ: کیا ترکی، سعودی عرب اور انڈیا اپنا رخ بدل رہے ہیں؟
- مصنف, رجنیش کمار
- عہدہ, نامہ نگار بی بی سی
یوکرین جنگ میں ترکی اور انڈیا نے امریکی دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا
یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے حوالے سے ترکی نے امریکہ کی ایک نہ سنی، انڈیا نے بھی روس سے تیل درآمد کرنا بند نہیں کیا، بائیڈن سعودی عرب کو الگ تھلگ کرنے کی بات کر رہے تھے لیکن اچانک خود ہی سعودی عرب پہنچ گئے۔ تو کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اب متوسط طاقت کہے جانے والے ممالک امریکی دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ادھرانڈیا 12 اور 13 جنوری کو ’وائس آف دی گلوبل ساؤتھ‘ سمٹ منعقد کر رہا ہے جس میں اس نے 120 ممالک کو مدعو کیا ہے۔اس کانفرنس کی صدارت وزیراعظم نریندر مودی کریں گے۔ اس میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور سری لنکا کے صدر رانیل وکرماسنگھے سمیت کئی عالمی رہنما شرکت کر سکتے ہیں۔
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے 2019 میں 25 اور 26 اکتوبر کو باکو، آذربائیجان میں ہونے والی نان الائنڈ موومنٹ کے 19ویں سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس سے قبل 2016 میں وینزویلا میں منعقدہ 18ویں سربراہی اجلاس میں بھی انھوں نے شرکت نہیں کی تھی۔ ان سربراہی اجلاسوں میں ملک کے نائب صدر نے شرکت کی تھی۔ 2016 میں اس وقت کے نائب صدر حامد انصاری وینزویلا اجلاس میں انڈیا کی نمائندگی کررہے تھے اور 2019 میں اس وقت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو باکو اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ اس تحریک کے سربراہی اجلاس میں مودی کی عدم شرکت کو ایک فیصلہ کن قدم کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ انڈیا اس کا بانی رکن تھا۔ 1961 میں اس کے سربراہی اجلاس کے آغاز کے بعد سے انڈیا کے تمام وزرائے اعظم نے اس میں شرکت کی ہے۔ نریندر مودی کا سربراہی اجلاس میں نہ جانا انڈیا کی خارجہ پالیسی میں نہرو دور کی وراثت میں تبدیلی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہے کہ نریندر مودی کی خارجہ پالیسی نان الائنمنٹ کے اصول سے دور ہو گئی ہے؟
افغانستان سے امریکی انخلا انڈیا کے لیے آنکھیں کھلنے کے مترادف تھا
نان الائنمنٹ کی تحریک وجود میں کیوں آئی نان الائنمنٹ کی تحریک سرد جنگ کے دوران وجود میں آئی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد یہ نظریہ قائم کرنا تھا کہ سرد جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین کی قیادت میں دو قطبی دنیا کے علاوہ ایسے ممالک کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کسی کیمپ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
نان الائنمنٹ کی تحریک نے دو سپر پاورز کے دباؤ کو مسترد کرنے کا حوصلہ دکھایا۔ گزشتہ برس 24 فروری کو روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے یوکرین کے ساتھ جنگ شروع کی تھی اور یہ جنگ اب تک جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر سپر پاورز کے درمیان محاذ آرائی کا دور واپس آگیا ہے۔ ایک بار پھر تیسری دنیا کے ممالک دباؤ میں ہیں کہ وہ یا تو روس کا ساتھ دیں یا یوکرین کی مدد کرنے والے امریکی زیر قیادت مغربی بلاک کا۔
انڈیا پر روس کی مخالفت کے لیے امریکہ کا دباؤ تھا لیکن روس انڈیا کا روایتی اتحادی رہا ہے۔ ایسے میں مودی سرکار نے نہ تو امریکی دباؤ کے سامنے جھک کر روس سے دوستی کو متاثر ہونے دیا اور نہ ہی یوکرین پر حملے میں روس کا ساتھ دیا۔ بہت سے ناقدین نے کہا کہ ایک طرف مودی نان الائنمنٹ کی تحریک کی وراثت کو طاق پر رکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور دوسری طرف مشکل حالات میں بھی وہی پالیسی اپناتے ہیں۔ دریں اثنا، انڈیا 12 اور 13 جنوری کو ’وائس آف دی گلوبل ساؤتھ سمٹ‘ منعقد کرنے جا رہا ہے۔
روس اور انڈیا کے تعلقات بہت گہرے ہیں
گلوبل ساؤتھ کیا ہے؟
’گلوبل ساؤتھ‘ کا لفظ وسیع پیمانے پر لاطینی امریکہ، ایشیا، افریقہ اور اوشیانا کے علاقوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔تیسری دنیا کو گلوبل ساؤتھ کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یورپ اور شمالی امریکہ کے علاوہ باقی علاقوں کو گلوبل ساؤتھ میں رکھا گیا ہے۔
گلوبل ساؤتھ کے زیادہ تر ممالک کم آمدنی والے اور سیاسی و ثقافتی طور پر پسماندہ ممالک ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گلوبل ساؤتھ کو ترقی یا ثقافتی اختلافات سے توجہ ہٹا کر جغرافیائی سیاسی تعلقات کی مضبوطی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔عالمی عدم مساوات کی وضاحت کے لیے سماجیات کی اپنی سمجھ ہے۔ گلوبل ساؤتھ کے بڑے علاقے یورپ کی کالونیاں رہے ہیں۔ ویسے بھی بین الاقوامی سیاست میں شمال اور جنوب کے درمیان خلیج ہمیشہ موجود رہی ہے۔ گلوبل ساؤتھ میں ترقی پذیر اور سابق نو آبادیاتی ممالک شامل ہیں اور صنعتی طاقت والے ممالک کے ساتھ ان کے تنازعات رہے ہیں۔ چین اور جاپان گلوبل ساؤتھ میں شمار نہیں ہوتے۔ گلوبل ساؤتھ میں وہی ممالک شامل ہیں جو نان الائن موومنٹ میں شامل رہے ہیں۔ یوکرین کے بحران کے بعد انڈیا گلوبل ساؤتھ کے بارے میں اسی لہجے میں بات کر رہا ہے، جو نان الائنمنٹ کی تحریک کی پالیسی میں ایک عرصے سے کہا جا رہا ہے۔ کیا مودی نام بدل کر عدم اتحاد کی جانب یو ٹرن لے رہے ہیں؟
انڈیا موجودہ حالات میں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے
کیا امریکہ کو صرف اپنے مفادات کی فکر ہے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سینٹرل ایشیا اینڈ رشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں: ’مودی کے پہلے دور کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ نان الائنمنٹ سے دور ہو رہے ہیں۔ اسے اس وقت مزید تقویت ملی جب مودی نے نان الائنمنٹ کی تحریک کے دو سربراہی اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔ امریکہ میں ہاؤڈی مودی اور ٹرمپ کے انڈیا آنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ مودی کا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہو رہا ہے۔ جب امریکہ نے 2021 میں افغانستان سے اپنی تمام فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیا تو انڈیا کو اس کی خبر تک نہیں تھی۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان نے 15 اگست 2021 کو افغانستان کی باگ ڈور سنبھالی۔ امریکہ نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا لیکن انڈیا کا ذکر تک نہیں کیا۔ طالبان کے آنے کے بعد انڈیا کے کئی طرح کے مفادات داؤ پر لگ گئے۔ ڈاکٹر راجن کمار کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن انتظامیہ کے اس اقدام سے مودی حکومت کو یقین ہو گیا کہ امریکہ کو صرف اپنے مفادات کی فکر ہے اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے‘۔ اس کے بعد گزشتہ سال 24 فروری کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو صورتحال تیزی سے بدل گئی۔ امریکہ نے انڈیا پر دباؤ ڈالا کہ وہ یوکرین کے حق میں آئے اور روس کے خلاف بولے۔ انڈیا کے لیے ایسا کرنا مشکل تھا۔ روس انڈیا کا پرانا اتحادی ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال سے نکلنے کے لیے انڈیا نے نان الائنمنٹ کی تحریک کے اصول کا سہارا لیا۔ اب مودی حکومت نان الائنمنٹ کی پالیسی کو ملٹی الائنمنٹ قرار دے رہی ہے۔ اگر گلوبل ساؤتھ سمٹ کو نان الائنڈ موومنٹ سمٹ کہا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ چیزیں کم از کم باہر سے نئی نظر آئیں۔
ترکی اور انڈیا امریکی دباؤ میں نہیں آئے
سپر پاور کا بھی زور نہیں چلا
یوکرین اور روس کی جنگ کے بعد گلوبل ساؤتھ کے ممالک پر یوکرین کے ساتھ آنے کے لیے ایک طرح سے امریکا کا دباؤ تھا اور روس چاہتا تھا کہ وہ ممالک امریکی قیادت کو چیلنج کرنے کے لیے اس کا ساتھ دیں۔ امریکہ نے اس کے لیے جمہوریت کی دُہائی دی اور اس طرح پیش کیا کہ ایک آمرانہ حکومت والے ملک (روس) نے ایک جمہوری ملک (یوکرین) پر حملہ کر دیا ہے۔ ایسے میں تمام جمہوری ممالک کو یوکرین کے حق میں کھڑا ہونا چاہیے۔ انڈیا کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھا جاتا ہے اور اس نے اس دلیل کو یکسر مسترد کر دیا۔ انڈیا کے وزیر خارجہ نے اس دلیل کو لیکر مغرب کو ہی گھیر لیا۔ پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں، جے شنکر نے آسٹریلیا میں ان کے وزیر خارجہ پینی وونگ کے سامنے کہا تھا، ’روس کے ساتھ انڈیا کےگہرے تعلقات کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کئی دہائیوں تک مغربی ممالک نے انڈیا کو اسلحہ نہیں دیا اور ہمارا ہمسایہ ملک جہاں ایک فوجی حکومت تھی، اُسے اسلحہ ملتا رہا۔ کیونکہ ہمارا پڑوسی فوجی آمرمغرب کا پسندیدہ پارٹنر رہا ہے۔
‘
لیکن یہ صرف انڈیا کے بارے میں نہیں ہے۔ انڈیا کی طرح کئی متوسط طاقت والے ممالک نے امریکہ کی بات نہیں مانی اور اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا ان درمیانی یا متوسط طاقتوں میں شامل ہیں۔ ترکی اور انڈیا نے یوکرین پر روسی حملے سے اتفاق نہیں کیا لیکن روس کے خلاف مغربی پابندیوں سے خود کو الگ کر لیا۔ اس کے باوجود روس اور امریکہ نے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھا۔ ترکی اور بھارت کو اس تصادم سے خود کو دور رکھنے کی اجازت دی گئی۔
سعودی عرب نے تیل کی پیداوار کم کردی
متوسط طاقت کا غلبہ
کہا جا رہا ہے کہ 2022 میں متوسط طاقت والے ممالک نے خارجہ پالیسی کے محاذ پر اپنی آزادی اور مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ترکی، انڈیا، سعودی عرب اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور کسی کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکے۔ گزشتہ صدی میں سرد جنگ کے زمانے میں جو صورتِ حال تھی اب حالات اس سے مختلف ہیں کیونکہ یہ متوسط طاقتیں اب معاشی طاقتیں بن کر ابھری ہیں اور اب کسی سپر پاور کی تابعداری کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے یوکرین کے بحران کے بعد روس سے انڈیا کی تیل کی درآمدات میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کو اس بات کا بالکل خوف نہیں کہ روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے مغرب ناراض ہو جائے گا یا کوئی جوابی کارروائی کرے گا۔ یہی نہیں، اس سے قبل امریکا نے انڈیا کو روس سے-400 ایس طیارہ شکن میزائل سسٹم خریدنے پر پابندی سے خبردار کیا تھا جس کے تحت روس سے فوجی سازوسامان خریدنے والے کسی بھی ملک پر پابندی عائد کرنے کی شق ہے۔ انڈیا نے امریکہ کی ایک نہ سنی اور امریکہ نے قوانین کے باوجود کوئی پابندیاں نہیں لگائیں۔
جب پوری دنیا میں مہنگائی بڑھ رہی تھی تو سعودی عرب نے تیل کی پیداوار کم کردی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے چین کے ساتھ کئی معاہدے بھی کئے۔ اس سب کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی کانگریس میں یمن کے حوالے سے سعودی عرب کے خلاف قرارداد کو رکوانے کی بھر پوری کوشش کی۔ کہا جا رہا ہے کہ اب متوسط طاقتیں کسی کیمپ میں شامل ہوئے بغیر موجودہ بین الاقوامی نظام میں اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔
امریکہ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو امریکہ جانے پر جمال خاشقجی کیس میں کسی بھی قانونی کارروائی سے استثنیٰ کردیا
ترکی کا سخت موقف
نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود روس کے بارے میں ترکی کا موقف نیٹو کی سرکاری لائن سے بالکل مختلف ہے۔ روس کے خلاف پابندیوں میں پورا نیٹو شامل ہے لیکن ترکی نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ ترکی نے فن لینڈ اور سویڈن پر نیٹو میں شمولیت کے لیے کئی شرائط عائد کی ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ اور یورپ ترکی کے خلاف کھل کر بات نہیں کر رہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں بین الاقوامی نظام میں تبدیلی آئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اب مڈل پاور کو قبول کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ تھنک ٹینک کوئنسی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سارنگ شیدور نے لکھا ہے، ’امریکہ اپنی آنکھوں سے جس طرح دنیا کو دیکھتا ہے اسے ویسا ہی بنانا چاہتا ہے۔ پہلے وہ اپنے کھانچے میں خود کو فٹ کرتا ہے اور پھر اسے پوری دنیا پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے‘۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین اپنے مقاصد پر ڈٹے ہوئے تھے۔ دونوں فریق اپنے کیمپ کو وسعت دینا چاہتے تھے۔ اس کے لیے دونوں باقی دنیا کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے تھے۔ کئی بار روس اور امریکہ نے دوسرے ممالک کو اپنے خیمے میں لانے کے لیے وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں بھی بنائیں۔ کوئنسی انسٹیٹیوٹ کے ایک نان ریذیڈنٹ فیلو لنڈسے او رورک کی تحقیق کے مطابق سرد جنگ کے دوران امریکہ نے خفیہ آپریشنز کے ذریعے کئی مالک میں کم از کم 26 مرتبہ اپنی پسند کی حکومتیں بناوائیں۔ تاہم سرد جنگ کے دوران کئی بار امریکہ کو مڈل پاور نے چیلنج کیا۔
1973 میں اسرائیل کی شام اور مصر کے ساتھ جنگ ہوئی۔ اسے اکتوبر کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مغرب نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ عرب تیل پیدا کرنے والے ممالک نے اسرائیل کی امداد کے جواب میں مغرب کو تیل کی برآمدات روک دی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب مڈل پاور نے براہ راست امریکہ کو للکارا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی چھوٹے ممالک کے بارے میں امریکہ کا رویہ بہت جارحانہ رہا۔ 1990 اور 2017 کے درمیان، جب یک قطبی دنیا شباب پر تھی، تب امریکہ نے130 فوجی مداخلتیں کیں۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی چھوٹے ممالک کے بارے میں امریکہ کا رویہ بہت جارحانہ رہا
چین کی ’حقیقت پسندانہ‘ خارجہ پالیسی
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں امریکہ نے اپنی پسند کی حکومت بنانے کی کوشش کی۔ امریکہ عراق اور افغانستان میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک معاشی طور پر طاقتور ہو چکے ہیں اور امریکہ کی ہر بات ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن ایران اور وینزویلا ابھی تک امریکی پابندیوں سے آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔ تاہم امریکہ کے رویے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو ایران اور وینزویلا کے تیل کو مارکیٹ میں کیوں نہیں آنے دیا جا رہا؟ چین کی خارجہ پالیسی کو زیادہ حقیقت پسندانہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔
ہچین کی یہ پالیسی پوری دنیا میں اقتصادی تعاون بڑھانے میں مددگار سمجھی جاتی ہے۔ چین نے مشرق وسطیٰ کے ان ممالک میں بھی اپنا اقتصادی تعاون بڑھایا ہے جہاں جمہوریت نہیں ہے۔ درمیانی طاقت والے ممالک جو قدرتی وسائل اور سٹریٹجک محل وقوع کے اعتبار سے اہم ہیں، وہ مغرب سے آنکھ ملا کر بات کر رہے ہیں۔ جے این یو میں انسٹیٹیوٹ آف سنٹرل ایشیا اینڈ رشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے کمار پانڈے کہتے ہیں کہ ’ترکی نے بہت سمجھداری سے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ وہ مغرب اور روس کے درمیان توازن قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ترکی بحیرہ اسود سے یوکرین کے اناج کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ امریکی کانگرس میں اردوغان کی بہت مخالفت تھی لیکن کوئی بھی سیاسی یا جنگی اہمیت کے حامل اپنے مقام کو نہیں چھوڑنا چاہتا اور اردوغان اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ادھر سعودی عرب روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے میں سعودی عرب کو تنہا کرنے کی بات کی تھی لیکن گزشتہ سال جولائی میں وہ خود سعودی عرب پہنچ گئے تھے۔ امریکہ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو امریکہ جانے پر جمال خاشقجی کیس میں کسی بھی قانونی کارروائی سے استثنیٰ کردیا ہے۔
گزشتہ سال فرانس نے ولی عہد کا پیرس پہنچنے پر شاندار استقبال کیا تھا۔
گزشتہ نومبر میں بالی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس سے قبل انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے روسی صدر پیوتن سے ملاقات کی اور مغرب کے دباؤ کے باوجود انھیں دورے کی دعوت دی۔ اس وقت جی 20 کی صدارت انڈیا کے پاس ہے اور اس سال نومبر میں سربراہی اجلاس منعقد ہونا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جی 20 میں انڈیا کا ایجنڈا گلوبل ساؤتھ ہی رہے گا۔
Comments are closed.