- مصنف, سیلن گرت اور مہمت ہمسیچی
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- ایک گھنٹہ قبل
’ہمارے صدر نے واضح کیا ہے کہ ترکی تمام اہم پلیٹ فارمز میں شامل ہونا چاہتا ہے بشمول برکس۔۔۔‘ یہ بیان ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ترجمان عمر سلک نے دیا تو ایسے میں انھوں نے ان خبروں کی تصدیق نہیں کی کہ کیا انقرہ نے برکس کی رکنیت کے لیے درخواست دی ہے یا نہیں۔تاہم انھوں نے صرف اتنا کہا کہ ’یہ ایک جاری عمل ہے۔‘واضح رہے کہ برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس نامی تنظیم کا اگلا اجلاس 22 سے 24 اکتوبر کے درمیان روس میں منعقد ہو گا جس کے دوران نئے اراکین کی شمولیت پر بھی بحث متوقع ہے۔
اگر ترکی برکس میں شامل ہو گیا تو؟
اگر ترکی کو برکس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تو یہ نیٹو کا پہلا رکن ملک ہو گا جو روس اور چین کی سربراہی میں بننے والے اس غیر مغربی معاشی اتحاد کا حصہ ہو گا۔
کریم ہاس ترکی اور روس کے تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ترکی اور برکس بلکہ نیٹو اور مغربی اتحاد کے لیے بھی کافی اہمیت کا حامل ہو گا۔‘انھوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ ’ترکی کو بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے اور ملک کو درپیش معاشی بحران کی وجہ سے تعلقات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاگر ترکی کی معیشت کا بحران مزید شدید ہوا تو یورپی بینکوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا کیونکہ ترکی کی نصف سے زیادہ تجارت یورپی ممالک کے ساتھ ہوتی ہے۔یورپی یونین کی کونسل کے مطابق اس وقت وہ ترکی کی سب سے بڑی تجارتی شراکت دار ہے اور 2022 میں ترکی اور یورپی یونین کی باہمی تجارت کا حجم تقریباً 200 ارب یورو تھا۔اسی لیے کریم کا ماننا ہے کہ یورپی یونین نے یوکرین جنگ کے بعد روس کے خلاف پابندیوں میں ترکی کی جانب سے شامل نہ ہونے کے فیصلے پر زیادہ ردعمل نہیں دیا۔’مغربی دنیا ترکی کی جانب سے روس سمیت دیگر برکس ممالک سے معاشی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کو برداشت کر رہی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اگر بطور نیٹو اتحادی ترکی برکس کا رکن بنتا ہے تو اس سے امید کی جائے کہ وہ اس بلاک کی جانب سے مغرب مخالف بیانات میں کمی لانے میں کردار ادا کرے گا۔‘’برطانیہ اور امریکہ چاہیں گے کہ ترکی غیر اعلانیہ طریقے سے برکس کو مغرب مخالف تنظیم کا روپ دھارنے سے روکے۔‘
برکس کیا ہے؟
2006 میں برازیل، روس، انڈیا اور چین نے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا مخفف ’برک‘ تھا۔ سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ اس اتحاد میں شامل ہوا، تو یہ نام ’برکس‘ ہو گیا۔اس تنظیم کا مقصد دنیا کے سب سے اہم ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کی سیاسی اور معاشی طاقت کو چیلنج کرنا تھا۔تاہم حالیہ برسوں کے دوران اس اتحاد کو وسعت ملی اور ایران، مصر، ایتھوپیا سمیت متحدہ عرب امارات بھی اس کا حصہ بن گئے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ بھی برکس کا حصہ بننے پر غور کر رہا ہے جبکہ آزربائیجان کی جانب سے شمولیت کے لیے باضابطہ درخواست دی جا چکی ہے۔بلوم برگ نیوز ایجنسی کی جانب سے گزشتہ اتوار کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ترکی نے باضابطہ طور پر چند ماہ قبل برکس کا حصہ بننے کی درخواست دے دی تھی۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے پہلی بار سنہ 2018 میں جنوبی افریقہ میں اجلاس کے دوران برکس میں شمولیت کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
ترکی اور برکس
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesرجب طیب اردوغان دو دہائیوں سے ملک میں برسراقتدار ہیں جو یورپی یونین کی رکنیت کے معاملے پر مایوسی کا شکار ہونے کے بعد یہ کہتے سنائی دیے ہیں کہ انقرہ کو مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق سے بھی تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔چین اور روس کی سربراہی میں علاقائی تعاون تنظیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا تھا کہ ’ہمیں یورپی یونین اور شنگھائی تعاون تنظیم میں سے کسی ایک کو چننے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم دونوں سے تعلقات قائم کر سکتے ہیں اور دیگر تنظیموں سے بھی۔‘سنہ 2022 میں ترکی اور روس کی باہمی تجارت مجموعی طور پر تجارتی حجم کا 11 فیصد رہی جبکہ چین کے ساتھ ترکی کی تجارت سات فیصد سے کچھ زیادہ تھی۔ کریم کا ماننا ہے کہ روس برکس میں شمولیت کے لیے ترکی کی کافی حمایت کرے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ’روس کی پہلی ترجیح یوکرین جنگ کے دوران اپنی معیشت کو سنبھالنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مغرب کی پابندیوں کے بوجھ تلے روسی معیشت تباہ نہ ہو جائے۔‘’اسی لیے ماسکو ترکی سے قربت کا خواہش مند ہے۔ ان کے درمیان توانائی سے لیکر تجارت اور سیاحت تک بہت سے تعلقات ہیں اور ماسکو کے لیے ایک نیٹو رکن ملک سے باہمی تعلقات قائم کرنے کا موقع بھی ہے۔‘امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے یوسف خان کا کہنا ہے کہ ’ترکی کی جانب سے برکس اور ایس سی او میں شمولیت میں بڑھتی دلچسپی کو کسی بہت بڑی تبدیلی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔‘ان کا موقف ہے کہ نیٹو کو ترکی کی شمولیت سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
ترکی کی معیشت
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.