نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان مترجموں کی زندگی خطرے میں
- جیک ہنٹر
- بی بی سی نیوز
امریکی اور برطانوی افواج ستمبر میں افغانستان سے نکلنے کا اعلان کیا ہے
اے جے کئی ماہ تک کابل میں اپنے گھر سے باہر نکلنے سے خوفزدہ تھے۔ ان کو یہ ڈر تھا کہ طالبان انھیں اور ان کی فیملی کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔
اے جے جو عمر کے 30 کے ابتدائی سالوں میں ہے ایسے سینکڑوں افغان مترجموں میں سے ایک ہیں جس نے برطانوی افواج کے ساتھ کام کیا ہوا ہے، جنہیں اس پاداش میں شدت پسند اپنا ہدف بنا سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ خطرہ اس وقت اور بڑھ جائے گا جب غیر ملکی افواج رواں برس افغانستان سے نکل جائیں گی۔
مگر اے جے جو اس خدشے کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ حکام نے برطانیہ کے مترجموں اور ان کے خاندان کے افراد کی مدد کی غرض سے انھیں برطانیہ منتقل کرنے سے متعلق پروگرام میں دی گئی ان کی درخواست کو بھی کئی بار مسترد کیا ہے۔
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنی رہائش پر تمباکو نوشی کی وجہ سے مسترد کیے گئے ہیں۔ ایسے مترجم جنھیں نوکری سے برخاست کیا گیا ہے وہ اس پروگرام کے تحت برطانیہ میں بسنے کے اہل نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اے جے کا کہنا ہے کہ انھیں ان کی ملازمت کے آخری دن تک برطانوی حکام نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ انھیں ان کی ملازمت سے برخاست کیا گیا ہے اور اب اے جے یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ صرف یہ ایک وجہ ہے جو ان پر برطانیہ میں داخل ہونے میں رکاوٹ بن گئی ہے۔
ان کے مطابق اس سے زیادہ سنگین اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ کابل میں ان کی زندگی کو ہی خطرہ ہے۔ ان کے مطابق مجھے پتا ہے کہ میری زندگی حقیقی معنوں میں خطرے میں ہے۔ اب تو میں کوئی ملازمت بھی اختیار نہیں کر سکتا ہوں اور نہ ہی میں عوامی مقامات پر جا سکتا ہوں۔
ایچ آر مینیجمنٹ کے لیے برخاستگی ایک عام سی بات ہے
برطانیہ کی ایچ آر مینیجمنٹ نے 2001 سے 2014 تک 1010 مترجموں کو ضوابط کی خلاف ورزی پر ملازمت سے برخاست کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر تین میں سے ایک مترجم کو برخاست کیا گیا۔ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق ان مترجموں کو برخاستگی کے فیصلے کے خلاف اپیل کا بھی حق نہیں دیا گیا ہے۔
ریٹائرڈ کرنل سمن ڈگنز جو کابل میں برطانیہ کے اتاشی بھی رہ چکے ہیں اب ان مترجموں کے حق کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر برطرفیاں معمولی وجوہات کے بنیاد پر ہوئی ہیں۔
ان کے مطابق کچھ مترجموں کی طرف سے غیر مہذب قسم کی حرکتیں سامنے آئی تھیں جو ان کی برطرفیوں کی وجہ بنی۔ مگر انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مترجموں کی بڑی تعداد ایسی ہے جنھیں بہت ہی معمولی نوعیت کی انتظامی وجوہات پر نکالا گیا ہے۔
اس بات کا بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ برطرفیاں محض ایچ آر مینیجمنٹ کا ڈھونگ تھا۔ اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد دستیاب نہیں ہیں کہ ان ملازمین کو کیوں برطرف کیا گیا۔ اس بارے میں ہم جو کہہ رہے ہیں وہ یہی ہے کہ ان کے مقدمات پر نظرثانی کی گئی تھی۔
وزارت دفاع نے اس بات کی تردید جاری کی ہے کہ یہ برطرفیاں محض انتظامی بنیادوں پر کی گئی ہیں۔
’وہ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں‘
اے جے کا ڈر اس وقت بڑھا جب گذشتہ ہفتے امریکی اور برطانوی افواج کی 11 ستمبر کو افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب طالبان پورے ملک میں مزید طاقتور گروپ بن کر ابھرے ہیں۔
اے جے کو برطانوی حکام نے اس وقت ملازمت دی تھی جب وہ کمسن تھے۔ وہ برطانوی حکام کے لیے دشمن قوتوں کے پیغامات کا ترجمہ کرتے تھے۔ انھوں نے جنوبی افغانستان کے ہلمند صوبے میں بھی اپنے فرائض سر انجام دیے۔ جہاں طالبان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایک برطانوی کمانڈنگ افسر نے اے جے کی سخت محنت اور عزم کے اعتراف میں انھیں بہترین کارکردگی کا سرٹیفکیٹ بھی دیا۔
اے جے کا کہنا ہے کہ جب پہلی بار اس کی رجمنٹ پر طالبان نے حملہ کیا تھا تو وہ اپنا سامان چھوڑ کر جان بچا کر وہاں سے بھاگ گئے تھے، جس میں ان کا شناختی کارڈ بھی وہیں رہ گیا تھا۔ ان کے خیال میں طالبان نے ان کی شناخت کے بارے میں پتا چلا لیا ہے اور اب انھیں یہ بھی پتا ہے کہ وہ برطانوی حکام کے لیے مترجم کا کام کرتے تھے۔
اے جے کا کہنا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانوی حکام کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے انھیں طالبان کی طرف سے تین موت کی دھمکی کے خطوط بھی موصول ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان یہ جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور یہی خوف انھیں نڈھال کر رہا ہے۔
گذشتہ چھ برس میں اے جے نے متعدد بار برطانیہ میں پناہ لینے کے لیے درخواست دی مگر ہر بار ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
انھیں برطانوی حکام کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انھوں نے اے جے کو بتایا کہ وہ برطانیہ میں منتقل ہونے والے پروگرام کے تحت اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ای میل بی بی سی نے بھی دیکھی، جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ انھیں اس وجہ سے ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے ممنوعہ اشیا اٹھا رکھی تھیں اور اپنی رہائش پر تمباکو نوشی بھی کر رہے تھے۔
جب انھوں نے اس مہینے پھر درخواست دی تو ایک بار پھر اسی بنیاد پر ہی ان کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
ایک اور مترجم احمد کی اس ماہ برطانیہ منتقل ہونے سے متعلق مسترد ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں 2013 میں تین بار وقت پر نہ آنے کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ احمد کے مطابق اس کے بعد انھیں طالبان کی طرف سے بھی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ کابل میں ان کے ایک پڑوسی نے انھیں بتایا کہ وہ ایک دن ’کافر‘ کی موت مارا جائے گا۔
احمد کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی داڑھی بڑھا دی اور اپنے تحفظ کے لیے اپنے کپڑے بھی تبدیل کر دیے۔ دیر سے آنے کی قیمت آپ کی زندگی نہیں ہونی چائیے۔
مترجم کے کام کی کوئی قدر نہیں
2013 میں دوبارہ آبادکاری سکیم کا اعلان کرنے کے بعد سے وزارت دفاع نے اہل افراد کی تعداد میں بڑھا دی ہے لیکن اس میں اب بھی کوئی مترجم شامل نہیں ہے یہاں تک کہ ان میں سے کسی کو غیر معمولی حالات کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا ہو۔
وزارت دفاع کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس مترجموں پر بہت بڑا قرض ہے جو افغانستان میں برطانیہ کی افواج کے ساتھ مل کر اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
کسی کی بھی زندگی کو صرف اس وجہ سے خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے کہ انھوں نے امن و استحکام لانے کے لئے برطانیہ کی حکومت کی حمایت کی تھی۔
’ہم واحد قوم ہیں جن کی کابل میں ایک ماہرین کی ٹیم ہے جو ان دعوؤں کی تفتیش کرتی ہے جو مقامی دلیر عملے کو صرف اس وجہ سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ انھوں نے برطانیہ کے ساتھ کام کیا ہوا ہے۔
اب تک 2850 مترجموںن اور دیگر مقامی عملے میں سے 1358 برطانیہ میں منتقل ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
ان میں سے ایک ایدی ادریس ہیں، فرضی نام ہے، جو سابق مترجم ہیں۔ انھوں نے کئی مشنز میں حصہ لیا ہے، جن میں سے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانا بھی شامل ہے۔ ایک بار وہ طالبان کے قیدی بھی بنے۔ انھوں نے طالبان کی قید میں اپنے تجربات پر کتاب بھی لکھی۔
ایدی ادریس کے اٹھارہ دوستوں میں سے جنہوں نے نیٹو افواج کے ساتھ بطور کیا ہے سوالہ اب زندہ نہیں ہیں ۔ ایدی اور ان کا ایک دوست جو برطانیہ منتقل ہو چکا ہے، زندہ بچے ہیں۔
باقی تمام یا تو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے گئے یا انھیں بعد میں طالبان نے ہدف بنایا۔
ادریس کا کہنا ہے کہ وہ ان مترجموں کی سلامتی سے متعلق بھی ڈر رکھتے ہیں، جنھوں نے فوجی کارروائیوں کے دوران کام کیا ہے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں موجود ہیں۔
ان کے مطابق ’جب برطانوی افواج بھی افغانستان چھوڑ کر چلی جائیں گی تو پھر یہ طالبان کے لیے ان متارجم کو باآسانی ہدف بنانے کا موقع مل جائے گا۔
ادریس کے مطابق یہاں تک کہ جو لوگ اس اسکیم کے اہل ہیں ان کو درخواست کے عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو 18 ماہ تک وقت لگ جاتا ہے اور اس قدر تاخیر بھی ان کی زندگی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ان کے مطابق جس دن برطانوی افواج کابل سے نکل جائیں گی تو پھر تشدد میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ اسی طرح ایک بار جب وہ چلے جائیں گے تو وہ علاقے جو محفوظ سمجھے جاتے تھے، وہ صوبے اب زیادہ محفوظ نہیں رہیں گے۔ اور طالبان ان مترجموں کو بھولنے والے نہیں ہیں۔
ابھی بھی انتظار ہے
کرنل ڈگنز نے ان متارجم کو جلد سے جلد کابل سے کہیں دوسرے ملک بھیجنے سے متعلق ایک ایمرجنسی پلان کی ضرورت پر زور دیا ہے.
ان کے مطابق ’جو چیز مجھے واقعی پریشانی میں مبتلا کر رہی ہے وہ بدتر حالات میں اس قدر تاخیر سے لوگوں کو برطانیہ بھیجنے سے متعلق ہے۔ ان کے مطابق کاغذی کارروائیوں میں 12 سے 18 ماہ لگ رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال 84 سابق مترجموں کے معاملات پر غور کر رہی ہے۔
ان میں ایک عامر بھی ہے۔ جو ہلمند میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر دو سال خدمات انجام دیتے رہے، جہاں ان پر طالبان باقاعدگی سے حملے بھی کرتے تھے۔
سنہ 2011 میں مستعفی ہونے کے بعد سے ان کا کہنا ہے کہ انھیں برطانوی فوجیوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے اہل خانہ کو نہیں دیکھ پا رہا ہے جو کابل سے دور صوبہ لوگر میں طالبان کے زیر اثر علاقے میں رہتے ہیں۔
عامر کو بھی دو بار برطانوی حکام نے دو بار صاف انکار کیا ہے۔ اب انھیں یہ امید ہے کہ ان کی تیسری بار درخواست منظور کر لی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اچھی خبر سننے کے لیے بے تاب ہیں۔
مگر جب سے انھوں نے یہ سنا ہے کہ غیر ملکی فوجی یہاں سے چلے جائیں گے تب سے وہ خوف کا شکار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لیے مزید مسائل کو جنم دے گا۔ مجھے ان دنوں بہت سے خطرات نظر آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر آپ نے برطانوی فوج کے ساتھ مترجم کے طور پر کام کیا ہوا ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ وقت گھر پر ہی گزاریں گے۔
برطانیہ ہی واحد ملک نہیں ہے جس نے اپنے سابقہ مترجمین کو باہر لے جانے کی سکیم شروع کی ہے۔
امریکہ کے پاس افغانوں کے لیے خصوصی ویزہ پروگرام ہے جو اپنی فوج کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مہاجرین کی مدد کے منصوبے کے مطابق کم از کم 89،000 افراد کو اس اسکیم کے ذریعے دوبارہ امریکہ میں آباد کیا گیا ہے۔
جرمنی کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ جب جرمن افواج افغانستان سے نکل جائیں تو مقامی عملے کی حفاظت ان کے ملک کی ذمہ داری ہو گی۔
مگر ایسے مترجموں جن کی درخواستیں مسترد ہو گئی ہیں ان کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے۔
چوتھی بار درخواست مسترد ہونے کے بعد اے جے کا کہنا ہے کہ وہ انھیں اپنے اوپر اعتماد کرنے کا یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ یہ بہت خوفناک ہے اور میں ابھی بھی منتظر ہوں۔
ایڈیشنل رپورٹنگ چارلس ہاوی لینڈ
Comments are closed.