نیو یارک کی تاریخی ’ریڈیو گلی‘ جسے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تعمیر کے لیے ختم کر دیا گیا
- مصنف, اینجل برمودِز
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکی شہر نیو یارک میں اس جگہ کو ’سب سے قدیم، سب سے اہم اور خریداروں کے لیے سب سے پُرونق شاپنگ سینٹرز کے طور پر متعارف کرایا جاتا تھا۔ لیکن اس جگہ کی تاریخی حیثیت اور مقام بھی اسے تباہی سے نہیں بچا سکا اور یوں یہاں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور اس کے مشہور ٹوئن ٹاورز تعمیر کر دیے گئے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے باضابطہ افتتاح کو گذشتہ چار اپریل کو 50 سال مکمل ہوئے۔
اس جگہ کو ’ریڈیو گلی‘ کہا جاتا تھا اور اسے نیویارک کا پہلا ’ٹیکنالوجی سے آراستہ علاقہ‘ سمجھا جاتا تھا، جس کی وجہ یہاں ریڈیو، ٹیلی ویژن، گھریلو برقی آلات اور ان کے پرزوں کی فروخت کے لیے بڑی تعداد میں موجود کمپنیاں اور دکانیں تھیں۔
20 اپریل 1962 کو ’دی نیویارک ٹائمز‘ میں صحافی مارٹن آرنلڈ نے لکھا کہ ریڈیو گلی ’زیادہ تر آواز کے معیار اور ریڈیو کے شوقین افراد کے لیے ’ایسٹ کوسٹ‘ مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔‘
اخبار کے مطابق ’اس خطے میں پھولوں اور پودوں کی بہت سی دکانیں، ہارڈویئر کی دکانیں، کتابوں کی دکانیں، ریستوران اور سینکڑوں دیگر کاروبار ہیں۔‘
ریڈیو گلی نے اس وقت لوئر مین ہٹن میں تقریباً 13 بلاکس پر مشتمل تھی۔ اس کی حدود شمال میں بارکلے کی سڑکیں تھیں۔ مشرق میں چرچ، جنوب میں لبرٹی اور مغرب میں دریائے ہڈسن تھا۔ اس کی خاص پہچان کورٹ لینڈ سٹریٹ تھی۔
اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے اس مقام نے بہت کچھ کیا مگر پھر اس کے خاتمے سے یہ سب رونقیں مانند پڑ گئیں۔
ریڈیو گلی کا عروج
ریڈیو گلی نے سنہ 1920 کی دہائی کے اوائل میں ایک نئی جہت میں ڈھلنا شروع ہو کیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ابھی تک ریڈیو نے عالمی مواصلات میں انقلاب برپا نہیں کیا تھا۔ سنہ 1921 میں ہیری شنیک نامی تاجر نے سٹی ریڈیو کھولا، جو کورٹ لینڈ سٹریٹ پر قائم ہونے والا یہ پہلا خاص مقام تھا۔
ہیری شنیک کے بیٹے بل شنیک نے 2014 میں ریڈیو ڈائریز پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ ’تب ریڈیو نیا تھا۔ زیادہ تر لوگوں کو اس سے ڈرایا جاتا تھا۔‘
ان کے مطابق ’یہ خیال کہ معلومات ہوا کے ذریعے اور ’ایتھر‘ کے ذریعے آئے گی، ایسی چیز تھی جو کالے جادو کے قریب تر ہی سمجھتی جاتی تھی۔‘
اس کے بعد سے اسی طرح کی درجنوں دکانوں نے اس علاقے میں اپنے ایسے کاروبار شروع کیے جس سے ریڈیو گلی بدل کر رہ گئی۔
سنہ 1929 میں سٹی ریڈیو سے چند میٹر کے فاصلے پر دوسرے کاروبار پہلے ہی کام کرنا شروع کر چکے تھے، جیسے کہ ویم ریڈیو، ریڈیو فیئر، بلیک ریڈیو، پرائس ریڈیو، ایرو ریڈیو اور ایس این ایس ریڈیو، جیسا کہ فوکس موویز کی ٹوئن ٹاورز پر بنائی جانے والی اس وقت کی ایک فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے۔
شہر کا یہ علاقہ نہ صرف نیویارک کے رہائشیوں کے لیے بلکہ دوسرے مقامات سے آنے والے صارفین اور مداحوں کے لیے بھی ایک حوالہ بن گیا، جو یہ جانتے ہوئے ریڈیو گلی جاتے تھے کہ انھیں وہاں وہ ریڈیو مل سکتا ہے، جس کی وہ تلاش کر رہے تھے یا کوئی اور متعلقہ چیز بھی وہ یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔
دکانوں پر بڑی تعداد میں پڑے ریڈیو سیٹ آویزاں کیے جاتے تھے اور ان کے مالکان لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مختلف قسم کی موسیقی بجا کر گاہکوں کو راغب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
دوسری عالمی جنگ تک یہ سٹورز ہفتے میں چھ دن کام کرتے تھے اور رات نو یا دس بجے بند ہوتے تھے۔ لیکن تنازعات کا آغاز دیگرعوامل کے علاوہ مصنوعات اور ’سپیئر پارٹس‘ کی کمی کی وجہ سے مزید مشکل وقت لے آیا۔
یہ مشکل وقت کچھ دیر کے لیے تھا۔ سنہ 1950 کی دہائی میں ٹیلی ویژن سیٹوں کی بڑھتی ہوئی کامیابی نے ریڈیو گلی کی تجارت کے لیے خوشحالی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا۔
احتجاج اور قبضہ
لیکن خوش قسمتی کا یہ سلسلہ بھی زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکا۔ سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں نیویارک کی پورٹ اتھارٹی نے ریڈیو گلی کی جگہ پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔
اس منصوبے کو کروڑ پتی ڈیوڈ راکفیلر اور ڈاؤن ٹاؤن لوئر مین ہٹن ایسوسی ایشن کی حمایت حاصل تھی جو کہ نیویارک کے اس علاقے میں دلچسپی رکھنے والی اہم کاروباری شخصیات اور کمپنیوں کے ذریعے تشکیل دی گئی ایک تنظیم ہے۔
پورٹ اتھارٹی نے اسے ایک اچھی تجویز سمجھا اور پھر اس پرعمل کرنے کا فیصلہ کر دیا۔
ریڈیو گلی میں چھوٹے تاجروں کی طرف سے اس خبر کو سراہا نہیں گیا۔ خاص طور پر جب انھیں یہ بات پتا چلی کہ نئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کمپلیکس کا مطلب تکنیکی علاقے کا خاتمہ ہو گا۔
اس منصوبے کو روکنے کے لیے ریڈیو گلی کے تاجروں نے قانونی جنگ اور اپنے ہدف کے حصول کے لیے عوامی مہم شروع کر دی۔
یہ بھی پڑھیے
تحریک کے رہنما آسکر ناڈیل نے اپریل 1962 میں نیویارک ٹائمز کو ایک بیان میں کہا کہ ’ہمارا ارادہ لڑنا ہے۔ یہ کوئی غیر ملک نہیں ہے جہاں حکومت آکر صرف ایک آدمی کو کاروبار سے نکال سکتی ہے۔‘
آسکر ناڈیل نے کہا کہ ’یہ گھریلو الیکٹرانکس کا ایک عالمی مرکز ہے جسے وہ اب تباہ کرنے جا رہے ہیں تاکہ رئیل سٹیٹ کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔‘
اس تحریک کے رہنما کے مطابق ’اس وقت ریڈیو گلی میں تقریباً 1,600 دکانیں تھیں اور سالانہ 300 ملین امریکی ڈالر کا کاروبار ہوتا تھا جو موجودہ مالیت کے اعتبار سے تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
ریڈیو گلی کی ان دکانوں پر تقریباً 30,000 افراد کام کرتے تھے۔
چھوٹے تاجروں نے شکایت کی کہ نئی ترقی کے لیے منتخب کردہ علاقہ ایک کامیاب تجارتی علاقہ ہے۔ یقینی طور پر وہاں عمارتیں ناقص حالت میں تھیں، لیکن بہت سی عمارتوں کی تزئین و آرائش خود تاجروں نے کی تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ وہ ایک عوامی ادارے (پورٹ اتھارٹی) کے ایک پروجیکٹ کے ذریعے بے گھر ہوئے تھے، لیکن اس قبضے سے فائدہ اٹھانے والی بڑی نجی کمپنیاں ہوں گی جو مستقبل میں اس علاقے میں کام کرنے آئیں گی۔
آسکر ناڈیل اور چھوٹے تاجر اس معاملے پر عدالت چلے گئے۔ ساتھ ہی انھوں نے ’ڈبلیو ٹی سی‘ منصوبے کے خلاف اور نیویارک کے اس وقت کے گورنر نیلسن راکفیلر کے خلاف سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا۔
جولائی 1962 میں ریڈیو گلی کے تاجروں نے اس مقصد کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ایک علامتی تدفین کا اہتمام کیا۔ انھوں نے شہر بھر میں ایک سیاہ تابوت اٹھا رکھا تھا، جس پر لکھا تھا کہ ’یہ چھوٹا تاجر ہے۔‘
لیکن ان تاجروں کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ نومبر 1963 میں امریکی سپریم کورٹ نے دائرہ اختیار کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے چھوٹے تاجروں کے دائر کردہ مقدمے کو خارج کر دیا۔
عملی طور پر عدالت نے ڈبلیو ٹی سی کی تعمیر میں حائل قانونی رکاوٹوں کو دور کر دیا اور اس کے نتیجے میں نیو یارک کی تاریخی ریڈیو گلی کا خاتمہ ہو گیا۔
واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں القاعدہ دہشت گردوں کے حملوں میں تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور ٹوئن ٹاورز کو تقریباً ایک دہائی بعد باضابطہ طور پر عوام کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
Comments are closed.