نیویارک: نوجوان لڑکی کو قتل کرنے والے شخص کو کوئی افسوس نہیں ہے

کیلِن گیلیس

،تصویر کا ذریعہGOFUNDME

،تصویر کا کیپشن

کیلِن گیلیس اپنی کار میں تین سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی جب انھیں گولی ماری گئی۔

  • مصنف, جارج وائیٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

نیویارک میں 20 برس کی کیلِن گیلیس جب اپنی کار ایک گھر کے ڈرائیو وے میں موڑ رہی تھیں تو اُس گھر کے مالک نے انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اُس شخص کو اِس جرم پر کوئی کوئی ندامت نہیں ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ کیلِن گیلیس اس وقت اپنی کار میں بیٹھی تھی جب وہ اتفاق سے کیوِن موناہن کے گھر کی ڈرائیو وے میں چلی گئیں۔

65 سال کے موناہن نے کار کو اپنے گھر میں دیکھ کر اُس پر گولی چلا دی جن میں سے ایک کیلِن کو لگی۔ واشنگٹن کاؤنٹی کے پولیس سربراہ جیفری مرفی نے سی این این چینل کو بتایا کہ موناہن نے اس واقعہ پر کسی قسم کے افسوس یا ندامت کا اظہار نہیں کیا۔

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کار کو موڑ رہی تھی اور جس گھر کے ڈرائیو وے میں داخل ہو گئی تھی وہ وہاں سے واپس نکل رہی تھی اس لیے مسٹر موناہن کے اپنے گھر کے چھجے پر آ کر کار پر گولی چلانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

مسٹر مرفی نے کہا کہ گولی چلانے والے مشتبہ شخص نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے اپنے وکیل کو بلا لیا تھا۔

ہیبرون کا قصبہ دیہی نوعیت کا ہے اور رات کے وقت ڈرائیو ویز پر روشنی کم ہوتی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنے سے پہلے کیلِن کی کار میں سے کوئی بھی باہر نہیں نکلا تھا اور نہ ہی مسٹر موناہن کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

گولی چلنے کے بعد کیلِن کی دوست کار چھوڑ کر اُس گھر سے بھاگ گئیں اور قریبی قصبے میں مدد کے لیے فون کرنے کی کوشش کی۔ جب پیرامیڈیکس مدد کے لیے پہنچے تو کیلِن ہلاک ہو چکی تھیں۔

مسٹر موناہن کے وکیل کرٹ ماؤزرٹ نے سی این این کو بتایا کہ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ اس نے جو گولیاں چلائی ہیں وہ کسی کو لگیں ہیں اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ پولیس ان کے گھر کیوں آئی ہے۔

انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ گاڑیوں کی آمد نے ’یقینی طور پر ایک بوڑھے شریف آدمی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی جس کی ایک بوڑھی بیوی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا مؤکل ’اس سانحہ پر دلی طور پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔‘

کیوِن موناہن

،تصویر کا ذریعہPOLICE HANDOUT

،تصویر کا کیپشن

کیوِن موناہن نے مبینہ طور پر انتباہ کے بغیر فائرنگ کی۔

ہیبرون ٹاؤن کے میئر برائن کیمبل نے مقامی ریڈیو کو بتایا کہ ’لوگوں کے لیے یہاں دیہاتوں کی اندر کی سڑکوں پر گم ہو جانا ایک معمول ہے۔‘

ٹائمز یونین اخبار کے مطابق، گولی کی قسم، جس نے کیلِن کو ہلاک کیا وہ 12 گیج کی شاٹ گن سے فائر کی گئی تھی جو مخصوص قسم کی تھی۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق، یہ عام طور پر بڑے شکار میں استعمال ہوتی ہے۔

تفتیش کاروں نے یہ نہیں بتایا کہ فائرنگ میں کون سے ہتھیار استعمال کیے گئے۔

مقامی پولیس کے سربراہ شیرف مرفی

،تصویر کا کیپشن

مقامی پولیس کے سربراہ شیرف مرفی نے مہلک شوٹنگ کے واقعات کی تفصیلات بتائیں۔

بی بی سی کے امریکی میڈیا پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بھیجے گئے ایک بیان میں کیلِن گیلیس کے خاندان نے انہیں ’ایک مہربان، خوبصورت روح اور ہر شخص کے لیے روشنی کی کرن قرار دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 20 سالہ کیلِن ایک آرٹسٹ تھیں اور ’ڈزنی کی جنونی‘ تھی، وہ فلوریڈا کے ایک کالج میں سٹوڈنٹ بننے کی منتظر تھی تا کہ وہ ایک میرین بائیولوجسٹ بن سکیں۔

’ہمارا خاندان کبھی پہلے جیسا نہیں رہے گا لیکن ہم کیلِن کی مثبت فکر، پرامیدی اور یادوں کی خوشی سے رہنمائی حاصل کریں گے، اور ہم اس کے بچھڑ جانے کے غم کے سائے میں اپنی زندگی گزاریں گے۔‘

کیلِن گیلیس نے سنہ 2021 میں گریجویشن کیا اور ان کے دو چھوٹے بہن بھائی مقامی سکول میں پڑھتے ہیں۔

ایک مقامی ویب سائٹ، ’گو فنڈ می‘ (GoFundMe) نے کیلِن کے جنازے کے اخراجات کے لیے ایک اکاؤنٹ شروع کیا جس میں منگل کی شام تک ایک لاکھ ڈالر جمع ہو چکے تھے۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ

اس سے چند دن قبل امریکی ریاست میسوری میں ایک گھر پ غلطی سے پہنچ جانے والے 16 برس کے لڑکے پر گولی چلانے کا واقعہ بھی ہو چکا ہے۔ یہ سیاہ فام نوجوان اُس گھر پر اپنے چھوٹے بھائیوں کو لینے آیا تھا اور غلط پتہ ہونے کی وجہ سے کسی اور گھر کی گھنٹی کا بٹن دبا دیا تھا۔

اس معاملے کے برعکس، جہاں متاثرہ لڑکا ایک سیاہ فام ہے اور مبینہ بندوق بردار سفید ہے، کیلِن گیلیس اور موناہن دونوں ہی سفید فام ہیں۔

امریکی ریاست میزُوری میں سیاہ فام نوجوان رالف یارل کو اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ اپنے چھوٹے جڑواں بھائیوں کو واپس لینے گیا تھا۔ اسے دو بار گولی ماری گئی تھی۔ جس گھر سے اس پر شوٹنگ ہوئی وہ وہاں غلط پتے کی وجہ سے اتفاقاً پہنچ گیا تھا۔

رالف یارل

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

رالف یارل جسے میزُوری میں ایک سفید فام نے گولی مار کر زخمی کردیا۔

16 سالہ رالف کو فوری ہسپتال پہنچایا گیا۔ اب وہ گھر پر صحت یاب ہو رہا ہے۔

شوٹنگ کے اِس واقعہ نے غم و غصے کو جنم دیا، مظاہرے ہوئے اور کچھ دن بعد ایک سفید فام اور گھر کے مالک 84 سالہ اینڈریو لیسٹرکی گرفتاری ہوئی۔ اینڈریو لیسٹر جنہوں نے منگل کو خود کو پولیس کے حوالے کیا تھا، اب انہیں اقدامِ قتل اور مسلح مجرمانہ کارروائی کے الزامات کا سامنا ہے۔

اپنے دفاع میں شوٹنگ

بندوقوں کی فائرنگ کے واقعات کے اعداد و شمار جمع کرنے والی ایک ویب سائیٹ ’گن وائیلنس آرکائیو (www.gunviolencearchive.org) کے مطابق امریکہ میں صرف اسی سال اب تک اپنے دفاع میں گولیاں چلانے کے 318 پرتشدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ جن میں اب تک 155 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور درجنوں زخمی ہوئے۔

اسی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 2022 میں صرف اپنے دفاع میں شوٹنگ کے 1178 واقعات ہوئے، جو کہ سنہ 2021 کے واقعات کی تعداد سے 116 کم تھے۔ سنہ 2017 میں اپنے دفاع میں کی گئی شوٹنگ کے واقعات کی تعداد 2118 تھی جو کہ اس صدی کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔

امریکہ میں اپنے دفاع میں شوٹنگ کے حق میں کئی ریاستوں میں قانون سازی ہو چکی ہے جو ایسی شوٹنگ یا فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو قانونی جواز مہیا کرتی ہیں۔ ایسی قانون سازی کو ’اپنے قلعے کی حفاظت کا نظریہ‘ یا ’کاسل ڈاکٹرائن‘ کہا جاتا ہے۔ اسے اپنی زمین پر کھڑے رہنے کا حق بھی کہا جاتا ہے۔

رالف کے والدین

،تصویر کا کیپشن

رالف کے والدین

فائرنگ کے ان بڑھتے ہوئے واقعات نے امریکہ میں ایک شخص کے اپنے اور اپنی املاک کی حفاظت کے حقوق کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے اور یہ کہ کب کوئی شخص اپنے دفاع میں مہلک ہتھیار یا طاقت استعمال کر سکتا ہے۔

اس کے بارے میں اٹھنے والے سوال کے جواب کا اس بات پر انحصار ہے کہ آپ کس ریاست میں رہتے ہیں۔ آپ کا مقامی اور بنیادی قانون کیا ہے؟

ایسے قوانین کا ایک موقف آپ کا اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کا قانون ریاستی سطح پر نافذ کیا جاتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر قوانین ایک افراد کو اپنی جان کی حفاظت یا بڑے جسمانی نقصان کو روکنے کے لیے مبینہ حملہ آور کو ہلاک کرنے کی طاقت کے استعمال سمیت معقول طاقت کے استعمال سے اپنی حفاظت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

’کاسل ڈاکٹرائن‘

اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قوانین کو ’کاسل ڈاکٹرائن‘ کے اصول کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں، جس کے مطابق جب کوئی شخص محسوس کرتا ہے کہ اسے اپنے گھر کا دفاع کرنا چاہیے تو اُس پر ’پیچھے ہٹنے کا فرض‘ کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔

پیچھے ہٹنے کا فرض کے تصور یا اصول سے اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قوانین غیر موثر ہوجاتے ہیں، جسے ناقدین ’پہلے گولی مارنے‘ کا حق دینے کا قانون کہتے ہیں۔

2005 میں فلوریڈا میں متعارف کرائے جانے والے قانون سازی کے ایک بل کے بعد دیگر ریاستوں میں اس طرح کی قانون سازی شروع ہو گئی تھی جس میں ’اپنی زمین پر کھڑے رہنے کا حق‘ جواز کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

جب لوگ کسی اجنبی کے اپنے گھر میں گھس آنے کے وقت شوٹنگ کرتے ہیں تو وہ اپنے ایکشن کا دفاع کرنے کے لیے اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قانون کا استعمال کرتے ہیں، تو اکثر کیس اس بات پر مرکوز ہوتا ہے کہ آیا ان کا طاقت کا استعمال ’معقول‘ کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔

کتنی ریاستیں اپنی زمین پر کھڑے رہنے کا حق کے قوانین پر قائم ہیں؟

اس وقت اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قوانین کم از کم 28 ریاستوں میں نافذ ہیں ان میں میزُوری بھی شامل ہے جہاں رالف یارل کو گولی ماری گئی تھی۔

ان میں یہ ریاستیں شامل ہیں: الاباما، الاسکا، ایریزونا، آرکنساس، فلوریڈا، جارجیا، ایڈاہو، انڈیانا، آئیووا، کنساس، کینٹکی، لوئزیانا، مشی گن، مسیسیپی، میزوری، مونٹانا، نیواڈا، نیو ہیمپشائر، نارتھ کیرولائنا، نارتھ ڈکوٹا، اوہائیو، اوکلاہوما ، پنسلوانیا، جنوبی کیرولائنا، جنوبی ڈکوٹا، ٹینیسی، ٹیکساس، یوٹاہ اور ویسٹ ورجینیا اور وومنگ۔

ان ریاستوں میں حملہ آور کے سامنے پیچھے ہٹنا ایک فرض نہیں ہے۔

میزُوری میں ایک شخص کے لیے اپنی نجی جائیداد سے پیچھے ہٹنا اس کا فرض نہیں قرار دیا جاتا ہے۔ رالف یارل کی شوٹنگ پر ایک 84 سالہ شخص پر اقدام قتل اور مسلح مجرمانہ کارروائی کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

آٹھ دیگر ریاستیں – کیلیفورنیا، کولوراڈو، ایلینوئے، نیو میکسیکو، اوریگون، ورجینیا، ورمونٹ اور واشنگٹن بھی اپنے دفاع میں مہلک طاقت کے استعمال کی اجازت دیتی ہیں۔

نیو یارک ریاست، جہاں کیلِن گیلیس کی کار پر اس وقت شوٹنگ کی گئی تھی جب وہ ایک گھر کے ڈرائیو وے میں غلطی سے چلی گئی تھیں، وہاں کا مقامی قانون مہلک ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور پیچھے ہٹنے کا ایک وسیع فرض عائد کرتا ہے۔

رالف پر شوٹنگ

،تصویر کا ذریعہCLAY COUNTY SHERIFF’S OFFICE

،تصویر کا کیپشن

رالف پر شوٹنگ کرنے والے سفید فام کو اگر سزا دی گئی تو انھیں عمر قید ہو سکتی ہے۔

لیکن اس کا ریاستی قانون بعض حالات میں ’کاسل ڈاکٹرائن‘ بھی متعارف کراتا ہے۔ کیلِن کی موت پر ایک شخص پر مجرمانہ غفلت سے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

مہلک قوت کیا ہے؟

کارنیل یونیورسٹی کے مطابق، مہلک قوت کو طاقت کی اُس مقدار کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جسے ایک معقول شخص سمجھے کہ اس کے استعمال سے کسی دوسرے شخص کو ہلاک کیا جا سکتا ہے یا اسے سنگین جسمانی نقصان پہنچانے کا امکان سمجھے۔

اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قوانین کے اثرات

اس کے بارے میں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آپ کے مقامی قوانین کے ساتھ ریاستوں میں قتل کی وارداتوں میں 10 فیصد یا اس سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

جان رومن، جنہوں نے 53,019 مقدمات کی تحقیق کی ہے جن میں اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قوانین یعنی ’اسٹینڈ یور گراؤنڈ لاز‘ بھی شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار کو امریکی محکمہ انصاف نے شائع کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق، یہ قوانین ’تشدد کو فروغ دیتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس ایک اضافی تحفظ ہے جس کی وجہ سے ان کے گولی مارنے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ’افسوسناک طور پر‘ امریکی فوجداری نظام انصاف میں نسلی فرق کو بڑھاتا ہے۔ رپورٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ، جب شوٹر سفید فام ہوتا ہے اور اس کا نشانہ سیاہ فام ہو تو سفید شوٹر کے اپنے ایکشن کو جائز سمجھا جانے کا امکان اس وقت کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوتا ہے جب شوٹر سیاہ فام ہو اور اس کا ہدف سفید فام ہو۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ، ایسے معاملات میں جہاں آپ کے مقامی قوانین کو نمایاں کیا گیا تھا، وہاں 11.4 فیصد سفید فام پر سیاہ فام کے قتل کو جائز قرار دیا گیا تھا، اس کے مقابلے میں صرف 1.2 فیصد سیاہ فام پر سفید فام کے قتل کے واقعات رہورٹ ہوئے تھے۔

اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے معروف مقدمات

2012 میں فلوریڈا کے ایک محلے کے چوکیدار جارج زیمرمین نے 17 سالہ ٹریون مارٹن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جو غیر مسلح تھا۔

29 سالہ مسٹر زیمرمین کے وکلا نے اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قوانین کی بنیاد پر موقف اختیار کیا کہ مسٹر زیمرمین نے جان لیوا طاقت کے جائز استعمال کے ساتھ اپنے دفاع میں شوٹنگ کی تھی۔ اُسے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔

اس کیس نے امریکہ میں نسلی پروفائلنگ کے بارے میں ایک شدید بحث کو جنم دیا اور سان فرانسسکو، فلاڈیلفیا، شکاگو، واشنگٹن ڈی سی اور اٹلانٹا جیسے شہروں میں راتوں رات اچانک احتجاجی مارچ شروع ہو گئے تھے۔

مدعا علیہان کی طرف سے اس قانون کے ذریعے اپنا دفاع کرنا ضروری نہیں کہ ہر حال میں کامیاب بھی ہو۔

احمد آربیری، ایک 25 سالہ سیاہ فام مرد، کو تین مسلح سفید فام مردوں نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب وہ جارجیا کے ایک محلے میں جاگنگ کر رہے تھے۔ ان سفید فام مردوں نے اپنی زمین پر کھڑے رہنے کے حق کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ایکشن کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔

تاہم وہ ناکام رہے اور انہیں دیگر الزامات کے ساتھ سنگین قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ