- مصنف, مرلن تھامس اور لارا الجبالی
- عہدہ, بی بی سی ویریفائی اور بی بی سی آئی انوسٹیگیشنز
- 2 گھنٹے قبل
سعودی عرب کے ایک سابق انٹیلیجنس افسر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سعودی حکام نے صحرائے عرب میں ’نیوم‘ نامی سرسبز اور مستقبل کے انتہائی جدید شہر کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے زمین خالی کروانے کے لیے ’جان لیوا اور مہلک طاقت‘ کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے تاکہ مغربی کمپنیاں اس منصوبے پر کام مکمل کر سکیں۔کرنل ربیح الینیزی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اُن کو نیوم شہر کے ایک پراجیکٹ ’دی لائن‘ کی تعمیر کے لیے ایک مقامی قبیلے سے جگہ خالی کروانے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم قبیلے کا ایک فرد، جو اپنی آبائی زمین سے بیدخلی کے خلاف احتجاج کر رہا تھا، کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔سعودی عرب کی حکومت اور نیوم منصوبے کی انتظامیہ نے ان الزامات پر جواب دینے سے انکار کیا ہے۔واضح رہے کہ ’نیوم‘ نامی شہر بسانے کا منصوبہ محمد بن سلمان کے سعودی وژن 2030 کا حصہ ہے، جس کے تحت 500 ارب ڈالر کی لاگت سے سعودی عرب تیل کی دولت پر اپنا انحصار کم کر کے اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
نیوم کا سب سے اہم حصہ ’دی لائن‘ نامی منصوبہ ہے جو ایک لکیر کی شکل میں بسایا جائے گا۔ یہ 200 میٹر چوڑا لیکن 170 کلومیٹر طویل شہر ہو گا جہاں گاڑیاں نہیں چلیں گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ 2030 تک اس مجوزہ شہر کا صرف 2.4 کلومیٹر حصہ ہی مکمل ہو پائے گا۔ نیوم کی تعمیر کے منصوبے میں متعدد عالمی کمپنیاں شامل ہیں جن میں سے کئی برطانیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے نیوم منصوبے کے لیے مختص علاقے کو کسی ’خالی کینوس‘ سے تشبیہ دی تھی۔ تاہم سعودی حکومت کے مطابق اب تک چھ ہزار افراد کو اس منصوبے کی وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ برطانیہ میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’القسط‘ کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔بی بی سی نے الخریبہ، شرما اور گیال نامی تین گاؤں، جنھیں اس شہر کو آباد کرنے کے لیے اپنی جگہوں سے ہٹایا گیا ہے، کا سیٹلائیٹ تصاویر کے ذریعے جائزہ لیا تو علم ہوا کہ ان دیہات میں موجود مکانات، سکولوں اور ہسپتالوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہPLANET LABS BBC
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.