نیوزی لینڈ کی ایک 33 سالہ خاتون اسٹیفنی ایسٹن جن پر بیماری کا ڈرامہ کرنے کا الزام تھا وہ ایہلرز-ڈینلوس سنڈروم (EDS) کی وجہ سے چل بسیں۔
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، 33 سالہ اسٹیفنی ایسٹن کا انتقال یکم ستمبر کو نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں اپنے گھر میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیفنی ایسٹن کے بارے میں ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ وہ ایہلرز-ڈینلوس سنڈروم (EDS) کا شکار ہونے کا جھوٹا ناٹک کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2015ء میں جب یہ خاتون صرف 25 سال کی تھیں تو اُنہیں ایہلرز-ڈینلوس سنڈروم (EDS) کی علامات خود میں محسوس ہونا شروع ہوئیں لیکن اس وقت اُنہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ موروثی بیماری ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اسٹیفنی ایسٹن نے جب اپنے اندر اس بیماری کی علامات محسوس کیں تو ڈاکٹرز سے رجوع کیا-
خاتون نے ڈاکٹرز کو جو علامات بتائیں ان میں شدید درد شقیقہ، پیٹ میں درد، جوڑوں کی ٹوٹ پھوٹ، جلد میں آسانی سے خراشیں آجانا، آئرن کی کمی، بے ہوشی، ٹیکی کارڈیا، اور متعدد زخم شامل تھے۔
جس کے بعد ایک ڈاکٹر نے اسٹیفنی ایسٹن پر بیماری کی جعلی علامات ظاہر کرنے کا الزام لگایا۔
ڈاکٹر کی جانب سے اس الزام لگنے کے بعد خاتون نفسیاتی اسپتال میں زیرِ نگرانی بھی رہیں جہاں ان پر خود کو نقصان پہنچانے، بیہوشی اور بخار میں مبتلا ہونے کا ڈرامہ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔
واضح رہے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کے مطابق، ایہلرز-ڈینلوس سنڈروم (EDS) موروثی عوارض کا ایک گروپ ہے جو انسانی جسم میں کنیکٹیو ٹشوز کو کمزور کرتا ہے۔
کنیکٹیو ٹشوز وہ پروٹین ہیں جو جلد، ہڈیوں، خون کی نالیوں اور دیگر اعضاء کو سہارا دیتے ہیں۔
ایہلرز-ڈینلوس سنڈروم (EDS) عام طور پر انسان کی جلد، جوڑوں اور خون کی نالیوں کی دیواروں کو متاثر کرتا ہے۔
اس بیماری کی علامات میں ڈھیلے جوڑ، خون کی نالیاں سُکڑنا اور نرم، مخملی، کھینچی ہوئی جلد شامل ہے۔
Comments are closed.