نینسی پلوسی اور فلسطین کا پرچم تھامے نوجوان: وہ لمحہ جب سابق امریکی سپیکر کا سامنا اسرائیل مخالف مظاہرین سے ہوا
- مصنف, حسین عسکری
- عہدہ, بی بی سی اردو، لندن
- ایک گھنٹہ قبل
نینسی پلوسی جب ہال میں داخل ہوئیں تو طلبہ کی تالیوں کی گونج کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کے باہر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرین کے نعرے بھی صاف سنائی دے رہے تھے۔اپنے پُرزور استقبال کے بعد نینسی پلوسی جیسے ہی خطاب کے لیے ڈائس پر پہنچیں تو ایک نوجوان فلسطین کا پرچم لے کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس کی ساتھی لڑکی ویڈیو بناتی رہی۔ سکیورٹی اہلکار فوراً وہاں پہنچ گئے اور اُس نوجوان کو سمجھا کر وہاں سے لے جانے کی کوشش کی لیکن اُس نے انکار کر دیا۔اُن کے تقریباً چالیس منٹ کے خطاب کے دوران وہ نوجوان فلسطین کا پرچم تھامے وہیں کھڑا رہا۔ امریکی کانگریس کی سابق سپیکر نے اپنے خطاب کے آغاز میں اس نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ ’جو کہنا چاہتی ہیں، وہ کہیں گی اور یہ سب انھیں روک نہیں سکتا۔‘اُن کے خطاب کے بعد سوال جواب کا سیشن شروع ہونے سے پہلے پولیس ہال میں داخل ہو گئی اور نوجوان سے بار بار درخواست کی گئی کہ وہ وہاں سے چلا جائے تاکہ اجلاس کو جاری رکھا جا سکے۔
بالآخر کچھ دیر بعد وہ نوجوان اور اس کی ساتھی فلسطین کا پرچم اٹھائے مارچ کرنے والے انداز میں ہال سے چلے گئے۔امریکی ایوانِ نمائندگان کی سابق سپیکر اور امریکہ کے انتہائی اہم سیاستدانوں میں سے ایک نینسی پلوسی آکسفورڈ یونیورسٹی یونین میں بے نظیر بھٹو کی یاد میں ہونے والے ایک اجلاس اور انتہائی دائیں بازو، (فار رائٹ) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثر و رسوخ سے متعلق بحث میں شرکت کے لیے برطانیہ کے شہر آکسفرڈ پہنچی تھیں۔اِن دونوں اجلاسوں کا اہتمام آکسفورڈ یونیورسٹی یونین نے کیا تھا۔ نینسی پلوسی کی تقریر اور اس کے بعد سوال جواب والے پورے سیشن کے دوران عمارت کے باہر فلسطین کے حق میں مظاہرہ جاری رہا اور پُرزور نعروں کی آواز اندر تک آتی رہی۔آکسفورڈ یونین کے صدر دروازے کے باہر ڈھائی سو سے زیادہ نوجوان مظاہرین نے زبردست نعرے لگائے۔ یوتھ ڈیمانڈ نامی تنظیم نے اس احتجاج کا اہتمام کیا تھا جو نوجوانوں کی ایک نئی مزاحمتی تحریک ہے اور جس کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں نسل کشی بند کی جائے۔ جن دو نوجوانوں نے ہال کے اندر احتجاج کیا تھا، ان کا تعلق بھی اسی تنظیم سے تھا۔آکسفورڈ یونین کے ہال کے اندر بھی یہ نعرے سنائی دے رہے تھے کہ ’فرام دا ریور ٹو دا سی، پیلسٹائن وِل بھی فری‘ (دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہو گا)۔اِس کے علاوہ ’اوکیوپیشن نو مور‘ یعنی قبضہ مزید نہیں اور ’لنڈن ٹو غازا، لونگ لیو انتفادہ‘ یعنی لندن سے غزہ تک انتفادہ زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔یہ کوئی بے ترتیب اور بے ہنگم نعرے نہیں تھے بلکہ موسیقیت، ردھم، احتجاج اور غم و غصے کا بھرپور اظہار تھے۔ایک تو نینسی پلوسی کا مائیک کام نہیں کر رہا تھا اور اس کے ساتھ باہر سے نعروں کے شور کی وجہ سے خطاب کے دوران کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔تھوڑی دیر بعد انھیں دوسرا کالر مائیک لگایا گیا تو اُن کی آواز ہال میں موجود شرکا تک پہنچنا شروع ہوئی اور لوگوں نے تالیاں بجا کر خیر مقدم کیا۔اپنے خطاب میں نینسی پلوسی نے کہا کہ ’غزہ پر آئی مصیبت کو ہر حال میں رُکنا چاہیے۔ ہم دونوں جانب امن چاہتے ہیں۔ دونوں کو اس پر اتفاق کرنا ہو گا۔‘ایک سوال کے جواب میں نینسی پلوسی نے کہا کہ انھوں نے کالج کیمپسز میں طالب علموں کے احتجاج پر کبھی اعتراض نہیں کیا، چاہے وہ کولمبیا یونیورسٹی ہو یا کوئی دوسرا کیمپس۔ ’میں نے اینٹی سیمیٹزم (یہودی مخالف سوچ) پر اعتراض کیا تھا۔‘پہلے اجلاس کے بعد جب میں یونین کی عمارت سے باہر نکلا تو احتجاجی مظاہرہ تو ختم ہو چکا تھا لیکن چند نوجوان وہاں موجود تھے جن میں سے ایک نے کہا کہ نینسی پلوسی اور جس حکومت کی وہ نمائندگی کرتی ہیں اور ان کے اتحادی غزہ میں ہونے والے قتلِ عام کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔اس پُرجوش نوجوان نے کہا کہ نینسی پلوسی کی حکومت کے براہ راست اقدامات اور فیصلوں کے نتیجے میں 12 ہزار بچوں سمیت 34 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔نینسی پلوسی اُن دو درجن سے زیادہ امریکی سیاستدانوں میں شامل ہیں جو غزہ کی صورتحال کی وجہ سے اسرائیل کو امریکی اسلحہ فراہم کرنے پر پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
نینسی پلوسی امریکہ کے ایوانِ نماہندگان کی 52ویں سپیکر رہ چکی ہی۔ وہ پہلے 2007 سے 2011 تک اور پھر 2019 سے 2023 تک سپیکر رہیں۔آکسفورڈ یونین میں پہلے اجلاس میں ان کا خطاب شام پانچ بجے شروع ہونا تھا لیکن ساڑھے تین بجے ہی سے ہال کے باہر طویل قطار لگ ہوئی تھی۔یونیوسٹیوں، کالجوں، لائبریریوں، طالبِ علموں، اساتذہ اور محققین کے اِس عموماً سنجیدہ اور خاموش سے شہر میں اُس وقت احتجاج اور سیاسی و سماجی بحث کی گونج سنائی دیتی ہے جب کوئی اہم شخصیت یونین میں خطاب کے لیے آتی ہے۔آکسفورڈ یونین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کا بنیادی اصول ’اظہارِ رائے کی آزادی اور خیالات کا کھلا تبادلہ ہے۔ اسی لیے ہم پرامن احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ چیمبر کے اندر ایک واقعہ ہوا جسے سکیورٹی نے نمٹا دیا۔‘یوتھ ڈیمانڈ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ نینسی پلوسی جیسے ’وار مونگرز‘ کی کیمپسز میں کوئی جگہ نہیں ہے۔انتہائی دائیں بازو یا فار رائٹ کے بڑھتے ہوئے اثر سے متعلق بات کرتے ہوئے نینسی پلوسی نے کہا کہ اگر امریکی یونین کو بچانا ہے تو امریکہ میں آنے والے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت انتہائی ضروری ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت امریکہ کے لیے تباہ کن ہو گی۔آکسفورڈ یونین دنیا کی قدیم ترین سٹوڈنٹ یونین ہے جو 201 سال قبل قائم کی گئی تھی۔ دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کو مختلف موضوعات پر خطاب کرنے کے لیے یہاں بلایا جاتا ہے۔یہاں ہونے والے بحث و مباحثے اپنے معیار اور آزادانہ اظہارِ خیال اور تنوع کی وجہ سے مشہور ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.