بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

نیرو مودی: انڈیا کو مطلوب ہیروں کے ارب پتی تاجر جنھیں ایک صحافی نے ڈھونڈ نکالا

نیرو مودی: انڈیا کو مطلوب ترین ہیروں کے ارب پتی مفرور تاجر جنھیں ایک صحافی نے ڈھونڈ نکالا

نیرو مودی

مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں بی بی سی کے دفتر میں اپنے کام کی میز پر بیٹھی تھی کہ مجھے ایک ٹوئٹر نوٹیفیکیشن موصول ہوا جو معروف برطانوی اخبار ’ٹیلیگراف‘ کی جانب سے پوسٹ کیا گیا تھا۔

اس نوٹیفیکیشن کی شہ سرخی میرے آنکھوں کے سامنے چمک رہی تھی جس میں لکھا تھا: ’ایکسکلوسیو: انڈیا کو انتہائی مطلوب (موسٹ وانٹڈ) شخص نیرو مودی، جن پر ڈیڑھ ارب پاؤنڈ کے فراڈ کا الزام ہے، لندن میں کُھلے عام زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘

یہ ہیڈ لائن پڑھ کر میرا پہلا ردِ عمل تھا: کیا! کیا یہ سچ ہے؟ میرا مطلب ہے کہ کیا انڈیا کو انتہائی مطلوب ملزم واقعتاً میرے شہر (لندن) میں رہتا ہے؟

میں نے فوری طور پر اس ٹویٹ پر کلک کیا، جس کے ساتھ ایک ویڈیو منسلک تھی۔

اس وائرل ویڈیو میں آپ نیرو مودی کا سامنا ایک بادامی رنگ کی جیکٹ پہنے صحافی کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ یہ انٹرویو ماورائے حقیقت اور مزاحیہ بھی تھا کیونکہ جب بھی ویڈیو میں نظر آنے والا صحافی نیرو سے کوئی سوال پوچھتا تو مودی اس کا ایک ہی جواب دیتے: ’نو کمنٹس۔‘

اس ویڈیو کا اختتام کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ صحافی سوال پر سوال پوچھتا رہتا ہے اور نیرو مودی بے صبری سے لندن کی مصروف ترین سڑکوں میں سے ایک آکسفورڈ سٹریٹ پر ایک ٹیکسی روک کر اس میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ منظر انتہائی مضحکہ خیز تھا۔

ٹیلیگراف کے صحافی مِک براؤن اور نیرو مودی کا یہ مختصر ’ٹاکرا‘ مارچ 2019 کے اوائل میں ہوا تھا اور یہ ایک ایسی کہانی تھی جس نے آج تک مجھے حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ مک براؤن اور ان کی ٹیم نے انڈیا کے سب سے مطلوب شخص نیرو مودی کا کس طرح پتا لگایا؟

مک براؤن نے ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیا تھا جس میں انڈین حکومت اور انڈیا کے ادارے ناکام رہے تھے، یعنی نیرو مودی کا کھوج لگانا۔

میں نے صحافی مِک براؤن سے یہ جاننے کے لیے ملاقات کی کہ آخر انھوں نے دنیا کے مطلوب ترین ارب پتی اشتہاری کا کھوج کیسے لگایا؟ اس کی تفصیلات آگے چل کر مگر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہیروں کے یہ ارب پتی تاجر آخر ہیں کون؟

نیرو مودی: ہالی وڈ، بالی وڈ سٹارز کے پسندیدہ ارب پتی ہیرے کے سوداگر

نیرو مودی

انچاس سالہ نیرو دیپک مودی انڈیا کی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے اور بیلجیئم کے علاقے اینٹورپ میں پلے بڑھے۔ نیرو ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو گذشتہ کئی نسلوں سے ہیروں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔

جب وہ 19 سال کے تھے تو اپنے والد دیپک مودی کے ساتھ ممبئی میں اپنے چچا کے کاروبار میں کام کرنے کے لیے انڈیا پہنچ گئے۔ ان کے چچا میہل چوکسی انڈیا میں جواہرات کی ریٹیل کمپنی ’گیتانجلی گروپ‘ کے سربراہ تھے۔ نیرو مودی نے اپنے چچا کے ساتھ تقریباً دس سال تک کام کیا اور اس دوران چچا نے ہیرے کے کاروبار کے تمام پہلوؤں میں نیرو کی تربیت کی۔

یہ بھی پڑھیے

اس کے بعد نیرو نے انڈیا میں اپنے ہیرے تیار کرنے کا کاروبار شروع کیا جسے انھوں نے ’فائر سٹار ڈائمنڈ‘ کا نام دیا۔ سنہ 2010 میں نیرو نے ہیروں کے اپنے نامی برانڈ کے تحت تجارت شروع کی اور آہستہ آہستہ نیرو مودی کے برانڈ کو مقبولیت ملنا شروع ہو گئی اور وہ جلد ہی ہیرے اور لگژری جیولری برانڈ کے ایسے تاجر بن گئے۔

یہاں تک کہ انھوں نے نیو یارک، لندن اور ہانگ کانگ جیسی جگہوں پر عالمی سطح کے اپنے ہیروں کے سٹورز کھولے۔ سنہ 2017 میں فوربز نے انھیں انڈیا کا 84 واں امیرترین شخص قرار دیا، اس وقت ان کی ذاتی دولت کی مالیت دو ارب امریکی ڈالر تھی۔

لیکن پھر اچانک سب بدل گیا اور قسمت نے ایسا پلٹا کھایا کہ ہالی وڈ اور بالی وڈ سٹارز کے پسندیدہ ارب پتی ہیرے کے سوداگر اور جوہری انڈیا کے انتہائی مطلوب شخص بن گئے۔

عروج کا زوال کیسے شروع ہوا؟

نیرو مودی

جنوری 2018 کے آغاز میں نیرو مودی پنجاب نیشنل بینک (پی این بی) کی جانب سے فراڈ کا مقدمہ درج کیے جانے سے چند دن قبل انڈیا سے فرار ہو گئے تھے۔ پنجاب نیشنل بینک انڈیا کا دوسرا بڑا سرکاری بینک ہے۔

بینک نے نیرو مودی اور ان کے چچا میہل چوکسی کے خلاف تقریباً دو ارب 20 کروڑ ڈالر کی دھوکہ دہی کا الزام عائد کرتے ہوئے پولیس میں مقدمہ درج کروایا۔ بینک نے بتایا کہ ان دونوں افراد نے دوسرے قرض دہندگان سے قرض لینے کے لیے غیر مصدقہ ضمانتیں استعمال کیں۔ لیکن نیرو مودی اور میہل چوکسی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

نیرو مودی پر پنجاب نیشنل بینک کے علاوہ یونین بینک کی جانب سے بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے اور یہ ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ میں داخل کیا گیا ہے۔ یونین بینک نے نیرو مودی پر سنہ 2011 میں لیے گئے دو قرضوں کی عدم ادائیگی کا مقدمہ درج کیا ہے جو کہ تقریباً 55 لاکھ امریکی ڈالرز ہے اور اس کے علاوہ سود کا بھی مطالبہ رکھا ہے۔

جنوری سنہ 2018 میں انڈیا سے فرار ہونے کے بعد سے نیرو وسطی لندن کے سینٹر پوائنٹ میں اپنے 80 لاکھ پاؤنڈ کے اپارٹمنٹ میں پرسکون زندگی گزار رہے تھا جب کہ انڈین حکام انھیں تلاش کرنے کی جدوجہد میں لگے تھے۔ تقریباً 14 مہینے تک نیرو مودی اپنے سینٹر پوائنٹ والے فلیٹ میں برطانیہ میں مقیم رہے۔ یہاں تک کہ لندن کے سوہو سکوائر میں وہ ہیرے کا نیا کاروبار بھی شروع کرنے میں کامیاب رہے۔

لیکن ٹیلیگراف کے مک براؤن کے انٹرویو کی بدولت نیرو مودی کو مک اور نیرو کی ویڈیو کے وائرل ہونے کے کچھ دن بعد بالآخر انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ نیرو کو 19 مارچ 2019 کو لندن کے ہولورن میں میٹرو بینک کی برانچ سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ اپنا بینک اکاؤنٹ کھولنے گئے تھے۔ اور تب سے نیرو مودی قید میں ہیں۔

صحافی مِک براؤن نیرو مودی تک کیسے پہنچے؟

مک براؤن

دی ٹیلیگراف کے صحافی مک براؤن

ٹوئٹر پر نوٹیفیکیشن دیکھنے کے بعد میں نے صحافی مِک براؤن سے یہ جاننے کے لیے ملاقات کی کہ آخر انھوں نے دنیا کے مطلوب ترین ارب پتی اشتہاری کا کھوج کیسے لگایا؟

میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو نیرو مودی اور ان کی کہانی میں کب اور کیسے دلچسپی پیدا ہوئی تو مِک براؤن کا جواب تھا کہ ’یہ دسمبر 2018 کی بات ہو گی جب مجھ سے نیرو مودی کے بارے میں ایک سٹوری کرنے کو کہا گیا۔ اس وقت تک انھیں انڈیا سے مفرور ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو چکا تھا، ہم سب اسے ایک دلچسپ کہانی سمجھ کر یہ جاننے کے خواہشمند تھے کہ اس شخص کے ساتھ اس عرصے کے دوران کیا کچھ ہوا ہو گا اور اب وہ کہاں ہو گا۔‘

’انھی سوالات کی بنیاد پر ہم نے ایک ابتدائی سٹوری ترتیب دی جس میں نیرو مودی کے کریئر کا احاطہ کیا کہ کس طرح وہ پُرتعیش ہیرے کے کاروبار کی دنیا میں بامِ عروج پر پہنچے۔ اور یہ کہانی لکھنے کے دوران مجھے یہ سراغ ملا کہ نیرو مودی واقعی لندن میں رہائش پزیر ہیں، اور یہاں انھوں نے ہیرے کا نیا کاروبار بھی شروع کیا ہے یعنی وہ پھر سے ہیرے کے کاروبار کی دنیا میں واپس لوٹ چکے تھے۔‘

’لہذا ہم نے اس سراغ کی بنیاد پر تحقیقات شروع کر دیں اور ہم یہ جاننے میں کامیاب ہو گئے کہ نیرو مودی واقعی لندن میں رہ رہے ہیں اور وہ واقعی لندن میں ہیروں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ کچھ دنوں تک ان پر نظر رکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا روزانہ کا ایک لگا بندھا سا معمول ہے یعنی وہ ایک معین وقت پر لندن کے وسط میں موجود فلیٹوں میں اپنے فلیٹ سے نکلتے ہیں اور پھر وہ وہاں سے سوہو سکوائر تک چند سو گز پیدل کا سفر کرتے ہیں۔ سوہو سکوائر ہی میں ان کا دفتر تھا۔ اور ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ اسی معمول پر عمل پیرا رہتے ہیں اور ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ وہ وقت کے پابند انسان ہیں۔‘

میں نے مک براؤن سے کہا کہ تو یہ پرانے انداز کی صحافت ہے کہ آپ کو کوئی سراغ ملا اور پھر آپ اس پر لکھنے کے لیے تحقیق کرنے بیٹھ گئے؟

مک براؤن نے اس سوال پر آہ بھری تو میرا تجسس اور بڑھنے لگا۔ میں نے پوچھا کہ اچھا تو پھر آگے کیا ہوا؟ آپ نے تصدیق کر لی کہ یہ شخص واقعتاً نیرو مودی ہی ہے اور معمول کا پابند آدمی ہے۔ پھر آپ نے آگے کیا کیا؟

مک براؤن نے بتایا ’پھر ہم نے کسی جاسوس کی طرح ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور صبح صبح ان کے دفتر کے پاس پہنچ گئے۔ لیکن پھر محسوس ہوا کہ وہ تو ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئے ہیں یا پھر ہماری نظروں میں آئے بغیر نہ جانے وہاں کس طرح پہنچ گئے۔‘

’نیرو مودی واقعتاً عمارت میں موجود تھے، اس بات کی پہلی تصدیق اس وقت ہوئی جب ہم نے انھیں سوہو سکوائر میں واقع خوبصورت جارجیا ٹاؤن ہاؤس کی پہلی منزل پر کھڑکی کے قریب کھڑے دیکھا جہاں ان کا دفتر تھا۔ پھر ہم ان کا وہاں سے باہر آنے کا انتظار کرنے لگے۔‘

’اور ہم نے اپنے ساتھی رابرٹ مینڈک کو سوہو سکوائر کے ایک چھوٹے سے پارک میں تعینات کر رکھا تھا جہاں سے وہ کھڑکی پر نظر رکھ سکتے تھے اور وہاں سے ہمیں اشارہ بھی دے سکتے تھے کہ اب مودی واقعی عمارت سے باہر جا رہے ہیں۔ ہم اس عمارت کے سامنے والے دروازے کے پاس تھے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ نیرو مودی نے دروازے کے باہر فرش پر قدم رکھا۔ وہاں سے وہ مڑے اور میرے پاس سے گزرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔‘

’اس دن میرے ساتھ ایک ویڈیو گرافر کام کر رہا تھا اور اسی طرح ہم دونوں سوہو سٹریٹ پر کچھ فاصلے تک ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور چند قدم کے بعد میں نے اچانک ان سے کہا ’صبح بخیر، مسٹر مودی۔‘ جب انھوں نے مڑ کر دیکھا اور ایک اجنبی شخص کو اس طرح اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے پایا تو اُن کو ایک جھٹکا لگا۔‘

’میں نے پھر انھیں سمجھایا کہ میں روزنامہ ٹیلیگراف سے وابستہ صحافی ہوں اور میں کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت حیران اور پریشان نظر آئے۔ میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک ایسے شخص کی طرح نظر آ رہے تھے جسے کسی جلتی ہوئی عمارت سے کسی سنائپر نے گولی مار دی تھی۔ اس اچانک کی مڈبھیڑ سے وہ بہت ہی پریشان ہو گئے۔ لیکن جلدی ہی انھوں نے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’نو کمنٹس۔‘ میں ان سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ہر سوال پر اُن کا ایک ہی جواب تھا ’نو کمنٹس۔‘

’پھر ان کے قدم مڑے اور وہ سوہو سٹریٹ سے آکسفورڈ سٹریٹ کی طرف چلنے لگے۔ دن کے اس وقت آکسفورڈ سٹریٹ انتہائی مصروف جگہ ہوتی ہے۔ وہ آکسفورڈ سٹریٹ کو عبور کر کے سڑک کی دوسری طرف بظاہر ٹیکسی کا انتظار کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں اب بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔ اس وقت بھی میں ان سے سوالات پوچھ رہا تھا، اور اب بھی ان کا جواب ’نو کمنٹس، نو کمنٹس‘ تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ بہت ہی عجیب بات ہے کیونکہ منطقی طور پر انھیں کسی کم بھیڑ والی پرسکون جگہ کی طرف جہاں کوئی نہ ہو چلتے رہنا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں، وہ وہاں کھڑے ٹیکسی کے منتظر رہے۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ یہ بہت مصروف وقت ہے۔ آپ کو آکسفورڈ سٹریٹ پر ٹیکسی نہیں ملے گی۔‘

نیرو مودی

’چنانچہ اس وقت ہمارے لیے ماورائے حقیقت ایک ٹھہراؤ کا سا عالم تھا جہاں وہ ٹیکسی کے منتظر کھڑے تھے۔ میں بھی وہاں کھڑا ان سے بار بار وہی سوالات پوچھ رہا تھا۔ ایک موقع پر میں نے انھیں ٹیکسی لینے میں مدد کی پیشکش بھی کی۔ آخر کار ایک ٹیکسی آ گئی اور وہ ٹیکسی کو روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور جیسے ہی ٹیکسی رُکی وہ اس میں داخل ہو گئے۔ آپ دیکھ سکتے تھے کہ جیسے ہی وہ ٹیکسی میں داخل ہوئے انھوں نے اپنا موبائل فون نکالا، وہ واقعتاً بہت ہی جلد اپنے فون پر تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ اپنے وکیل یا شاید اپنے دفتر یا کسی اور کے ساتھ بات چیت کرنے لگے تھے۔‘

مک کی یہ باتیں سُن کر میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی یہ خيال گزرا تھا آپ انڈیا کے اس مطلوب ترین شخص کو ڈھونڈ لیں گے جسے ڈھونڈنے میں انڈین حکام تک ناکام رہے؟

مک براؤن نے کہا: ’نہیں۔ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا تھا۔ یہ قسمت کی بات تھی اور میرے ساتھی رابرٹ مینڈک کی مہارت تھی جو بیوروکریسی کے ماحول کے زیادہ ماہر تھے اور آپ جانتی ہیں کہ کچھ خاص چیزوں کو نکالنے میں جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے تندہی اور صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔‘

’سب سے حیرت انگیز اس بات کا پتا چلانا تھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں اور ان کا پیچھا کر کے یہ تصدیق کرنی تھی کہ وہ نیرو مودی ہی ہیں جس کے پیچھے ہم لگے ہیں اور جو دنیا کا مطلوب ترین شخص ہے۔ کیونکہ اس (انڈیا سے فرار) کے بعد سے ان کی شکل و شباہت میں فرق آ گیا تھا۔ اُن کا وزن بڑھ چکا تھا اور انھوں نے فو منچو کی طرح کی مونچھیں رکھ لی تھیں۔ اور جب ہم نے آخر کار انھیں گھیر لیا تھا تو اس وقت انھوں نے شترمرغ کی کھال سے بنی جیکٹ پہن رکھی تھی جس کا اپنا ایک فیس بک پیج بن گیا کیونکہ لوگ اس انتہائی، انتہائی مہنگے شتر مرغ کی جلد کی جیکٹ میں بہت دلچسپی لینے لگے جو انھوں نے اس دن پہن رکھی تھی۔‘

میں نے پھر پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی اس ویڈیو کے وائرل ہونے کی توقع کی تھی اور کیا آپ کو کبھی اپنے انٹرویو پر اس طرح کے وسیع ردعمل کی توقع کی تھی؟

مک براؤن نے بتایا: ’ہمیں احساس تھا کہ یہ ایک بہت بڑی کہانی ہے اور واضح طور پر ہم جانتے ہیں کہ وہ انڈیا کے مطلوب ترین شخص ہیں، لیکن میرے خیال میں اس کا ردعمل حیرت انگیز تھا اور حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے دن ڈھلتا گیا انڈیا کے تمام نیوز بلٹین میں اس کہانی کا ذکر تھا۔‘

’اپنے بہت ہی طویل کیریئر میں، آپ اس کے بارے میں جانتی ہیں، میرے خیال سے میں کبھی بھی اتنی غیر معمولی چیز میں شامل نہیں رہا۔’

نیرو مودی کہاں قید ہیں اور ان کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟

میہل چوکسی

نیرو مودی کے چچا میہل چوکسی ان دنوں اینٹیگوا میں ہیں

نیرو مودی اس وقت ایچ ایم پی وینڈز ورتھ جیل میں ہیں جو برطانیہ کی سب سے گنجان آباد جیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ جیل سنہ 1851 میں تعمیر کی گئی تھی اور یہ نیرو مودی کے برطانیہ میں موجود 80 لاکھ پاؤنڈ فلیٹ کے بالکل برعکس ہے۔

مئی 2020 کے بعد سے نیرو مودی کی انڈیا حوالگی کا مقدمہ لندن کی ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ میں جاری ہے۔

اس عرصے کے دوران نیرو مودی نے متعدد بار پر ضمانت پر رہائی کی درخواست بھی دی لیکن وہ 40 لاکھ پاؤنڈ کی ضمانت کی پیش کش کے باوجود بھی اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ہر بار ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی کیونکہ نیرو مودی کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ فرار ہونے کے لیے مالی وسائل کا استعمال کریں گے اور اسی وجہ سے برطانیہ کی عدالتوں کو ان کے فرار ہونے کا خطرہ ہے۔

رواں سال آٹھ جنوری کو ان کے ہائی پروفائل حوالگی کے مقدمے کی آخری سماعت تھی جہاں ضلعی جج سموئیل گوزی جو اس معاملے کی سماعت کر رہے ہیں انھوں نے نیرو مودی اور انڈین حکومت دونوں کے وکیلوں کے اختتامی بیانات سنے اور جج نے کہا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ 25 فروری کو سنائیں گے جس میں اس بات کی وضاحت ہو گی کہ آیا انھیں انڈیا کے حوالے کیا جائے یا نہیں۔

لیکن حقیقت پسندانہ طور پر اگر جج ان کی انڈیا کو حوالگی کا فیصلہ کرتے ہیں تو نیرو مودی کو انڈیا واپس جانے میں کتنے دن لگیں گے؟

میں نے برطانیہ میں مقیم گلوبل لیگل سولیوشنز کے وکیل ہرجاپ سنگھ بھنگل سے یہ جاننے کے لیے بات کی کہ برطانیہ کا حوالگی کا قانون اور پراسیس کیا کہتا ہے اور نیرو مودی کو اس پر کتنا عمل کرنا ہو گا اور یہ بھی پوچھا کہ انھیں انڈیا کے حوالے کرنے میں کتنے دن لگ سکتے ہیں۔

میں نے ہرجاپ سنگھ سے پوچھا کہ مان لیں کہ جج مسٹر مودی کو انڈیا واپس بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اس کے بعد کیا ہو گا؟ مسٹر مودی کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

ہرجاپ سنگھ بھنگل نے کہا کہ ’مجسٹریٹ کے فیصلے کے بعد دراصل کوئی پابندی نہیں ہے اور نیرو مودی کو انڈیا واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ پھر یہ برطانیہ کی ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کے پاس بھیجا جائے گا جو پھر فیصلہ کریں گی کہ حوالگی کا حکم دینا ہے یا نہیں۔ اس کے خلاف نیرو مودی اپیل بھی کر سکتے ہیں۔ وہ ہائی کورٹ میں اپیل کر کے کہہ سکتے ہیں کہ مجسٹریٹ کا فیصلہ غلط تھا اور اس فیصلے کے متعلق پریتی پٹیل کو حکم نامے پر دستخط کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت درکار ہو گا۔ لیکن اگر نیرو مودی مقدمہ ہار جاتے ہیں تو انھیں فوری طور پر اس کے خلاف اپیل کرنی ہو گی۔‘

’پھر ہائی کورٹ اپیل پر سماعت کرے گی اور پھر فیصلہ کرے گی کہ مجسٹریٹ نے صحیح فیصلہ کیا یا نہیں۔ لیکن اگر اس دوران پریتی پٹیل نے حکم نامے پر دستخط کر دیے اور کہا کہ در حقیقت انھیں واپس بھیجا جا سکتا ہے تو پھر اس کے خلاف اپیل کی نیرو مودی کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ تو ان کے پاس دو اپیلیں ہوں گی لیکن دونوں بیک وقت جاری ہوں گی۔ لہذا ہائی کورٹ ایک ہی وقت میں دونوں کی سماعت کر سکے گا۔ لہذا ایک تاریخ ہو گی اور ہائی کورٹ دونوں اپیلوں پر سماعت کرے گی اور پھر فیصلہ سنائے گی۔‘

میں نے مزید دریافت کیا کہ کیا پریتی پٹیل حوالگی کے حکم پر دستخط کرنے سے انکار کر سکتی ہیں؟

ہرجاپ سنگھ نے بتایا: ’بہت ساری وجوہات کی بنا پر پریٹی پٹیل اس پر دستخط کرنے سے انکار کر سکتی ہیں۔ ایک تو دوہرا خطرہ اور دوہری سزا ہے اور دوسرے اگر وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ انڈیا میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ انھیں انسانی حقوق ایکٹ کے تحت اور انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ لہذا اگر وہ یہ سوچتی ہیں کہ نیرو مودی کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا یا انھیں ان کے سیاسی نظریے کی وجہ سے ستایا جائے گا تو وہ اس پر دستخط کرنے سے انکار کر سکتی ہیں۔

میں پوچھا کہ اگر وہ آرڈر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیتی ہیں تو پھر حکومت ہند کیا کر سکتی ہے؟

ہرجاپ سنگھ نے کہا: ’یہ اس بات پر منحصر ہے انھوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیوں کیا۔ لہذا اگر وہ یہ کہتی ہے کہ انڈین جیل کے حالات بہت خراب ہیں۔ انڈین حکومت اس کی اصلاح کے حوالے اگر کچھ کر سکتی ہے تو اسے ایک ایل او اے یعنی یقین دہانی کا خط جاری کرنا ہو گا۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں جیل کے حالات خراب ہو سکتے ہیں لیکن اس قیدی کے لیے ہم خصوصی انتظامات کر رہے ہیں۔ ہم انھیں علیحدہ سیل دیں گے جہاں ان کو کسی دوسرے قیدی کے ساتھ بند نہیں کیا جائے گا جو کہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ان پر نگاہ رکھی جائے گی، وہاں صفائی ہو گی اور برطانیہ جیسے حالات ہوں گے۔

عدالت

برطانیہ کی عدالت میں نیرو مودی کی حوالگی کا مقدمہ زیر سماعت ہے

میرا سوال تھا کہ اگر ضلعی جج نے نیرو کی حوالگی سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا؟ انڈین حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیا وہاں سب ختم ہو جائے گا؟

اس پر ہرجاپ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’نہیں حکومت ایک اور درخواست دے سکتی ہے۔ وہ ان تمام غلطیوں کو سدھار سکتی ہے جن کی جج نے نشاندہی کی ہے۔ وہ صورتحال کو سدھار کر ایک اور درخواست داخل کر سکتی ہے اور یہ کہہ سکتی ہے کہ لو ہم نے اس کی اصلاح کر لی ہے یا اس کے متبادل کے طور پر انڈین حکومت دوبارہ بھی اپیل کر سکتی ہے۔‘

میں نے مزید پوچھا کہ نیرو جیسے کسی شخص کے لیے انڈیا کے سپرد کرنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟

ہرجاپ سنگھ نے وضاحت کی کہ ’بات یہ ہے کہ میں ابھی دو دیگر اپیلوں سے نہیں گزرا۔ لہذا ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ بھی ہے۔ اور اس کے بعد بھی کچھ ایسی چیز ہے جسے فی الحال ڈاکٹر وجے مالیا اپنا رہے ہیں۔ اور یہ یورپی عدالت کی طرف سے ایک راحت ہے۔ لہذا خاص طور پر آج کے زمانے اور حالات میں جہاں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بہت سی عدالتیں بند ہیں اور بعض عدالتوں میں آن لائن کارروائی ہو رہی اس لیے ان سب میں وقت لگے گا۔‘

اس کے علاوہ پرانے مقدمے بھی ہیں جن کی سماعت ہونی ہے لیکن یہاں ہندوستان کی طرح بیک لاگ نہیں ہیں۔ اس لیے اس میں ایک سال، ڈیڑھ سال یا شاید دو سال بھی لگ سکتا ہے۔’

انڈیا میں صورتحال کیا ہے؟

نیرو مودی

انڈیا میں پی این بی کی جانب سے شکایت کیے جانے کے بعد انڈیا کے تفتیشی ادارے سی بی آئی اس معاملے کی تحقیقات کی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جسے اب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ دیکھ رہا ہے۔ انڈیا میں ان کے تمام کاروبار بند ہو چکے ہیں اور ان کی دولت کا تخمینہ تقریباً 523 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔

انھوں نے امریکہ میں اپنی دولت کو بچانے کے لیے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا تھا اور قرض دہندگان کو جواب دیا تھا کہ ان کے کاروبار کو ان کی وجہ سے بدنامی کا سامنا کرنا پڑا اور نقصان پہنچا ہے اور ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد ہو گئے ہیں اس لیے وہ اب ادائیگی نہیں کر سکتے۔

دریں اثنا نیرو مودی کی بہن پوروا مودی اور ان کے بہنوئی جو کہ پی این بی کیس میں نامزد ہیں انھوں نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے سامنے مسٹر مودی کے مقدمے میں تعاون کی بات کی ہے اور ممبئی کی عدالت سے انھیں اس معاملے میں اجازت بھی مل گئی ہے۔

خیال رہے کہ نیرو مودی کی بہن بیلجیئم کی شہری ہیں جبکہ ان کے بہنوئی مینک مہتا برطانوی شہری ہیں۔ ای ڈی کو دیے جانے والے اپنے بیان میں پورا مودی نے اپنی دولت کی تفصیل دی ہے۔

این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کے نام پر ممبئی میں ایک ٹرسٹ اور فلیٹ ہے جس کی مالیت ساڑھے 19 کروڑ روپے ہے۔ امریکہ میں دو فلیٹس ہیں جس کی مالیت دو ارب 20 کروڑ روپے ہے۔ اسی طرح سوئس بینک میں دو اکاؤنٹ ہیں جن میں 270 کروڑ روپے ہیں جبکہ لندن میں ایک فلیٹ 62 کروڑ روپے کا ہے اور ممبئی میں ایک بینک اکاؤنٹ میں ایک کروڑ 90 لاکھ ہے۔

گذشتہ سال دونوں نے ممبئی کی ایک عدالت سے رجوع کیا اور اس مقدمے میں حکومت کے حامی بن کر معافی طلب کی ہے۔ انھوں نے عدالت کو کہا کہ وہ اس مقدمے کی اہم ملزم نہیں ہیں اور ای ڈی نے ان کی معمولی شمولیت کو درج کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے ایجنسی کے ساتھ تعاون کیا ہے اور انھیں تمام معلومات اور دستاویزات فراہم کی ہیں۔

اس سے قبل ای ڈی کی درخواست پر انٹرپول نے پوروی مودی کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس ہٹا لیا ہے۔

انڈیا میں نیرو مودی اور ان کے چچا میہل چوکسی کے خلاف تقریباً 14 ہزار کروڑ روپے کے فراڈ کا مقدمہ جاری ہے۔ میہل چوکسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ویسٹ انڈیز کے جزائر اینٹگوا اور بارباڈوس میں ہیں اور حکومت ہند انھیں بھی انڈیا کے حوالے کیے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.