نیتن یاہو کے شکریے سے انڈیا کا نام غائب، حامی انڈین صارفین کو طعنے
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں اسرائیل کی حمایت کرنے والے 25 ممالک کا شکریہ ادا کیا مگر اس میں انڈیا کا نام شامل نہیں تھا۔
مگر انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد مسلسل اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کے اقدامات کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے اپنی ٹویٹ میں 25 ممالک کے پرچم لگائے جس میں امریکہ، البانیہ، آسٹریلیا، آسٹریا، برازیل، کینیڈا، کولمبیا، قبرص، جارجیا، جرمنی، ہنگری، اٹلی، سلووینیا اور یوکرین شامل ہیں۔
اُنھوں نے لکھا: ‘آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے ہمارے حقِ دفاع کی حمایت کی اور اسرائیل کے ساتھ قدم ملا کر کھڑے ہوئے۔’
یہ بھی پڑھیے
مگر انڈیا کی جانب سے اسرائیل کی حمایت میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
انڈیا میں نہ صرف اسرائیل کی حمایت میں ٹویٹس کی جا رہی ہیں بلکہ کئی لوگ فلسطینیوں کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ اس مسئلے پر انڈین رائے عامہ تقسیم کی شکار ہے۔
اسی دوران انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ کئی روز سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری اس تنازعے کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
تاہم اقوامِ متحدہ میں انڈیا کے مستقل مندوب ٹی ایس تریمورتی نے 12 مئی کو سلامتی کونسل کے ایک مصالحتی اجلاس میں کہا کہ ‘انڈیا تشدد، بالخصوص غزہ سے ہونے والے راکٹ حملوں کی مذمت کرتا ہے۔’
اُنھوں نے مزید کہا کہ تشدد کے خاتمے اور تناؤ میں کمی کی فوری ضرورت ہے۔
اسرائیل اور انڈیا کے درمیان تعلقات کی تاریخ
جب دسمبر 2017 میں امریکہ کے اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جائے گا تو انڈیا اُن ممالک میں سے تھا جس نے اس اقدام کی مخالفت کی۔
اس معاملے پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی تو انڈیا اُن 128 ممالک میں شامل تھا جنھوں نے امریکی اقدام کو مسترد کیا۔
انڈیا نے اپنے اُس وقت کے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کی قیادت میں سنہ 1948 میں اسرائیل کو قیام کے فوراً بعد تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ اسے سنہ 1950 میں تسلیم کیا گیا۔
اس کے بعد اگلی کئی دہائیوں تک بھی اسرائیل کے ساتھ انڈیا کے سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے۔
سنہ 1992 میں اسرائیل اور انڈیا کے درمیان سفارتی تعلقات کی بنیاد تو پڑی، مگر اس کے باوجود انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کچھ خاص گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔
نوّے کی دہائی کے آغاز میں سفارتی تعلقات قائم ہونے کے آٹھ سال بعد لال کرشن ایڈوانی وہ پہلے انڈین وزیر تھے جنھوں نے سنہ 2000 میں اسرائیل کا دورہ کیا۔
اسی سال انڈیا اور اسرائیل کا دہشتگردی کے خلاف ایک مشترکہ ورکنگ گروپ وجود میں آیا۔
اس کے بعد سنہ 2003 میں اُس وقت کے انڈین مشیر برائے قومی سلامتی برجیش مشرا نے امیریکن جیوئش کمیٹی سے خطاب میں زور دیا کہ انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کو مل کر ‘اسلامی انتہاپسندی’ کے خلاف لڑنا چاہیے۔
مگر جب سنہ 2004 میں انڈیا میں کانگریس حکومت میں آئی تو انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات منظرِ عام سے غائب ہوگئے۔
مگر ایسا نہیں تھا کہ دونوں ممالکل کے درمیان کوئی تلخی پیدا ہوگئی تھیاسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں اسرائیل کی حمایت کرنے والے 25 ممالک کا شکریہ ادا کیا مگر اس میں انڈیا کا نام شامل نہیں تھا۔
ممبئی میں دہشتگرد حملوں کے بعد اسرائیل اور انڈیا کے درمیان دفاعی تعلقات میں گہرائی آئی مگر اس کے باوجود سالہا سال سے انڈیا اسرائیل کو کھلے عام گلے لگانے سے گریز کرتا رہا۔
انڈیا کے عرب ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انڈیا اب تک اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنے سے ہچکچکاتا رہا ہے۔
نریندر مودی نے بطور وزیرِ اعظم پہلی مرتبہ 2017 میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس کے بعد سے اسرائیل اور انڈیا کی تعلقات میں قربتیں بڑھنے لگیں۔ انڈیا ہمیشہ سے اسرائیل سے تعلقات بہتر کرنے سے اس لیے ہچکچاتا رہا ہے کیونکہ وہ عرب ممالک کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔
انڈیا کی وزارتِ کامرس کے مطابق انڈیا کی عرب ممالک سے تجارت کی مالیت سنہ 2017-2016 میں 121 ارب ڈالر رہی۔ یہ انڈیا کی بین الاقوامی تجارت کا تقریباً 18 اعشاریہ دو پانچ فیصد ہے۔ اس کے برعکس انڈیا کی اسرائیل کے ساتھ تجارت پانچ ارب ڈالر کی جو اس کی مجموعی تجارت کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔
انڈیا کے اسرائیل سے دفاعی تعلقات خاصے گہرے ہیں تاہم اس کے لیے عرب ممالک کی اہمیت روزگار، زرِ مبالہ اور توانائی کے شعبوں میں بہت زیادہ ہے۔
’اسرائیل داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘
ادھر اسرائیلی وزیرِ بنیامن نیتن یاہو کی جانب سے حملے جاری رکھنے کے عظم کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ‘بھرپور طاقت کے ساتھ حماس کے راکٹ حملوں کا جواب’ دیتے رہیں گے۔
اپنے ٹی وی خطاب میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ بمباری اس وقت تک جاری رہے گی ‘جب تک اس کی ضرورت ہو گی’ تاہم انھوں نے زور دیا کہ شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ‘اس محاذ آرائی کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ ہم پر حملہ کرنے والی جماعت ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اسرائیل اپنے کسی بھی یہودی شہری کے خلاف بنائے گئے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ہم اپنے یہودی شہریوں کو عرب گینگز کے ہاتھوں مرتے یا خوفزدہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔
‘اس کے علاوہ ہم کسی بھی یہودی شہری کو معصوم عرب شہریوں کے خلاف جرائم سرزد نہیں کرنے دیں گے۔ کسی قسم کے فساد کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ میں ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں کہ اسرائیل ایک یہودی جمہوری ملک ہے۔ یہاں رہنے والے تمام افراد کے لیے آئین سب سے زیادہ اہم ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ اسرائیل داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مجھے اپنی فوج پر پورا یقین ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جلد ہی یہ سب ختم ہو جائے اور ہم اس صورتحال سے مزید مضبوط ہو کر نکلیں گے۔’
‘بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ’ کا طعنہ
نیتن یاہو کے ایسے بیانات کو انڈیا میں دائیں بازو کے افراد کی جانب سے کافی پذیرائی ملتی ہے۔ انڈیا میں دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد نیتن یاہو کو مشرقِ وسطیٰ کا ہیرو سمجھتے ہیں۔
انڈیا میں #IStandWithIsrael کا ہیش ٹیگ گذشتہ کئی روز سے مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔ انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں نے بھی اس ہیش ٹیگ کے ذریعے اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی بہار کے صدر ڈاکٹر سنجے جیسوال نے ٹوئٹر پر لکھا: ‘ہر ملک کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ میں اسرائیل کے ساتھ ہوں۔’
دیگر کچھ رہنماؤں نے بھی ایسی ہی ٹویٹس کیں۔
مگر کانگریس کے دلت ونگ نے اس پر ایک مختلف مؤقف اپنایا ہے۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں #IStandWithIsrael اور #ISupportIsrael کے ہیش ٹیگز کے ساتھ لکھا کہ ‘انڈیا میں اندھے حامی روزانہ ان ہیش ٹیگز کے ساتھ سینکڑوں ٹویٹس کر رہے ہیں مگر اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اُن کی حمایت کی جانب توجہ ہی نہیں دی۔ ان حامیوں کی صورتحال ‘بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ’ جیسی ہے۔
انڈیا کی مشکل
گذشتہ چند برس میں اسرائیل اور انڈیا ایک دوسرے کے کافی قریب آئے ہیں۔ جولائی 2017 میں نریندر مودی 70 سال میں انڈیا کے وہ پہلے وزیرِ اعظم بنے جنھوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے نریندر مودی کے دورے کو شاندار کہا۔ مودی بھی نیتن یاہو کو ایک ‘اچھا دوست’ کہتے ہیں۔ پر اگر ہم تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو انڈیا کی پالیسی فلسطینیوں کی جانب زیادہ ہمدردانہ رہی ہے۔
انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے مطابق فلسطینی مسئلے پر انڈیا کی حمایت انڈین خارجہ پالیسی کا لازمی جُزو ہے۔ سنہ 1974 میں انڈیا وہ پہلا غیر عرب ملک بنا جس نے یاسر عرفات کی پیلیسٹائن لبریشن آرگنائیزیشن (پی ایل او) کو فلسطینیوں کی واحد اور حقیقی نمائندہ تنظیم تسلیم کیا۔
Comments are closed.