نیتن یاہو کا امریکی صدر کو جواب:’اسرائیل اپنے فیصلے خود کرے گا، بیرونی دباؤ کی بنیاد پر نہیں‘
جب منگل کو حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں نے صدر سے ملاقات کی تو ان کی رہائش گاہ کے سامنے مظاہرہ ہوا
- مصنف, ٹام بیٹمین اور ڈیوڈ گرٹّن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے امریکی صدر کے اس بیان پر برہمی کا اظہار کیا ہے جس میں صدر بائیڈن نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے متنازع عدالتی اصلاحات کے منصوبوں سے دستبردار ہوجائیں۔
جو بائیڈن نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ (نیتن یاہو) اس راہ پر آگے نہیں جا سکتے۔‘
اس کے جواب میں مسٹر نیتن یاہو نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اسرائیل اپنے فیصلے خود کرے گا، ’بیرونی دباؤ کی بنیاد پر نہیں۔‘
اس ہفتے ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے اسرائیل میں کاروبار زندگی تھم گیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کو خود سے ان تجاویز کو روکنے پر مجبور ہونا پڑ گیا تھا۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال کے آخر میں نیتن یاہو کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے اسرائیل میں ان مظاہروں میں شدت آئی ہے۔ مسٹر نیتن یاہو کی حکومت اسرائیل کی تاریخ کی سب سے زیادہ قوم پرست اور دائیں بازو کے نظریات کی حامل حکومت ہے جس نے عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے کا تہیہ کیا ہوا۔
اگر نیتن یاہو حکومت ججوں کی تقرری کرنے والی کمیٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کو منسوخ کرنے کے ان اہم اختیارات سے محروم کر سکتی ہے جنھیں یہ قوم پرست حکومت غیر آئینی سمجھتی ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ عدالتوں کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے سے روکیں گے اور انہیں گزشتہ انتخابات میں عوام نے ووٹ اسی لیے دیا تھا۔ لیکن ملک کے زیادہ تر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے اقدامات سے نتن یاہو عملی طور پر عدلیہ کی آزادی کو تباہ کر دیں گے، جبکہ حزب اختلاف کی شخصیات اسے ’حکومت کی جانب سے بغاوت‘ کی کوشش قرار دیتی ہیں۔
جب وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتے وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو کھلے عام اصلاحات کو روکنے کا مطالبہ کرنے پر برطرف کر دیا تو ملک کی سب سے بڑی مزدور یونین نے ہڑتال کا اعلان کر دیا اور اتوار اور پیر کو ملک بھر میں ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔
ان مظاہروں کے نتیجے میں مسٹر نیتن یاہو آخر کار جھک گئے اور پیر کی رات انھوں نے اعلان کر دیا کہ وہ پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک عدالتی تبدیلیوں کو روک رہے ہیں تاکہ بات چیت کے لیے وقت مل سکے۔
منگل کو حکومتی اتحاد اور پارلیمان میں حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں ’یش عتید‘ اور ’قومی اتحاد‘ کے نمائندوں نے پہلی مرتبہ صدر اسحاق ہرزوگ کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ مسٹر ہرزوگ کے دفتر کے مطابق مذاکرات کے فریم ورک پر بات چیت ’مثبت جذبے کے ساتھ ہوئی۔‘
اس کے علاوہ صدر اسحاق ہرزوگ نے بدھ کو حزب اختلاف کی جماعتوں ’متحدہ عرب لِسٹ، ہداش تال اور لیبر پارٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔
جب سے نیتن یاہو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں، ان کو واشنگٹن کی جانب سے کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے
منگل کے روز ریاست شمالی کیرولائنا کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے حکومتی اتحاد پر زور دیا کہ وہ اصلاحات ترک کر دے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کے بہت سے بڑے حامیوں کی طرح مجھے بھی بہت تشویش ہے اور مجھے فکر ہے کہ اسرائیل کے دوسرے اتحادی بھی اس معاملے کو سمجھیں۔‘
صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھےامید ہے کہ وزیر اعظم اس طرح سے کام کریں گے کہ وہ کوئی حقیقی سمجھوتہ کرنے کی کوشش کر سکیں، لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم صدر بائیڈن کی اس بات پر واضح طور پر برھم نظر آئے اور انھوں نے رات گئے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘اسرائیل ایک خودمختار ملک ہے جو اپنے فیصلے اپنے عوام کی مرضی سے کرتا ہے نہ کہ بیرون ملک سے آنے والے دباؤ کی بنیاد پر، جس میں بہترین دوست بھی شامل ہیں۔‘
مسٹر نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا اتحاد ’حکومت کی تینوں شاخوں کے درمیان مناسب توازن بحال کرکے جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے ، جسے ہم وسیع اتفاق رائے کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب نیشنل یونٹی پارٹی کے رہنما بینی گینٹز نے کہا کہ صدر بائیڈن نے اسرائیلی حکومت کو ’فوری طور پر بیدار ہونے‘ کو کہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے قریبی دوست اور ہمارے سب سے اہم اتحادی، یعنی امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کو پہنچنے والا نقصان ایک اسٹریٹجک دھچکا ہے۔‘
اگرچہ مسٹر بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہے ہیں، لیکن جب انھوں نے نیتن یاہو کی ان کوششوں کا حوالے دیا جن کا مقصد اسرائیل میں قانونی اصلاحات کرنا ہے، تو صدر بائیڈن کے حوالے سے شکوک و شبہات کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
یاد رہے کہ جب سے نیتن یاہو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں، ان کو واشنگٹن کی جانب سے کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے، جسے اب اس نظر سے دیکھا جا رہا ہے کہ آیا وائٹ ہاؤس ان سے خوش ہے یا نہیں۔
منگل کو جب صدر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جلد ہی دعوت نامہ بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’نہیں، مستقبل قریب میں نہیں۔‘
صدرجوبائیڈن اسرائیل کے سخت حامی ہیں، نیتن یاہو کی ان کے ساتھ اختلافات کی ایک تاریخ ہے۔ سنہ 2015 میں اس وقت کی اوباما انتظامیہ برھم ہو گئی تھی جب نتن یاہو نے مغربی ممالک اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس ہفتے کے بحران کے دوران نیتن یاہو کی حکومت کو مبینہ طور پر بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مسلسل خبردار کیا گیا ہے کہ وہ خطے میں بطور ’واحد جمہوریت‘ اسرائیل کی ساکھ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
لگتا ہے کہ مسٹر نیتن یاہو اس دباؤ کو اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کو عدالتی اصلاحات کو روکنے پر راضی کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومتی اتحاد میں شامل دو سرکردہ انتہا پسند قوم پرست رہنما، وزیر خزانہ بیزایل سموٹریچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتامار بن گویر دونوں پیر کو ہونے والی بات چیت کے بعد بالآخر نیتن یاہو کے ساتھ متفق ہو گئے ہیں۔
مسٹر بین گویر کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم کی جانب سے ’نیشنل گارڈ‘ کے منصوبے کو براہ راست رپورٹ کرنے اور اربوں ڈالر کے بجٹ سے اس منصوبے کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے کے وعدے کے بدلے قانون سازی میں تعطل سے اتفاق کرتے ہیں۔
مخالفین اور پولیس حکام اس خیال کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک ایسا ’نجی ملیشیا‘ قرار دیتے ہیں جو ملک میں ’افراتفری‘ پیدا کرے گا۔ تاہم اسرائیلی میڈیا میں اس بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ آیا یہ منصوبہ حقیقت میں آگے بڑھے گا یا نہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے کئی ہفتوں تک نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا کہ وہ عدالتی اصلاحات کے منصوبوں پر مخالفین کے ساتھ سمجھوتہ کریں۔
اس سال کے اوائل میں یروشلم کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہو کر اسرائیلی حکومت کی جانب سے ’جمہوریت‘ اور ’مشترکہ اقدار‘ سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کی توقعات کا ذکر کیا تھا۔
Comments are closed.