’نیتزہ یہودا‘: انتہائی قدامت پسند یہودی نوجوانوں پر مشتمل اسرائیلی فوج کے یونٹ کو ممکنہ امریکی پابندیوں کا سامنا کیوں ہے؟
- مصنف, الحارث الحباشنة
- عہدہ, بی بی سی نيوز عربی
- 15 منٹ قبل
امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں کے بیانات کے مطابق امریکہ اسرائیلی فوج کی ’نیتزہ یہودا‘ بٹالین پر پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بٹالین زیادہ تر مقبوضہ غرب اُردن کے علاقوں میں کارروائیاں کرتی ہے۔امریکی ویب سائٹ ’ایکسیوس‘ (Axios) کے مطابق یہ پہلا موقع ہو گا کہ امریکی انتظامیہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے اسرائیلی فوج کی کسی بٹالین پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔اُدھر اسرائیلی فوج نے گذشتہ اتوار کو کہا تھا کہ وہ نیتزہ یہودا یونٹ پر ممکنہ امریکی پابندیوں کے فیصلے سے آگاہ نہیں ہیں۔ اسرائیلی فوج کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیتزہ یہودا ایک ’فعال جنگی یونٹ ہے جو بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔‘امریکی ذرائع کے مطابق اگر امریکی محکمہ خارجہ نیتزہ یہودا بٹالین پر پابندیاں عائد کرتا ہے، تو اسے کسی بھی قسم کی امریکی فوجی امداد یا تربیت حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ ’اگر امریکہ ایسا کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کا جائزہ لیا جائے گا۔‘ واضح رہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران سخت گیر اور قدامت پرست یہودی فرقے ’ہریدی‘ کے اراکین کو فوجی خدمات سے استثنی دینے کے معاملے پر کافی غصہ سامنے آیا کیوںکہ اسرائیل میں عوام کی اکثریت پر فوج میں خدمات انجام دینا لازمی ہے۔‘حریدی برادری اسرائیل کی کل آبادی کا 12 فیصد ہے۔ ملک میں اسرائیلی عربوں کے علاوہ 18 سال کی عمر سے زیادہ کے تقریباً تمام اسرائیلی مردوں اور عورتوں پر فوج میں بھرتی ہونا لازمی ہے۔ اسرائیل میں ہر شہری پر تین سال تک فوج میں خدمات سرانجام دینا لازمی ہے۔ خواتین کے لیے یہ مدت دو سال کی ہے۔امریکہ کی جانب سے ’نیتزہ یہودا‘ بٹالین پر ممکنہ پابندی کی خبروں کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور نتن یاہو نے ان خبروں کو مضحکہ خیز قرار دیا۔نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے رکن بنی گانٹز نے کہا ہے کہ ایک اسرائیلی یونٹ پر امریکی پابندیاں عائد کرنا خطرناک پیش رفت ہے۔ انھوں نے امریکی سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن سے فون پر بات چیت میں اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی کی۔گانٹز کے مطابق جاری جنگ کے دوران نتزاہ یہودا بٹالین پر پابندی اسرائیل کی قانونی پوزیشن کو نقصان پہنچائے گی۔ انھوں نے کہا کہ پابندیاں عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں، کیوںکہ فوجی یونٹ بین الاقوامی قانون پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔دوسری جانب اسرائیل کے وزیر قومی سلامتی اُمور اتمار بن گویر نے واشنگٹن کی مجوزہ پابندیوں کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی کو فراہم کردہ تمام فنڈ واپس لینے کا مطالبہ کیا اور وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ فلسطینی بینکوں کے خلاف سخت پابندیوں پر غور کریں۔
نیتزہ یہودا یونٹ کیا ہے؟
،تصویر کا ذریعہNAHAL HAREDI
اس یونٹ پر تنقید کیوں ہوتی ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نیتزہ یہودا پر پابندیاں کس قانون کے تحت لگائی جائیں گی؟
امریکہ میں اس ضمن میں رائج لیہی قانون ایسی غیر ملکی حکومتوں کو امداد فراہم کرنے سے روکتا ہے جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ثابت ہو۔اس قانون کے تحت امریکی محکمہ دفاع پر پابندی کا سامنا کرنے والوں کو کسی قسم کی تربیت فراہم کرنے پر ممانعت ہوتی ہے۔اگر غیر ملکی حکومت قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو امریکی امداد بحال ہو سکتی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق لیہی ایکٹ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب اس بات کے ٹھوس شواہد مل جائیں کہ غیر ملکی سکیورٹی فورسز کا کوئی یونٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔واضح رہے کہ امریکی حکومت تشدد، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی، ریپ وغیرہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل کرتی ہے اور جب یہ مخصوص جرائم ثابت ہو جائیں تو لیہی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔لیہی ایکٹ سنیٹر پیٹرک لیہی کے نام پر ہے جنھوں نے 1990 کی دہائی میں اس قانون کی منظوری کے لیے کام کیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.