سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس کا 58 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا، اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے، فیصلے میں 2 صفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے سامنے دو نیب ترمیمی ایکٹ چیلنج کیے گئے، 25 جون 2022 کو نیب ترامیم چیلنج کی گئیں، درخواست گزار نے 2022 میں کی گئی تمام نیب ترامیم چیلنج کی تھیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نہیں سمجھتی کہ تمام نیب ترامیم بنیادی حقوق کے منافی تھیں، عدالت کی رائے میں پہلی نیب ترامیم کی دفعہ 2، 8، 10 اور 14 کی جوڈیشل اسکروٹنی مطلوب تھی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پہلی نیب ترامیم کی دفعہ 2 میں متعدد عوامی عہدوں کو نیب دائرہ اختیار سے باہر کیا گیا، دوسری نیب ترامیم کی دفعہ 3 میں 50 کروڑ سے کم مالیت کے ریفرنس نیب دائرہ اختیار سے باہر کیے گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پہلی نیب ترامیم کی دفعہ 8 میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کی شق 9 اے فائیو میں نئے اجزاء شامل کیے گئے، شق 9 اے فائیو آمدن سے زائد اثاثہ جات کے جرم سے متعلق ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پہلی نیب ترامیم کی دفعہ 10 میں نیب آرڈیننس کی دفعہ 14 کوختم کیا گیا، دفعہ 14 مفروضی شواہد فراہم کرتا ہے جو ملزم کے خلاف نیب کارروائی میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوسری نیب ترامیم کی دفعہ 14 کے ذریعے نیب آرڈیننس کی شق 25 بی میں اضافہ کیا گیا، 25 بی کے تحت پوری رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں پلی بارگین ختم کی گئی، پہلی نیب ترامیم کی دفعہ 14 کے ذریعے نیب آرڈیننس کی دفعہ 21 جی کو نکالا گیا، دفعہ 21 جی بیرون ملک سےحاصل شواہد کو نیب کیسز میں قابل قبول بناتا تھا۔
Comments are closed.