’نہ جنگ، نہ امن‘: ایران کے سخت گیر قدامت پسندوں کی اسرائیل کے خلاف حکمتِ عملی کامیاب رہے گی؟،تصویر کا ذریعہWana/Reuters
،تصویر کا کیپشنایرانی حملے کے تھوڑی ہی دیر بعد تہران کے فلسطین سکوائر پر ایک بڑا سا بینر آویزاں کردیا گیا جس پر میزائلوں کو سٹار آف ڈیوڈ کی طرز پر بنائی گئی عمارتوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا

  • مصنف, جیار گول
  • عہدہ, نامہ نگار بی بی سی ورلڈ سروس
  • 55 منٹ قبل

ایرنی میڈیا کی جانب سے نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر اِن چیف میجر جنرل حسین سلامی ایک کمرے میں ایک بڑے سے بینر کے سامنے کھڑے ہیں اور ٹیلی فون کے ذریعے اسرائیل پر 200 بیلسٹک میزائل فائر کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔اس کمرے میں آویزاں بینر پر تین شخصیات کی تصاویر بنی ہوئی تھیں: جولائی میں تہران میں مارے جانے والے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور گذشتہ ہفتے بیروت میں اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور پاسدرانِ انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر بریگییڈیئر جنرل عباس نیلفوروشن۔پاسدارانِ انقلاب کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے حملے میں ’فتح‘ ہائپرسونک میزائلوں کا بھی استعمال کیا جو کہ صرف 12 منٹ میں اسرائیل تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایران نے کامیابی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا جن میں تین اسرائیلی فوجی اڈے اور موساد کا ہیڈکوارٹر شامل تھا۔تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائلوں کی اکثریت اسرائیل اور امریکی اتحادیوں نے تباہ کر دیے تھے اور ایرانی حملوں سے صرف وسطی اور جنوبی اسرائیل میں ’چھوٹے نقصانات‘ ہوئے۔

ایرانی حملے کے تھوڑی ہی دیر بعد تہران کے فلسطین سکوائر پر ایک بڑا سا بینر آویزاں کردیا گیا جس پر میزائلوں کو ’سٹار آف ڈیوڈ‘ کی طرز پر بنائی گئی عمارتوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا اور وہاں لکھا تھا: ’صیہونیت کے اختتام کی ابتدا۔‘،تصویر کا ذریعہIranian state television

،تصویر کا کیپشنپاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر اِن چیف میجر جنرل حسین سلامی اسرائیل پر حملے کا حکم دیتے ہوئے
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد ایران نے بظاہر تحمل کا مظاہرہ کیا تھا لیکن یہ تحمل ایران کے لیے شرمندگی کا سبب اس وقت بن گیا جب اسرائیل نے ایران کے قریبی اور خطے میں سب سے پُرانے اتحادی حزب اللہ پر حملے کیے اور گذشتہ جمعے کو حسن نصر اللہ اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر عباس نیلفوروشن کا ہلاک کر دیا۔ایرانی ہتھیاروں، تربیت اور فنڈنگ نے ہی حزب اللہ کو لبنان کی طاقت ترین تنظیم بنایا تھا اور 1980 کی دہائی میں پاسدارانِ انقلاب نے ہی اس تنظیم کو بنانے میں مدد بھی فراہم کی تھی۔اس مہینے کی ابتدا سے قبل ایرانی رہنماؤں کو امید تھی کہ غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ میں مصروف اسرائیلی فوج حزب اللہ کے ساتھ نئے تنازع کے سبب مزید تھک جائے گی۔

ایران اپنے ملک میں نیوکلیئر اور میزائل اڈوں پر اسرائیلی حملوں کی روک تھام کے لیے حزب اللہ اور اس کے پاس موجود راکٹ اور میزائلوں کے ذخیرہ پر انحصار کرتا تھا۔رواں برس جولائی میں ایران کے صدر منتخب ہونے والے مسعود پزشکیان نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کو اس خطے میں جاری جنگ میں شامل ہونے پر اکسانا چاہتا ہے تاکہ امریکہ بھی اس جنگ میں شامل ہوجائے۔ایرانی میڈیا کے مطابق بدھ کو قطر کے دورے کے موقع پر مسعود پزشکیان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بھی سکیورٹی اور امن چاہیے۔ وہ اسرائیل تھا جس نے تہران میں ہنیہ کو قتل کیا۔‘’یورپی اور امریکی کہتے ہیں کہ اگر ہم کارروائی نہیں کرتے تو ایک ہفتے میں غزہ میں امن آ جائے گا۔ ہم نے انتظار کیا تاکہ وہ امن حاصل کرلیں لیکن وہاں قتلِ عام بڑھ گیا۔‘

سخت گیر قدامت پسند

ایران میں سخت گیر قدامت پسند خیالات رکھنے والی شخصیات اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کے سبب بےسکونی کا شکار تھے۔رہبرِ اعلیٰ اور آیت اللہ علی خامنہ ای اور پاسدارانِ انقلاب کے زیرِ اثر سرکاری ٹی وی چینلز پر متعدد تبصرہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا انتقام نہ لینے کے فیصلے نے اسرائیل وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کو لبنان میں ایرانی اتحادیوں اور مفادات پر حملے کرنے کی ہمت دی۔منگل کو میزائل حملوں کے بعد ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ ’صبر و تحمل‘ کا وقت اب بیت چکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اسرائیل میں عسکری اور انٹیلی جنس مقامات کو نشانہ بنایا اور جان بوجھ کر اقتصادی اور کاروباری مقامات کو ہدف بنانے سے اجتناب کیا۔‘’تاہم اگر اسرائیل نے جوابی حملہ کیا تو ہمارا ردِعمل مزید طاقت سے بھرپور ہوگا۔‘میزائل حملے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایرانی رہنماؤں کو یہ تحفظات تھے کہ اسرائیلی حملوں پر چُپ رہنے کے سبب ایران کو نہ صرف ملک کے عوام بلکہ ’مزاحمت کے محور‘ – جس میں حماس اور حزب اللہ بھی شامل ہیں – بھی کمزور تصور کریں گے۔

’نہ جنگ، نہ امن‘

ایران اور اسرائیل دہائیوں سے پرچھائیوں کے پچھے رہ کر جنگ لڑ رہے ہیں اور ’نہ جنگ، نہ امن‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے اس پالیسی کا اختتام ہونے جا رہا ہے۔ ایرانی حملوں کے جواب میں اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ سخت ردِعمل دے گا اور وزیراعظم نتن یاہو کہتے ہیں کہ: ’ایران نے ایک بڑی غلطی کردی ہے اور اس کی قیمت اسے چُکانی پڑے گی۔‘اس صورتحال میں ہمیں ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے امریکی حکمت عملی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔رواں برس اپریل میں صدر جو بائیڈن نے ایرانی میزائل حملوں کے بعد اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی تھِی۔ اسرائیل نے اس درخواست پر عمل بھی کیا تھا اور صرف ایک میزائل کے ذریعے وسطی ایران میں دفاعی تنصیب کو نشانہ بنایا تھا۔لیکن اس مرتبہ صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سُلیون نے خبردار کیا کہ اسرائیلی پر ایرانی حملے کے ’سخت نتائج‘ سامنے آئیں گے اور امریکہ ’اسرائیل کے ساتھ مل تمام چیزیں طے کرے گا۔‘بدھ کو اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی میڈیا نے خبر نشر کی تھی کہ ان کا ملک ’چند دنوں میں‘ ایرانی پر جوابی حملے کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور وہ ایران میں تیل کی ریفائنریوں سمیت متعدد ’سٹریٹیجک مقامات‘ کو نشانہ بنائیں گے۔اسرائیلی حکام نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کی دھمکی پر عمل کیا تو پھر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا جائے گا۔سینیئر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسماعیل ہنیہ، حسن نصراللہ اور نیلفوروشن کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا ہے اور یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سوئس سفارتخانے کے ذریعے امریکہ کو پیغام پہنچایا ہے کہ وہ اس معاملے میں ’دخل اندازی نہ کریں۔‘انھوں نے خبردار کیا کہ: ’کوئی بھی ملک جو اسرائیل کی معاونت کرے گا یا ایران کے خلاف اپنی فضائی حدود استعمال کی اجازت دے گا اسے جائز ہدف تصور کیا جائے گا۔‘مشرقِ وسطیٰ میں تقریباً 40 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور عراق اور شام میں بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان دونوں ممالک سے ایران کے حمایت یافتہ گروہ امریکی فورسز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ایران کو اب خود کو کسی بھی اسرائیلی حملے کے لیے تیار رکھنا ہوگا اور امید رکھنی ہوگی کہ اس کا کھیلا ہوا جوا کام کر جائے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}