سوئز کینال: پھنسا ہوا بحری جہاز اب تک نکالا نہ جا سکا، کنٹینر اتارنے کی تیاریوں کا حکم
ایور گیوِن نامی ایک عظیم الجثہ بحری جہاز سوئز کینال کے بیچ میں میں منگل سے پھنسا ہوا ہے اور سنیچر کو اونچی لہروں کے دوران اسے نکالنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔
اس وقت 300 سے زائد دیگر بحری جہاز کینال کی دونوں جانب رکے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سوئز کینال اتھارٹی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جہاز کے بالکل اگلے حصے کے عین نیچے ایک بڑی چٹان دریافت ہوئی ہے جس کی وجہ سے جہاز کو نکالنے کا کام متاثر ہو سکتا ہے۔
کینال کے منتظمین کا کہنا ہے کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور اتوار کو مزید ٹگ بوٹس نے اس کوشش میں حصہ لیا ہے۔
دوسری جانب مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے حکم دیا ہے کہ پھنسے ہوئے بحری جہاز کو ہلکا کرنے کے لیے اس سے کنٹینر اتارنے کی تیاریاں شروع کی جائیں۔
یہ بھی پڑھیے
اس کام کے لیے کنٹینرز کو کسی اور جہاز پر لادا جائے گا یا کینال کے کنارے پر اتار دیا جائے گا۔
برطانوی چیمبر آف شپنگ کے صدر جان ڈینہوم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کنٹینروں کو دوسرے جہاز میں منتقل کرنے کے لیے حکام کو ایسی کرین لانی ہوں گی جو کہ دو سو فٹ تک کی اونچائی تک پہنچ سکیں۔
’اگر ہم منتقل کرنے کے عمل میں لگ جاتے ہیں تو اس میں کئی ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔‘
سنیچر کے روز اس جہاز کو نکالنے کے لیے ہزاروں ٹن ریت کینال کے کنارے سے ہٹائی جاتی رہی اور اسے کھینچنے کے لیے بلند لہروں کے وقت 14 چھوٹی کشتیوں کا استعمال کیا گیا۔
تیز ہواؤں اور لہروں کے باعث یہ عمل اور بھی پیچیدہ ہوگیا تاہم سوئز کینال اتھارٹی کے چیئرمین جنرل اوسامہ ربی نے بتایا کہ چھوٹی کشتیاں جہاز کو دونوں جانب سے تقریباً 30 ڈگری تک ہلانے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔
ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے چھوٹی کشتیاں ہارن بجا کر اس چھوٹی سی کامیابی کا جشن منا رہی ہیں۔
تاہم حکام نے کہا ہے کہ اس عمل میں تھوڑی بہت پیشرفت ہوئی ہے اور انھیں امید ہے کہ اتوار کی شام تک جہاز کو وہاں سے نکال لیا جائے گا۔
کچھ بحری جہازوں نے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے افریقہ کے گرد سے گھوم کر جانے والا سمندری راستہ اختیار کر لیا ہے۔
سوئز کینال اتنا اہم کیوں ہے؟
دنیا بھر میں ہونے والی تجارت کا 12 فیصد حصہ سوئیز کینال سے ہو کر گزرتا ہے۔
یہ کینال نہ صرف بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں جوڑتا ہے بلکہ ایشیا اور یورپ کے درمیان مختصر ترین سمندری راستہ بھی ہے۔
تجارت کے لیے متبادل راستہ کیپ آف گُڈ ہوپ ہے جو کہ افریقہ کے انتہائی جنوب میں ہے تاہم یہ راستہ سوئز کینال کے مقابلے میں دو ہفتے زیادہ وقت لیتا ہے۔
لوئڈز لسٹ سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق بحری جہاز کے پھنس جانے سے ہر روز 9 اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا سامان رُک رہا ہے جو کہ ایک گھنٹے میں 40 کروڑ ڈالر کے برابر ہے۔
جنرل اسامہ ربی نے بتایا کہ اس کینال کی بندش کی وجہ سے مصر کو روزانہ ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا خسارہ ہو رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مصر امریکہ، چین اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے دی جانے والی مدد کا شکر گزار ہے۔
شام کے حکام نے سوئز کینال میں ٹریفک پھنس جانے کے بعد ایندھن کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس جنگ زدہ ملک کو پہلے ہی بجلی کی کمی اور مہنگائی کا سامنا ہے۔
کیا کوئی متبادل راستہ ہے؟
اگر ریت کو ہٹانے اور چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بحری جہاز کو نکالنے کا عمل ناکام ہوجاتا ہے تو امدادی ٹیم کو جہاز سے کچھ کنٹینر نکالنے پڑیں گے۔
جنرل اسامہ ربی نے کہا ہے کہ پھنسے ہوئے بحری جہاز کے نیچے سے پانی گزرنا شروع ہوگیا ہے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ‘ہم امید کررہے ہیں کہ یہ بحری جہاز کسی بھی وقت وہاں سے پھسل کر باہر نکل آئے گا۔ "
انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ اس بحری جہاز کو ہلکا کرنے کے لیے جہاز پر لدے ہوئے 18 ہزار 300 کنٹینروں کو جہاز سے اتارا نہیں جائے گا۔
ابتدائی رپورٹس کے مطابق دو لاکھ ٹن وزنی اور 400 میٹر لمبائی والے اس جہاز کے پھنسنے کی وجہ تیز ہوائیں اور ریت کا طوفان تھا۔
تاہم جنرل ربی کا کہنا ہے کہ موسمی حالات جہاز کے پھنسنے کی ‘مرکزی وجہ‘ نہیں تھے۔
‘ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ تکنیکی مسائل یا انسانی غلطیاں ہوں، لیکن یہ سب ہمیں تفتیش کے بعد پتہ چلے گا۔‘
ایور گیوِن بحری جہاز کو تائیوان سے تعلق رکھنے والی کمپنی ایورگرین میرین چلاتی ہے جبکہ اس کی مالک جاپانی کمپنی شاؤ کسین ہے۔
شاؤ کسین کمپنی کے صدر یوکیٹو ہیگاکی نے جمعے کے روز کہا کہ جہاز کو نقصان نہیں پہنچا ہے اور ایک بار جہاز اس جگہ سے نکل گیا تو دوبارہ چلنا شروع ہوجائے گا۔
ٹوئٹر پر ردِ عمل
اس جہاز کے پھنسے ہونے کی خبر نے ٹوئٹر پر مسلسل کئی روز سے دھوم مچائی ہوئی ہے۔ کئی صارفین جہاں جہاز کی بخیریت واپسی کی امید کر رہے ہیں وہیں کچھ اور صارفین اس حوالے سے طنز و مزاح اور میمز بھی پوسٹ کررہے ہیں۔
ایک صارف زوہیر نانجیانی نے ٹویٹ میں کہا کہ ہمارے ڈپٹی کمشنروں کو بھیجیں تاکہ وہ سوئز نالے کو چوڑا کرنے کے لیے گھنٹوں کے اندر وہاں سے تجاوزات کا خاتمہ کریں۔ اس کے بعد وہ سیوریج لائنوں کا رخ یہاں موڑ سکتے ہیں تاکہ کینال میں جہاز کو اونچا کرنے کے لیے مزید پانی آ جائے۔
ایک اور صارف ارحم نے لکھا کہ پاکستانی حکومت کو سوئز کینال پر انڈر پاس یا اوور پاس بنانے کی پیشکش کرنی چاہیے۔
ایک صارف نے مشورہ دیا کہ کنگ کانگ اور گوڈزیلا اس جہاز کو مل کر اٹھا سکتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہTwitter/@aqibdar53
تو ایک صارف سوال کرتے ہوئے نظر آئے کہ کیا جہاز کے نیچے مکھن رکھ کر پھسلانے کی کوشش کی گئی ہے؟
لیکن ان طنز و مزاح سے بھری ٹویٹس کے درمیان کچھ سنجیدہ تبصرے بھی تھے۔ ایک پاکستانی صارف عامر کھوکر نے ٹوئیٹ میں لکھا کہ سوئز کینال جیسے واقعات مستقبل میں بھی پیش آئیں گے اور اسی وجہ سے ہمیں ایک متبادل راستے کی ضرورت ہے جو کہ پاکستان ہے۔
Comments are closed.