ایور گیون: نہر سوئز میں پھنسنے والے بحری جہاز کا عملہ اب تک اس پر کیوں پھنسا ہوا ہے؟
- کرسٹینا جے اورگز
- بی بی سی نیوز، منڈو
انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن (آئی ٹی ایف) کے نمائندوں نے جہاز کے عملے سے ملاقات کی تھی
ایور گیون نامی بحری جہاز کو گذشتہ ماہ مصر کی نہر سوئز میں پھنسنے کے بعد نکال لیا گیا تھا لیکن اس کا عملہ اب بھی اس پر موجود ہے اور قانونی طور پر جہاز سے اتر نہیں سکتا۔
اربوں ڈالر کے نقصان کا باعث بننے والے اس تجارتی تنازعے کی وجہ سے مصری حکام نے انھیں جہاز کے ساتھ عارضی طور پر حراست میں لے لیا تھا۔
یہ جہاز ایک جاپانی ہولڈنگ کمپنی کی ملکیت ہے، اس کے تکنیکی معاملات ایک جرمن کمپنی دیکھتی ہے اور اس پر پاناما کا جھنڈا لگا ہوا ہے لیکن اس پر اکثر عملہ انڈین ہے۔
بحری جہاز اور اس کے عملے کو مصر میں گریٹ بیٹر لیک منتقل کیا گیا تھا جو نہر سوئز کا ہی ایک حصہ ہے۔
ایور گیون 23 سے 29 مارچ کے دوران نہر سوئز میں پھنس گیا تھا۔ دنیا کے مصروف ترین سمندری تجارتی راستوں میں سے ایک نہر سوئز میں اس کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں رُک گئی تھیں اور کئی بحری جہازوں کی قطاریں دیکھی گئی تھیں۔
راستے کی بحالی کے تین ہفتے بعد اس کے عملے میں موجود 25 افراد کا کہنا تھا کہ وہ اچھے حال میں ہیں۔ انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن (آئی ٹی ایف) کے نمائندوں نے ان سے جہاز پر ملاقات کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ’اچھے موڈ میں ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
آئی ٹی ایف کے بیان کے مطابق عملے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ مسئلے سے کب آزاد ہو کر گھر لوٹ سکیں گے اور ان کے روزگار کے معاہدوں کا کیا ہوگا۔
.
سوئز کینال اتھارٹی نے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ نہر سوئز واقعے کے مالی نقصان، بحالی کی کارروائیوں اور ساکھ کے نقصان کے عوض ایک ارب ڈالر کا معاوضہ ملنے تک بحری جہاز اور اس کا عملہ مصر میں ہی رہیں گے۔
ایور گیون عملے کی نمائندگی کرنے والے انڈین بوٹرز یونین کے عبدالغنی سرہنگ نے بتایا ہے کہ ’غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے عملے کا پریشان ہونا فطری ہے۔‘
سرہنگ کا کہنا ہے کہ ایور گیون بحری جہاز کے تکنیکی معاملات دیکھنے والی جرمن فرم برن ہارڈ شالٹ ایک جانی مانی کمپنی ہے جس نے عملے کو ملازمت پر رکھا تھا اور اس نے یونین کے ساتھ بھی کئی معاہدے کر رکھے ہیں۔
جب اس جہاز کو حادثہ پیش آیا تھا تو یہ کہا گیا تھا کہ اس کی وجہ موسمی حالات ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جہاز پر موجود عملے سے تفتیش کی جائے گی تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ آیا اس کے پیچھے کوئی غلطی یا لاپرواہی تھی یا نہیں۔
انڈیا کے مقامی ذرائع ابلاغ پر یہ افواہیں بھی شائع کی گئیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے ’سارہ ملبہ عملے پر ڈال دیا جائے گا اور انھیں گھروں میں نظر بند کر دیا جائے گا۔‘
سرہنگ کا کہنا ہے کہ مصری حکام نے بحری جہاز کو قبضے میں لے لیا ہے لیکن عملے کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔
بحری جہاز کو چلانے والی انتظامیہ کے مطابق تاحال اسے ضبط کر لیا گیا ہے لیکن کسی کے خلاف فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ کئی کاروباروں، انشورنس کمپنیوں اور حکومتی اداروں کے درمیان اس بین الاقوامی قانونی جنگ میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
قانونی کارروائی
سوئز کینال اتھارٹی کا کہنا ہے کہ جہاز کی بحالی کے لیے امدادی کارروائیاں مہنگی ثابت ہوئیں اور اسے معاوضہ ملنا چاہیے۔ جہاز کی مالک کمپنی نے اسے چلانے والی کمپنی ایور گیون کے خلاف برطانیہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔
تمام الزامات اور ایک دوسرے کے خلاف مقدمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ذمہ داران کا تعین کرنا آسان نہیں ہوگا اور یہ مشکل مرحلہ ہوسکتا ہے کہ معاوضے کے کتنے پیسے، کون دے گا۔
اس پیچیدہ قانونی جنگ میں عملہ بھی اہم فریق ہے۔
انڈیا میں ملاحوں کی یونین کے ایک نمائندے نے بتایا ہے کہ ’حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تیل نہیں بہا اور نہ ہی کوئی جرم پیش آیا۔ مالی نقصان کے ازالے کے لیے یہ ایک سول معاملہ ہے جس میں جہاز کے مالکان، اسے چلانے والی چارٹر کمپنی، انشورنس کمپنی اور مصری حکام کے درمیان مذاکرات ہوں گے‘۔
کیپٹن سنجے پراشر نے اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ ’بظاہر ایور گیون پر موجود انڈین عملے کو طویل مدت کے لیے حراست میں رہنے کی تیاری کرنا ہوگی۔‘
آئی ٹی ایف کے مطابق جہاز کے عملے میں سے کسی نے بھی کنٹریکٹ (معاہدے) کی خلاف ورزی نہیں کی اور انھیں مارچ کی تنخواہ دی گئی تھی۔
اس لیے اب تک یہ کیس جہاز کو اکیلے چھوڑ دینے کا نہیں ہے، جیسا محمد عائشہ نامی شخص کو درپیش تھا۔ وہ مصر کے جنوبی ساحل پر ایک جہاز کی نگہداشت کر رہے تھے۔ انھیں معاہدے کے تحت اس وقت تک اس تنہا جہاز کی رکھوالی کرنا تھی جب تک انتظامیہ جہاز کو بیچ نہیں دیتی یا ان کا متبادل نہیں ڈھونڈ لیتی۔
آئی ٹی ایف کے مطابق ضبط کیے گئے جہاز کے عملے کو کچھ برسوں تک گھروں میں نظر بند رکھا جاتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ جہاز کا عملہ اس میں پھنسا ہوا ہے جبکہ جہاز کو ضبط کر لیا گیا ہے۔
جولائی 1967 میں نہر سوئز سے 15 بحری جہاز گزر رہے تھے اور وہ چھ روزہ جنگ (جس میں مصر، شام اور اردن نے اسرائیل کے خلاف اتحاد بنایا تھا) کی زد میں آگئے تھے۔
اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس کے حل ہونے تک ان بحری جہازوں کو گریٹ بیٹر لیک منتقل کر دیا گیا تھا تاکہ انھیں ہدف نہ سمجھ لیا جائے۔
اسرائیل نے اس جنگ میں مصر، شام اور اردن کے اتحاد کو شکست دی تھی۔ یہ جنگ 10 جون کو اختتام پذیر ہوئی تھی۔
شکست کے بعد مصر نے نہر سوئز کو بند رکھا تھا اور اس دوران 14 بحری جہاز مصر سے نکل نہیں پا رہے تھے۔
بی بی سی کے پیٹر سنو کے مطابق سفارتی مذاکرات کے بعد کچھ ملاحوں کو دو ہفتوں بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن باقی عملے نے وہاں تین مہینوں تک پھنسا رہا تھا۔
ایور گیون کے عملے کو بھی اسی طرح کے تنازعے کا سامنا ہے۔
انڈیا میں ملاحوں کے یونین نے کہا ہے کہ ان ملاحوں سے ہمدردی کے لیے مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور یہ کہ انھیں قانونی اور دیگر مدد فراہم کی جائے گی۔
Comments are closed.