یوکرین روس جنگ: نو فلائی زون سے نیٹو کے انکار پر یوکرینی صدر برہم
یوکرین کے صدر نے نیٹو اور مغربی ممالک کی شدید تنقید کی
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے نیٹو کی جانب سے یوکرین پر نو فلائی زون قائم کرنے سے انکار کے بعد شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘آج کے بعد جو بھی لوگ ہلاک ہوں گے ان کی موت کی وجہ آپ کی کمزوری اور آپ کا متحد نہ ہونا ہوگا’۔
اپنی تقریر میں انہوں نےکہا کہ اس لڑائی میں مداخلت میں یورپ کی ہچکچاہٹ نے یوکرین کے شہروں اور قضبوں پر روس کو بمباری کرنے کی ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔
ولادیمیر زیلنسکی نے کیئو سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی اس ہچکچاہٹ نے روس کو اشارہ دیا ہے کہ وہ ہمارے شہروں، قصبوں اور گاؤں میں بمباری کر سکتا ہے۔
نیٹو کا موقف ہے کہ یوکرین پر نو فلائی زون قائم کرنے کی کوشش میں اس کا روس سے براہ ِراست ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔
ادھر روسی صدر پیوتن نے سنیچر کے روز کہا ہے کہ ‘ایسا کوئی اقدام اُس ملک کی جانب سے اس مسلح جنگ میں شرکت کے مترادف سمجھا جائے گا’۔
مغرب کی جانب سے روس کے خلاف پابندیاں عائد کیے جانے کے بارے میں انہوں نے کہا ‘یہ اعلان جنگ کے مترادف ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا’۔
دوسری جانب مسٹر زیلنسکی نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ براہ راست کارروائی ‘ نیٹو کے خلاف روس کی براہ راست جارحیت کو اکسا سکتی ہے’۔
صدر زیلنسکی نے کہا یہ دلیل ڈر اور اعتماد کی کمی کی مظہر ہے۔ صدر زیلنسکی نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں ہر کوئی آزادی کے لیے جہدوجہد کو اپنا اولین مقصد نہیں سمجھتا ہے’۔
نو فلائی زون قائم کرنے سے روس کے ساتھ سیدھے محاذ آرائی کا خطرہ ہے
شدید غصے میں مسٹر زیلینسکی نے مزید کہا۔ ‘آج کے بعد جو بھی لوگ ہلاک ہونگے انکی موت کی وجہ آپ ، آپکی کمزوری اورآپکا متحد نہ ہونا ہوگا’۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل یان سٹولٹنبرگ نےجمعہ کے روز خبردار کیا تھا کہ یوکرین پر نو فلائی زون قائم کرنے سے یورپ میں مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے جس میں کئی ممالک شامل ہو جائیں گے اور بے شمار ہلاکتیں ہونگی۔
ادھر جمعہ کو امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے بھی یوکرین پر نو فلائی زون بنانے کی امکان کو رد کرتے ہبوئے کہا کہ اس سے پورے یورپ میں بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ جائے گی اور بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہو گا۔انہوں نے بھی نو فلائی زون کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے بی بی سی سے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ یوکرین روس کے خلاف جنگ جیت سکتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ جنگ کتنا عرصہ چلے گی لیکن روس یوکرین کے لوگوں کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا ہے جو اپنی آزادی اور اپنے مستقبل کے لیے لڑ رہے ہیں’۔
یوکرین پر روس کا حملہ 10ویں دن میں داخل ہو رہا ہے ماسکو کی افواج نے کئی شہروں پر شدید گولہ باری جاری رکھی ہے۔
جنوب مشرقی بندرگاہی شہر ماریوپول میں، شہر کے میئر نے کہا ہے کہ روسی افواج کے کئی دنوں کے ‘پے درپے’ حملوں کے بعد وہاں کے لوگ ‘ناکہ بندی’میں ہیں جس نے شہر کی 450,00 کی بڑی آبادی کے لیے بجلی اور پانی بند کر دیا ہے۔
ودیم بائیو شینکو نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر لکھا کہ ‘شہر تباہ ہو رہا ہے’ اور کہا کہ حکام ‘جنگ بندی کے قیام کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ ہم اہم بنیادی ڈھانچے کو بحال کر سکیں اور شہر میں خوراک اور ادویات لانے کے لیے ایک انسانی راہداری قائم کر سکیں’۔
روسی طیارہ پچھلے ایک ہفتے سے شہر پر گولہ بای کر رہے ہیں
دارالحکومت کیئو کی جانب سے بڑھنے والے 40 میلوں پر پھیلا ہوا یک بڑا قافلہ شہر کے باہر رکا ہوا ہے، لیکن یوکرین کا دارالحکومت نئے سرے سے حملے کی زد میں آ گیا ہے شہر کے مرکز میں شدید گولہ باری کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔
شمال مشرقی شہر سومی میں ہفتے کے روز تازہ لڑائی اور یوکرین کے دوسرے شہر خارخیو میں ایک میٹرو سٹیشن کے اوپر، جہاں شہر کے رہائشی گولہ باری سے پناہ لیے ہوئے ہیں، راکٹ حملوں کی بھی غیر مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے خبردار کیا ہے کہ روسی فوجی یوکرین کی دوسری سب سے بڑی جوہری تنصیب کے 20 میل اندر پیش قدمی کر چکے ہیں۔
انکا یہ بیان نیوکلیئر پاور پلانٹ پر جمعے کے حملے کے بعد آیا، جس میں ان کے بقول روس کے حملے میں ایک ‘خطرناک شدت’ کی عکاسی ہوتی ہے۔ ماسکو کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے ان رپورٹس کو مسترد کر دیا کہ روسی فوجیوں نے پلانٹ پر حملہ کیا ہے انہوں نے اسے ‘جھوٹ’اور ‘غلط معلومات’ قرار دیا ہے۔
دریں اثنا، روس میں صدر ولادیمیر پیوتن کے دستخط شدہ ایک نئے قانون کے تحت یوکرین کی جنگ کے بارے میں ‘جعلی خبریں’ پھیلانے کے الزام میں 15 سال تک قید کی سزا دی جائے گی جس کے بعد بی بی سی سمیت کئی مغربی ذرائع ابلاغ نے روس میں اپنی کارروائیاں معطل کر دی ہیں۔
بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے کہا کہ قانون سازی روس میں ‘آزاد صحافت کے عمل کو جرم قرار دینے کے مترادف ہے’۔ جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ وہ روس میں اپنے نامہ نگاروں کے لکھے ہوئے آرٹیکلز سے بائی لائنز کو ہٹا دے گا۔
دریں اثنا، مسٹر زیلنسکی نے یورپ کے کئی شہروں میں یوکرین کی حمایت میں متعدد ریلیوں سے خطاب کیا۔جن میں چیک کے دارالحکومت پراگ اور جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مظاہرین کو خبردار کیا ‘اگر یوکرین نہیں بچتا تو پورا یورپ نہیں بچ سکے گا’۔
لیکن سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں تقریباً چار ہزار افراد نے روس کی حمایت میں ریلی کی۔
مظاہرین نے سربیا اور روس کے قومی ترانے گائے اور روسی پرچم اور صدر ولادیمیر پیوتن کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
دوسری طرف اس علامت کے طور پر کہ مغربی پابندیوں کا واضح اثر ہونا شروع ہو رہا ہے اطالوی پولیس نے روس کے دو امیر ترین اولیگارکوں کی کشتیاں ضبط کر لیں ہیں۔
حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا شمالی بندرگاہ امپیریا میں صدر ولادیمیر پیوتن کے قریبی اتحادی اور روس کے امیر ترین شخص الیکسی مورداشوف کی 27 ملین ڈالر مالیت کی لگزری کشتی قبضے میں لے لی گئی۔
حکام نے بتایا کہ پیوتن سے قریبی تعلقات رکھنے والے ایک اور اولیگارگ گیناڈی ٹمچینکو کی ایک اور کشتی امپیریا میں ضبط کر لی گئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق مورداشوف کے اثاثے 29 ارب ڈالر کی مالیت کے ہیں اور انہوں نے اپنی دولت سٹیل بنانے والی روسی کمپنی سیورسٹال سے بنائی، جبکہ ٹمچینکو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تقریباً 17 ارب ڈالر کے اثاثے رکھتے ہیں اور انہوں نے تیل کے کاروبار سے اپنی دولت کمائی۔
Comments are closed.