- مصنف, عمران قریشی اور نیاز فاروقی
- عہدہ, بی بی سی ہندی
- 41 منٹ قبل
انڈیا میں کچھ خاندانوں کا کہنا ہے کہ متعدد نوجوانوں کو ایجنٹوں نے ’ہیلپر‘ کی نوکری کے ’دھوکے‘ سے یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ میں روسی افواج کے ہمراہ لڑنے کے لیے بھیج دیا ہے جس کی وجہ سے پریشان خاندانوں نے وفاقی حکومت سے انھیں انڈیا واپس لانے میں مدد کی اپیل کی ہے۔میبنہ طور پر 20 اور 32 سال کی عمر کے درمیان کے ان افراد کو روسی ملٹری میں ’سکیورٹی ہیلپر‘ کے طور پر نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن روس پہنچنے پر مبینہ طور پر انھیں جنگی ’تربیت‘ کے لیے میدان جنگ میں بھیجا گیا اور چند ایک کو محاذ پر بھی تعینات کیا گیا ہے۔متعدد ذرائع نے بتایا ہے کہ روسی فوج میں بھرتی ہونے والے انڈین افراد کی تعداد کم از کم ایک درجن ہے لیکن روسی وزارتِ دفاع کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے انڈیا کے ’دی ہندو‘ اخبار نے اطلاع دی ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران یہ تعداد 100 کے قریب ہے۔اس اخبار نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے کم از کم ایک شخص ہیمل اشون بھائی حال ہی میں فائر کرنے کی مشق کے دوران ایک میزائل حملے میں ہلاک ہو گئے۔
روس اور یوکرین سرحد پر اسی علاقے میں تعینات ایک انڈین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہیمل کی موت کی خبر کی تصدیق کی ہے۔
پہلی بار جنگی محاظ پر انڈینز کی موجودگی
ہیمل کے والد نے 23 فروری کو بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہیمل کی ان سے تین روز پہلے بات ہوئی تھی۔ہیمل نے انھیں بتایا تھا کہ وہ روس سے یوکرین کی پرانی سرحد کے تقریباً 20 کلومیٹر اندر تعینات ہیں لیکن وہاں فون نیٹ ورک نہیں ہے اس لیے جب وہ بنیادی ضروریات کے لیے قریبی بازاروں میں چند دنوں کے بعد خریداری کے لیے نکلتے ہیں تب گھر فون کرتے ہیں۔انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے تسلیم کیا ہے کہ ’کچھ انڈینز نے روسی فوج میں ’سپورٹ جاب‘ کے لیے سائن اپ کیا ہے‘ اور حکومت انھیں واپس لانے کے لیے کام کر رہی ہے اور کہا کہ لوگ احتیاط برتیں اور اس تنازع سے دور رہیں۔بی بی سی نے دہلی میں روسی سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ انڈین وزارتِ خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ کچھ انڈین شہری روسی فوج میں معاون کردار کے لیے بھرتی ہوئے ہیں۔’ماسکو میں انڈین سفارت خانے کے علم میں آنے والے ہر معاملے کو روسی حکام کے ساتھ سختی سے اٹھایا گیا ہے اور وزارت کے علم میں آنے والے معاملوں کے بارے میں نئی دہلی میں روسی سفارت خانے کے ساتھ بات کی گئی ہے۔‘وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ اس کے نتیجے میں کئی انڈینز کو پہلے ہی واپس بھیج دیا گیا ہے۔حالانکہ مبینہ طور پر کچھ انڈینز 2022 میں یوکرین میں روسی افواج کے خلاف بین الاقوامی لشکر میں رضاکارانہ طور پر شامل ہوئے تھے لیکن روس کے طرف سے جنگی محاظ پر انڈینز کی موجودگی کی اطلاع پہلی بار ملی ہے۔انڈین باشندوں کی روسی فوج میں ملازمت کی خبر اس وقت سامنے آئی جب انڈیا کے شہر حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے 23 جنوری کو وزارت خارجہ کو ایک خط لکھا، جس میں روس سے ان انڈین باشندوں کو واپس گھر لانے میں حکومت سے مداخلت کی درخواست کی گئی تھی۔روسی فوج میں نوکری کرنے کے لیے روس گئے افراد اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہاں بھیجنے کے لیے ایجنٹس نے ان سے تین لاکھ روپے وصول کیے اور وعدہ کیا کہ انھیں فوج میں چند ماہ کی فوجی سروس کے بعد روسی پاسپورٹ مل جائے گا۔ریاست کرناٹک میں ٹھیلے پر چائے اور انڈے فروخت کرنے والے ان کے والد نے فون پر روتے ہوئے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’میرا 28 سالہ بیٹا دبئی میں ایک پیکیجنگ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ انھوں نے اپنے تین دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ایجنٹ کی ویڈیو دیکھی جس میں روس میں ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی جس میں ان کی موجودہ کمائی 35 سے 40 ہزار روپے کے مقابلے میں 90 ہزار سے ایک لاکھ روپے تھی۔ انھوں نے ایجنٹ کو قرض کے ذریعے تین لاکھ روپے ادا کیے۔‘ان کی کہانی تلنگانہ، گجرات، کشمیر، مغربی بنگال اور اتر پردیش کی ریاستوں کے دیگر لوگوں کی کہانیوں کی عکاسی کرتی ہے، جنھیں مبینہ طور پر دھوکہ دیا گیا تھا۔ صرف ایک شخص ماسکو سے فرار ہو کر گھر واپس آیا ہے۔
’ہر دن امتحان بن گیا ہے‘
بی بی سی نے ایک انڈین سے بات کی جو سرحد سے فرار ہو کر روس کے ایک شہری علاقے میں چھپے ہیں۔ بی بی سی نے روس جانے والے کم از کم چھ انڈین شہریوں کے اہل خانہ سے بھی بات کی۔روس میں موجود ایک انڈین نے بتایا ان کے ہم وطن اور چند نیپالی، مصری اور کیوبن شہریوں کے ساتھ جنگ زدہ علاقے میں ’پھنسے‘ ہوئے ہیں۔ انھوں نے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر دن ان کے لیے امتحان بن گیا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ وہ آرمی ٹرینینگ کے دوران زخمی ہوگئے۔ انھوں نے بتایا کہ ’میرا کمانڈر کبھی کہتا تھا کہ دائیں ہاتھ سے گولی چلاؤ، کبھی کہتا تھا کہ بائیں ہاتھ سے چلاؤ، اوپر گولی چلاؤ، نیچے گولی چلاؤ‘۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں نے کبھی بندوق کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ اس وقت انتہائی سردی تھی اور اس دوران میں نے غلطی سے بائیں ہاتھ سے اپنے پاؤں پر ہی گولی چلا دی۔ گولی میرے جوتے سے نکلتے ہوئے میرے پاؤں کو زخمی کر دیا‘۔روس میں چھپے ہوئے انڈین شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے ’فروسٹ بائیٹ‘ ہو گیا تھا اور میں چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔ میں ذہنی صدمے میں بھی تھا‘۔روسی فوج میں شامل انڈینس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ایسے علاقوں میں تعینات ہیں جہاں موبائل نیٹ ورک محدود ہے اور اکثر اوقات فوج ٹریس ہونے سے پچنے کے لیے ان سے فون جمع کرا لیتی ہے۔لیکن اس کے باوجود روس میں مبینہ طور پر سرحد پر تعینات کچھ متاثرین کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں۔
’روسی زبان میں معاہدے پر دستخط کروائے گئے‘
فوج کی وردی میں ملبوس اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک انڈین نے ایک ویڈیو پیغام میں کہتے ہیں، ’بابا وی لاگ [یو ٹیوب پر ایک انڈین کا چینل] کے نام سے ایک شخص کے ویڈیو میں ہم سے ایک لاکھ روپے تنخواہ کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جب ہم ماسکو پہنچے تو ہم سے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جو روسی زبان میں لکھا گیا تھا۔ ہمیں یہاں فوجی بنا کر جنگ لڑنے کے لیے بھیجا گیا۔ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے‘۔روس میں موجود دیگر انڈینز اور انڈیا میں ان کے اہل خانہ بھی یہ الزامات دہراتے ہیں کہ انھیں روسی زبان نہیں آتی تھی اور انھیں دھوکے سے معاہدے پر دستخط کرایا گیا۔زیادہ تر متاثرین جو اپنے الزامات لے کر آگے آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یو ٹیوب پر ’بابا وی لوگ‘ کے انتظامیہ نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ انڈینز کو روس بھیجنے کے لیے دوسرے ایجنٹ بھی سرگرم ہیں، جن میں ایک نیوزی لینڈ میں مقیم ہے اور ایک نیوز پیج کے نام سے ویڈیو بلاگ چلاتا ہے اور اس کا راجستھان میں کم از کم ایک ایجنٹ سر گرم ہے۔ متاثرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بابا وی لاگ دبئی میں مقیم فیصل نامی ایک انڈین شہری چلاتا ہے اور ماسکو میں بھی اس کے ساتھی ہیں جن کے نام معین، رمیش اور نائجیل ہیں۔ لیکن وہ واپس آنے کے خوہش مند افراد کی مدد کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔بی بی سی نے ’بابا وی لوگ‘ سے رابطہ کرنے کی متعدد کوشش کی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔انھوں اس ویڈیوز میں اپنا زخمی دایاں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں ’میری دو ساتھی اب بھی فرنٹ لائن پر موجود ہیں۔ میں بھاگ آیا ہوں اور میں اس جگہ پر رکا ہوں‘۔اس ویڈیو میں وہ اپیل کرتے ہیں کہ ’براہ کرم ہمیں اس جگہ سے نکالیں۔ ورنہ وہ ہمیں محاذ پر بھیج دیں گے۔ ہر طرف گولی باری اور ڈرون گر رہے ہیں۔ ہمارے پاس جنگ لڑنے کا تجربہ نہیں ہے۔ ایجنٹوں نے ہمیں پھنسا دیا ہے‘۔بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے تصدیق کی کہ انھوں نے زخمی ہونے کے بعد محاذ سے فرار ہونے کے بعد مدد کے لیے 25 جنوری کے قریب یہ ویڈیو اپیل جاری کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ماریوپول کے آس پاس تعینات تھے، جہاں 22 جنوری کو ان کی ملاقات دو دیگر انڈینز سے ہوئی تھی اور وہ دونوں زخمی تھے۔ ان دونوں زخمی انڈینز کے اہل خانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ یکم جنوری سے ان سے کسی بھی طرح کے رابطے میں نہیں ہیں۔
’ہم ایک ایجنٹ کے دھوکے کا شکار ہوئے ہیں
اطلاعات کے مطابق روس میں زخمی ہونے والے ایک انڈین نوجوان کے بھائی نے بتایا کہ وہ حیدرآباد میں کام کر کرتے تھے لیکن آسٹریلیا یا کینیڈا جانے کے مواقع تلاش کر رہے تھے۔ اسی سلسلے میں ’آئی ای ایل ٹی ایس‘ کا امتحان بھی دیا تھا لیکن کامیاب نہ ہونے کی صورت میں آخرکار روس جانے کا فیصلہ کیا۔دوسرے نوجوان کے بھائی کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ان کی منگنی ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے بابا بلاگر اور اس کی ٹیم سے رابطہ کیا اور جوابات مانگا تو انھوں نے ان کا نمبر بلاک کر دیا۔ایک اور ویڈیو پیغام میں کرناٹک سے تعلق رکھنے والے انڈین نے بتایا ’اس نے (ایجنٹ) ہمیں بتایا کہ ہمارا کام ایک ’سکیورٹی مین‘ کا ہے۔ روس آنے کے بعد اس نے ہمیں فوج میں ڈال دیا۔ ہم چار دوست ہیں جو دبئی میں ملے تھے‘۔وہ ویڈیوز میں مزید کہتے ہیں کہ ’ہم ایک ایجنٹ کے دھوکے کا شکار ہوئے ہیں۔ ایجنٹ نے بتایا تھا کہ ہمیں صرف ٹریننگ کے لیے بھیجا جا رہا ہے اور ہمیں فرنٹ لائن پر نہیں لے جایا جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے دیگر دوست کہاں ہے‘۔ان کے انڈیا مںی موجود بھائی کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ آیا وہ ویگنر کی نجی فوج میں ہیں یا روسی فوج میں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ یوکرین کی سحرد کے قریب ہیں۔ ان سے تین ماہ بعد روسی شہریت کا وعدہ کیا گیا ہے‘۔ہیمل کی موت کی تصدیق کرنے والے شخص نے روس اور یوکرین کی سرحد پر پھنسے ہوئے دوسرے انڈینز اور خود کو بچانے کے لیے اپیل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس انتظار کے ایک دن میں بھی یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے‘۔وہ بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھ پھنسا دوسرا انڈین بھی زخمی ہے۔
’فیملی کو کچھ نہیں بتایا تھا کہ میں کس حال سے گزر رہا ہوں‘
زیادہ تر متاثرین کے برعکس گجرات کے احمد آباد سے تعلق رکھنے والا شیخ محمد طاہر فرار ہو کر انڈیا آنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جنگی تربیت اور محاظ پر تعیناتی سے بچنے کے لیے رشوت دے کر اپنے کیمپ سے اس وقت فرار ہو گئے جب مقامی لوگ کرسمس میں مصروف تھے۔انھوں نے بتایا کہ انھیں ماسکو سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ریازان میں ایک کمپلیکس میں رکھا گیا تھا جہاں نیپال اور دیگر ممالک کے زخمی فوجی بھی موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی حالت دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور اپنے ایجنٹ کو کال کیا لیکن اس نے دلاسہ دیا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ محفوظ رہیں گے۔لیکن جب طاہر نے دوسروں سے مزید پوچھ گچھ کی تو ان کے ایجنٹ کے دعوے جھوٹے نظر آئے۔ وہ کہتے ہیں ’میں وہاں تعینات روسی کمانڈر سے ملا اور گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے ان سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔‘اسی دوران ایک دیگر انڈین کی کیمپ سے فرار ہونے کی خبر آئی تھی۔ کمانڈر نے طاہر کو بتایا کہ فرار ہونے والا شخص اگر پکڑا گیا تو یا تو اسے فوج میں ملازمت کرنی پڑے گی یا جیل بھیج دیا جائے گا۔ (یہ واضح نہیں ہے کہ وہ شخص فی الحال روس میں ہیں یا انڈیا واپس آنے میں کامیاب ہو گئے ہیں)۔خوفزدہ ہو کر طاہر نے روسی سرحد پر تعینات انڈینس سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی طرح سے آگے نہ آئیں۔انھوں نے کہا ’وہاں سے بھاگو اور نکل کر ہماری مدد کرنے کی کوشش کرو‘۔طاہر نے باہر نکلنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے یوٹیوب کی جانب رخ کیا، جہاں ان کا پٹھان نام سے ایک انڈین ویڈیو بلاگر سے رابطہ ہوا جو کہ روس میں مقیم ہیں۔ وہ روسی زبان جانتے ہیں اور انھوں نے طاہر کو کیمپ سے باہر نکلنے اور پھر انڈیا واپس آنے میں مدد کی۔دسمبر میں شروع ہوا ان کا یہ خوفناک خواب گذشتہ ہفتہ ختم ہوا جب وہ دہلی ہوائی اڈے پر اترے۔ وہ کہتے ہیں ’اس وقت تک میں نے اپنی فیملی کو کچھ نہیں بتایا تھا کہ میں کس حال سے گزر رہا ہوں۔ وہاں سرحد پر تعینات سبھی برے حال میں ہیں اور انھیں مدد کی ضرورت ہے۔‘انڈیا کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما ملکارجن کھرگے نے الزام عائد کیا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران تقریبا 100 انڈینز کو روسی فوج میں بطور مددگار بھرتی کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ کو روس اور یوکرین کی سرحد پر روسی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ کچھ مزدوروں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے پاسپورٹ اور دستاویزات ضبط کر لیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پھنس گئے ہیں اور وہ گھر لوٹنے کے قابل نہیں ہیں۔‘جب 2022 میں روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تھی، تو کچھ انڈین باشندوں کی یوکرین کی فوج میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے کی کچھ اطلاعات تھیں۔ لیکن پہلی بار روسی فوج میں انڈین شہریوں کے لڑنے کی کی اطلاع ملی ہے۔ بی بی سی نے روس میں مقیم ایک انڈین شہری سے بھی بات کی جو یوکرین کی سرحد کے قریب خدمات انجام دے رہا تھا اور اب فوج میں نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کا تجربہ یہ تھا کہ روسی فوج شفاف تھی اور اپنے معاہدوں کو آن لائن شیئر کرتی تھی۔ لیکن انھوں نے مزید کہا کہ جو لوگ روسی زبان کو نہیں جانتے تھے انھیں ایجنٹوں کے ذریعے دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.