سامعہ حسن: تنزانیہ نئی صدر کی قیادت میں نئی راہ پر گامزن
- مرسی جمعہ
- بی بی سی نیوز، نیروبی
ان کے پیش رو صدر اپنی بیان بازی کے لیے جانے جاتے تھے جبکہ تنزانیہ کی نئی صدر سنجیدہ اور متین طبیعت کی ہیں۔
جہاں پیش رو صدر متنازعہ تھے وہیں نئی صدر سامعہ صلوحو حسن زیادہ صلح جو ہیں۔
جہاں پہلے والے صدر مطلق العنان تھے، وہیں نئی صدر سب کو ساتھ لے کر چلنے والی نظر آتی ہیں۔
61 سالہ سابق صدر جان میگوفلی کی وفات کو ابھی دو ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزرا ہے لیکن ان کی نائب صدر جنھوں نے ان کی وفات کے فورا بعد ہی ریاست کی صدر کے طور پر حلف لیا تھا وہ ایک مختلف راہ پر گامزن ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
چاہے کورونا وائرس کے بارے میں نقطہ نظر ہو، میڈیا کی آزادی کا سوال ہو یا حزب اختلاف سے نمٹنے کی بات ہو سامعہ کا اپنا ایک لہجہ ہے اور وہ اپنے بیانات پرسکون انداز میں دیتی ہیں۔
مارچ میں اپنے پیشرو کی وفات کے دو دن بعد صدر سامعہ نے حلف لیا تھا
حلف برداری کے ایک ماہ بعد انھوں نے اراکین پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ‘میگوفلی اور سامعہ بنیادی طور پر ایک ہی ہیں۔ میں اس مباحثے کو دیکھ رہی ہوں، اور مجھے یہ ضرور کہنا چاہیے کہ یہ ہمارے ملک کے لیے صحت بخش نہیں ہے۔’
لیکن صحافی اور سیاسی مبصر جیسی کوایو کا کہنا ہے کہ ‘موازنہ نہ کرنا تقریباً ناممکن ہے’ کیونکہ ان دونوں میں بڑا تضاد ہے۔
‘وہ۔۔۔ سمجھ دار ہیں اور جب بات کرنے کے لیے آتی ہیں تو اس کے لیے بہت تیاری کرتی ہیں اور تفصیلات پرتوجہ دیتی ہیں۔ وہ۔۔۔ بات چیت اور اصلاح کے طور طریقوں کو سمجھتی ہیں۔’
پہلی بار جب وہ صدر کی حیثیت سے خطاب کرنے آئیں تو ان کی شخصیت، ان کے الفاظ کے انتخاب اور انداز نے ایک بالکل مختلف قسم کی قیادت کا عندیہ دیا۔ یہ وہ چیز تھی جس کا سنہ 2015 سے تنزانیہ والوں نے تجربہ نہیں کیا تھا جب ‘بلڈوزر’ کے عرفی نام سے جانے جانے والے میگوفلی اقتدار میں آئے تھے۔
جمہوری میڈیا لمیٹڈ کے منیجنگ ایڈیٹر دیوداتس بیلیلے نے انھیں سفارتکار کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘جہاں دوسرے لوگ ہکلاتے، وہ بولڈ اعلانات کر رہی ہیں۔
‘انھیں احساس ہے کہ تنزانی باشندے تقسیم ہو کر نہیں رہ سکتے اور ہمیں ایک نظام کا حصہ بننا ہوگا اور بعض امور کو وہ عالمی امور کے حصے کے طور پر دیکھتی ہیں۔’
شاید کووڈ 19 کے متعلق ان دونوں کے نظریات میں سب سے بڑا تضاد ہے۔
ویکسین اور لاکڈاؤن؟
میگوفلی نے کورونا وائرس سے متعلق وارننگ کا مذاق اڑایا تھا اور اس کے خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے کووڈ 19 کی ویکسین کو ملک میں لگائے جانے سے انکار کردیا تھا۔ ایک بار تو انھوں نے اعلان کیا کہ تنزانیہ میں دعاؤں کے ذریعہ وائرس کو شکست دے دی گئی ہے۔
میگوفلی کے دور میں تنزانیہ والوں کو حکام کی جانب سے بغیر ثبوت فراہم کیے بتایا گیا کہ بھاپ میں سانس لینے سے کورونا وائرس سے بچانے میں مدد ملتی ہے
تنزانیہ میں وائرس کے انفیکشن یا اس سے ہونے والی اموات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کیوں کہ میگوفلی کی حکومت نے پچھلے سال مئی میں انھیں جاری کرنا بند کردیا تھا۔
دوسری طرف صدر سامعہ نے اعتراف کیا ہے کہ تنزانیہ کے لیے اب اس وائرس کا خاتمہ ضروری۔
اقتدار میں آنے کے تین ہفتوں کے اندر ہی انھوں نے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جو انھیں ملک میں کووڈ 19 کی صورت حال اور لوگوں کو محفوظ رکھنے کے ضروری اقدامات کے بارے میں مشورے دینے کے لیے بنائی گئی ہے۔
یہاں تک کہ انھیں ماسک پہنے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے جیسا کہ میگوفلی نے کبھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب وہ تنزانیہ کے بجائے یوگینڈا کے دورے پر تھے تو بھی انھوں نے ماسک نہیں پہنا تھا۔
بہر حال ان کے اعلانات سے کووڈ 19 کے متعلق لوگوں کے تاثرات میں کوئی بڑا فرق پڑا ہے کہ نہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ ابھی تک ماہرین کی کمیٹی سے کوئی نئی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔
دنیا بھر میں اس بیماری کی نئی اقسام کی اطلاع ملنے کے بعد لوگ ویکسین کے بارے میں ان کے خیلات کو جاننے کے خواہاں ہیں۔ لوگ اس بات کا بھی انتظار کر رہے ہیں کہ آیا وہ اس وائرس پر قابو پانے کے طریقوں کے طور پر لاک ڈاؤن اور کرفیو کے نفاذ پر غور کریں گی جسے ان کے پیشرو نے مسترد کردیا تھا۔
اس طرح کے اقدامات سے لاکھوں غریب تنزانی باشندے بھی متاثر ہوں گے جن میں غیر رسمی تاجر بھی شامل ہیں جو حکمراں جماعت چما چا میپنڈوزی کے حمایت کی بنیاد ہیں۔
اگر وہ اس راستے پر گامزن ہونے جارہی ہیں تو پھر صدر سامعہ کو یہ لوگوں کو قائل کرنے کے لیے اپنی خصوصیات کو سامنے لانے کی ضرورت ہوگی کہ یہ اقدامات ان کے مفادات میں ہیں۔
سامعہ سلوہو 2015 میں جان مگولفی کے ساتھ نائب صدر منتخب ہوئی تھیں
صدر سامعہ پہلی بار سنہ 2014 میں اس وقت توجہ کا مرکز بنیں جب وہ آئین ساز اسمبلی کی نائب چیئرپرسن کے طور پر منتخب ہوئیں جسے آئین کا مسودہ تیار کرنے کا کام دیا گیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ ‘ایک بہت ہی سمجھدار رہنما کے طور پر ابھریں جو مخالف آوازوں اور آراء کو متوازن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.’
مختلف رائے کو سننے کے لیے ان کی آمادگی نے میڈیا میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا ہے۔
مييگوفلی کی حکومت میڈیا کے اداروں کو بند کرنے کی ذمہ دار تھی اور اس پر صحافیوں کو ہراساں کرنے اور انھیں قید کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ کچھ سیاست دانوں اور کارکنوں کو، جنھوں نے عوامی طور پر میگولفی کی مخالفت کی، انھیں بھی حراست میں لیا گیا تھا۔
لیکن صدر سامعہ کو عوامی بحث کا پھر سے آغاز کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔
برگ زیتون یعنی حزبِ اختلاف سے بھی دوستی
انھوں نے وزارت اطلاعات کو سابقہ فیصلوں کو مسترد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے لیے ’لوگوں کو یہ کہنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے کہ ہم پریس کی آزادی کو محدود کر رہے ہیں۔‘
صدر نے حزبِ اختلاف سے بھی تبادلہ خیال کیا کہ ’ملک کے مفاد میں وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں کس طرح بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔‘
سنہ 2017 سے لوگوں کا خیال ہے ہے کہ وہ مخالفین کی جانب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں۔ اس وقت وہ اپوزیشن لیڈر ٹنڈو لسو کو ہسپتال میں ملنے گئی تھیں جن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا اور انھیں کئی گولیاں لگیں تھیں۔ وہ ایسا کرنے والی واحد سرکاری اہلکار تھیں۔
یہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ صدر سامعہ ملک میں بین الاقوامی کمپنیوں کے بارے میں میگوفلی سے کم جارحانہ موقف اختیار کریں گی۔
سنہ 2017 میں کینیڈا کی بارک گولڈ کی ذیلی کمپنی، اکاسیہ مائننگ کو حکومت کی جانب سے رائلٹی پر ایک ناقابل یقین 190 ارب ڈالر ٹیکس کا بل تھما دیا گیا تھا اگرچہ کمپنی نے کسی بھی غلطی کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔ بعد میں حکومت کے ساتھ سمجھوتے کے نتیجے میں بارک گولڈ اس بل کو کم کرنے میں کامیاب رہا، جس میں مستقبل کے معاشی فوائد کو مساوی انداز میں بانٹنا بھی شامل ہے۔
ميگوفلی نے علاقائی کاروبار کو تنزانیہ کی مارکیٹ تک رسائی سے بھی روک دیا تھا اور کینیا جیسے ممالک سے خام مال کے آنے جانے پر بھی پابندی عائد کردی۔
سی ای او فورم کے سربراہ سنجے روگھانی کہتے ہیں کہ ’ان (سامعہ) کا لہجہ اب تک سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کا ہے۔
’جہاں تک نجی شعبے کی بات ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں حکومت کے اس عمل میں مزید شامل کریں گی جس کا مقصد تنزانیہ کی ترقی ہے۔‘
صدر سامعہ منگل کے روز اپنے سات ہفتے کے اقتدار میں کینیا کا اپنا دوسرا بین الاقوامی سفر کریں گی۔ اگر اس کا موازنہ میگوفلی کے چھ سالوں میں کیے گئے دس سرکاری دوروں سے کیا جائے تو جیسی کوایو پُر امید ہیں کہ نئی صدر کو زیادہ چیلینجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’مجھے یقین ہے کہ تنزانیہ کو عالمی نقشے پر واپس لایا جائے گا۔ اسے تنازعات کے حل میں شامل کیا جائے گا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسی جگہوں پر اسے اچھی نمائندگی ملے گی۔‘
صدر سامعہ کو اب بھی پچھلی حکومت والے راستے پر چلنا ہے اور وہ خود بھی اس کا حصہ رہی ہیں۔ لیکن اب وہ ایک نئی طرز کا نظم و نسق لا رہی ہیں جس میں ہر طرح کی آرا کو قبول کیے جانے کی امید ہے۔
Comments are closed.