گیلین میکسویل: نوعمر لڑکیوں کی جسم فروشی اور انسانی سمگلنگ میں ملوث خاتون عیش و عشرت سے جیل تک کیسے پہنچیں؟
- جان کیلی
- بی بی سی نیوز
گیلین میکسویل کو نوعمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے تیار کرنے اور ان کی انسانی سمگنگ اور اس کی سہولت کاری کے الزامات میں مجرم پایا گیا ہے۔ ان لڑکیوں کا بعد میں امریکی کاروباری شخصیت جیفری ایپسٹین نے جنسی استحصال کیا تھا، جو خود پکڑے جانے کے بعد جیل میں مردہ پائے گئے تھے۔
ساٹھ سالہ میکسویل کو چھ میں سے پانچ الزامات پر مجرم پایا گیا جن میں انتہائی سنگین الزامات بھی تھے، جیسے نوعمر بچوں کی جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ۔
یہ فیصلہ نیو یارک میں 12 افراد پر مشتمل جیوری نے پانچ دنوں کی مشاورت کے بعد سنایا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی مقبول شخصیت کو اپنی بقیہ زندگی جیل میں گزارنی پڑ سکتی ہے۔ ان کو سزا بعد میں سنائی جائے گی، تاہم ابھی تک تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔
بدھ کو جب ان کے خلاف فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو میکسویل کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی کوئی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے، انھوں نے اپنے پاس رکھا پانی کا گلاس بھرا اور اس سے دو مرتبہ گھونٹ لیے۔
اس فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد، ان کی قانونی ٹیم نے بتایا کہ وہ پہلے ہی اپیل پر کام کر رہے ہیں۔
ٹیریسا ہیلم نے، جو جیفری ایپسٹین پر الزام لگانے والوں میں سے ایک ہیں، ان خواتین کی تعریف کی جنھوں نے مقدمے کے دوران گواہیاں دیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج انصاف کی فتح ہوئی ہے۔ میں ان تمام بہادر، نڈر اور انصاف کے لیے کوشاں خواتین کی شکر گزار ہوں جنھوں نے اس نتیجے کے لیے جنگ لڑی۔
’گیلین میکسویل کے پاس آئندہ یہ موقع نہیں ہو گا کہ وہ کسی سے کچھ لے سکیں۔ وہ اب آزادی سے زندگی نہیں گزار پائیں گی۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
میکسویل کو کن جرائم میں سزا سنائی جا سکتی ہے؟
میکسویل کو درج ذیل جرائم میں سزا سنائی جا سکتی ہے۔
- نوعمر بچوں کی جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 40 سال قید ہے۔
- نوعمر بچے کی اس نیت سے منتقلی کے انھوں مجرمانہ جنسی عمل سے گزارا جائے گا، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 برس قید ہے۔
- نوعمر بچوں کی مجرمانہ جنسی عمل کے لیے منتقلی کی سازش جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔
- نوعمر بچوں کو غیرقانونی جنسی عمل کے لیے اکسانے کی سازش جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔
- نوعمر بچوں کی جسم فروشی کے لیے سمگلنگ کی سازش، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔
امریکی اٹارنی ڈیمین ولیمز نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور ان متاثرہ افراد کی بہادری کی تعریف کی۔ ایک بیان میں ان کی جانب سے کہا گیا کہ ’ایک متفقہ جیوری نے گلین میکسویل کو تاریخ کے بدترین جرم یعنی بچوں کے جنسی استحصال کے لیے سہولت فراہم کرنے اور اس میں شرکت کرنے پر مجرم پایا۔‘
گیلین میکسویل کون ہیں؟
گیلین میکسویل 1961 میں کرسمس کے دن پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کے تین روز بعد ان کے 15 سالہ بھائی مائیکل میکسویل کو ایک حادثہ پیش آیا جس کے بعد وہ اپنی زندگی کے باقی سات سال کوما میں رہے۔
حالانکہ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے والد رابرٹ میکسویل ایک نامی گرامی پبلشر تھے۔ تاہم ہر اعتبار سے گلین میکسویل کو ابتدائی سالوں میں جذباتی اعتبار سے نظرانداز کیا جاتا رہا۔ ان کی والدہ بیٹی نے بعد میں اپنی سوانح عمری میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ مائیکل کے حادثے کے بعد گیلین کو ان کے والدین کی جانب سے ’بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔‘
بیٹی کے مطابق 1965 میں ایک روز ان کی تین سالہ بیٹی گیلین ان کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی: ’ماں، یہاں میں بھی موجود ہوں۔‘ بیٹی کے مطابق گلین اس دوران انوریگسیا کا شکار بھی ہو گئی تھیں۔
ان کے والدین نے یہ کمی پوری کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو خوب لاڈ پیار دیا۔ تاہم اس کے باوجود وہ اپنے والد کے غصے اور سزاؤں سے نہ بچ سکیں جو وہ اپنے ہر بچے کو دیا کرتے تھے۔ تاہم وہ جلد ہی ان کے سب سے چہیتی بیٹی بن گئیں۔
بیٹی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ان کی پسندیدہ بیٹی جلد ہی ’بگڑ بھی گئی، یہ بات میں اپنے تمام بچوں میں سے صرف اسی کے بارے میں کہہ سکتی ہوں۔‘
اب جب ان کو مختلف سنگین الزامات میں مجرم پایا گیا ہے تو اس بات کی وجوہات ان کے نظرانداز کیے جانے والے بچپن میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔
گلین خاصی مشکل خاتون ہیں اور ان کے جرائم کی وجوہات بیان کرنا بہت مشکل ممکن کام ہے۔ حالانکہ ان کی زندگی خاصی حد تک عوامی نظروں کے سامنے گزری ہے لیکن اس کی تفصیلات پھر بھی واضح نہیں ہیں۔
لیکن شاید ان کے بچپن اور والد سے رشتے کے ذریعے ان کے بارے میں مزید تفصیلات ظاہر ہو سکیں۔ بطور کاروباری شخصیت رابرٹ میکسویل کی شہرت ایک بدتمیز شخص کی تھی۔ گھر پر وہ ایک ’سخت گیر والد‘ کے طور پر جانے جاتے تھے جو اپنے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے اور انھیں جسمانی اذیت بھی پہنچاتے تھے۔
ان کی سوانح عمری لکھنے والے جان پریسٹن لکھتے ہیں کہ رابرٹ اپنے تمام بچوں سے کھانے کی میز پر سخت سوالات کیا کرتے اور ان سے ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا کرتے اور اگر انھیں ان کی مرضی کا جواب نہ ملتا تو وہ انھیں رونے پر مجبور کر دیتے۔ رابرٹ کے ایک بیٹے ایئن پریٹسن کو بتاتے ہیں کہ ’وہ ہمیں بیلٹ سے مارا کرتے، بیٹیوں کو بھی۔‘
رابرٹ میکسویل کی طرح ایپسٹین بھی انتہائی مالدار شخص تھے، جو بروکلن کے ایک علاقے میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ رابرٹ میکسویل کی طرح ان کی زندگی کے اختتامی سال ذلت آمیز تھے اور وہ بھی بظاہر خودکشی کر کے ہلاک ہوئے۔
گلین کا ایپسٹین کے ساتھ رشتہ دونوں کے لیے ہی فائدہ مند تھا۔ وہ انھیں اپنے امیر اور طاقتور دوستوں سے ملواتی تھیں اور اس کے بدلے وہ ان کے پرتعیش طرز زندگی کے لیے رقوم فراہم کرتے تھے۔
ان دونوں کا رشتہ خاصا قریبی تھا اور مقدمے کے دوران دونوں کی ہم آہنگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وکلا نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ میکسویل ’جب ایپسٹین سے ملیں تو وہ بہت زیادہ مالدار نہیں تھیں۔‘
مقدمے کے دوران کیا ہوا؟
میکسویل جو ایک طویل عرصے سے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے ایپسٹین کی ساتھی رہی ہیں گذشتہ جولائی سے جیل میں ہیں۔
ایپسٹین نے سنہ 2019 میں جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ کے حوالے سے مقدمے کے دوران ہی خودکشی کر لی تھی۔
میکسویل کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا اور انھوں نے ایپسٹین کو طاقتور شخصیات جیسے بل کلنٹن اور شہزادہ اینڈریو سے بھی ملوایا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مہینے پر محیط اس مقدمے کے دوران میکسویل کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ انھیں ایپسٹین کے جرائم کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے جبکہ حکومتی وکلا کی جانب سے دونوں کو ’جرم میں شراکت دار‘ قرار دیا گیا جو ’استحصال کی ایک ایسی سکیم کا حصہ تھیں جس کا فائدہ جیفری ایپسٹین کو ہوتا تھا۔‘
چار خواتین نے مقدمے کے دوران گواہی دی۔ ان تمام خواتین کا کہنا تھا کہ انھیں 18 سال کی عمر سے قبل ایپسٹین کی جانب سے جنسی استحصال کا سامنا رہا اور میکسویل نے انھیں ایسا کرنے کے لیے اکسایا، سہولت فراہم کی اور یہاں تک اس میں شرکت بھی کی۔
صرف ایک خاتون اینی فارمر نے اپنا نام ظاہر کیا اور ان کے علاوہ تمام خواتین نے اپنی شناخت چھپائی ہے۔
اسسٹنٹ امریکی اٹارنی ایلیسن مو کا کہنا تھا کہ ’گلین میکسویل نے اپنے فیصلے خود سے کیے۔ انھوں نے یہ جرائم جیفری ایپسٹین کے ساتھ مل کر کیے۔ وہ ایک ادھیڑ عمر خاتون تھیں جنھیں معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔
میکسویل کو بروکلن میں میٹروپولیٹن حراستی مرکز میں رکھا گیا۔ جب وہ اپنے مقدمے کے آغاز کا انتظار کر رہی تھیں، بی بی سی کے ٹوڈے پروگرام سے بات کرتے ہوئے ان کے بھائی نے بتایا کہ انھیں چھ بائی نو فٹ کے سیل میں ایک کنکریٹ کا بستر دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ 24 گھنٹے مسلسل نگرانی میں ہیں، ان کے اردگرد 10 کیمرے ہیں جن میں سے ایک ایسا ہے جو ان کی حرکت کو ٹریک کرتا ہے۔ انھیں اپنے سیل کے کونے میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی اپنے سیل کے دروازے کے دو فٹ کے فاصلے پر آنے کی۔ اب یہی ان کی زندگی ہے۔‘
پیسے کی لالچ یا نفسیاتی مسائل؟
یہ ایک ایسی خاتون کا ذلت آمیز مقدر تھا جس نے اپنی تمام زندگی عیش و عشرت سے گزاری۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتی وکلا کے لیے یہ ایک چیلنج بن گیا کہ وہ ایسا جرائم کا ارتکاب کیوں کریں گی۔
وکلا کہتے ہیں کہ پیسہ ایک وجہ ضرور تھی۔ صحافی جان سوینی نے اس مقدمے کی تفصیلات ایک پاڈکاسٹ ہنٹنگ گلین میں جاننے کی کوشش کی ہیں اور اب اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ایک گہرا نفسیاتی پہلو بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو یہ معلوم نہیں ہو پائے گا کہ جیفری ایپسٹین کے ساتھ کیا ہوا جب تک آپ ان کے اپنے والد کے ساتھ رشتے کے بارے میں نہ جان لیں۔ سچ یہ ہے کہ گلین نے اپنے والد کو خوش کرنا سیکھا اور پھر انھیں ایک اور عفریت کو خوش کرنا تھا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی ایسا ہی کیا ہے۔‘
رابرٹ میکسویل اور جیفری ایپسٹین میں ایک اور مماثلت یہ بھی تھی کہ دونوں کو اپنے جرائم کی مکمل سزا نہ مل سکی اور گلین کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ انھیں ایپسٹین کے جرائم کے لیے قربانی کا بکرہ بنایا گیا ہے۔ ایک خاتون کو ان کے ساتھی کے گناہوں کی سزا ملنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم پیسٹرنک اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایپسٹین کو گلین کے بغیر اتنی تعداد میں نوجوان لڑکیوں تک رسائی ملتی۔‘
ایپسٹین کی وفات کے بعد میکسویل چھپ گئیں۔ اخبارات ان کے ٹھکانے کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کرتے رہے۔ ان کی لاس اینجلس کے ایک برگر جوائنٹ کے باہر لی گئی تصویر کو دنیا بھر میں اخبارات کے پہلے صفحات پر شائع کیا گیا۔ تاہم جولائی 2020 میں انھیں امریکی ریاست نیو ہیمپشائر سے ان کی بنگلے سے حراست میں لیا گیا۔
Comments are closed.