نوزائیدہ بچے کی بازیابی اور مسافر خواتین کا ’تفصیلی معائنہ‘: قطر ایئرلائن کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ کرنے کی کوشش ناکام،تصویر کا ذریعہQATAR AIRWAYS

  • مصنف, ٹفنی ٹرنبل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، سڈنی
  • ایک گھنٹہ قبل

آسٹریلیا کی پانچ خواتین، جنھیں تقریباً ساڑھے تین سال قبل قطر کے دوحہ ایئر پورٹ پر تفصیلی معائنے کا سامنا کرنا پڑا تھا، کو قطر ایئر لائن کیخلاف ہرجانے کا مقدمہ کرنے کی کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان پانچ خواتین سمیت دیگر خواتین کو 2020 میں اس وقت پروازوں سے اتار لیا گیا تھا جب ایئرپورٹ کی حدود سے ایک نوزائیدہ بچہ بازیاب ہوا تھا جس کے بعد ان خواتین کا تفصیلی معائنہ کیا گیا تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ ان میں سے کسی نے بچے کو جنم تو نہیں دیا۔آسٹریلیا کے چینل سیون کے مطابق ان خواتین کو ایئرپورٹ پر ہی ایک ایمبولینس میں لے جایا گیا جہاں انھیں زیرِ جامہ اتارنے کا کہا گیا جس کے بعد ان کا معائنہ کیا گیا۔تاہم اس واقعے کے بعد عوامی غصے نے جنم لیا اور متعدد ممالک نے اس طریقے سے خواتین کی تلاشی لیے جانے کی مذمت کی تھی۔

آسٹریلیا کی حکومت نے اس حوالے سے قطری حکام سے رابطہ کیا اور سڈنی جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے قبل خواتین کا ’اندرونی طبی معائنہ‘ کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔پانچ آسٹریلوی خواتین نے 2021 میں آسٹریلیا کی فیڈرل کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر جسم کو غیر قانونی طریقے سے چھونے اور غلط قید کے الزامات پر ہرجانے کا دعوی کیا گیا۔ ان خواتین کا دعویٰ تھا کہ اس تفصیلی تلاشی کے واقعے کے باعث ان کو ڈپریشن سمیت ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ اور نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے مسافر اس مقدمے کا حصہ نہیں تھے۔تاہم بدھ کے دن آسٹریلیا کی عدالت کے جج جان ہالے نے فیصلہ سنایا کہ قطر کی سرکاری فضائی کمپنی پر بین الاقوامی قوانین کے تحت ہرجانے کا مقدمہ نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے مونٹریال کنونشن نامی معاہدے کی جانب توجہ دلائی جس کے تحت کسی مسافر کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی صورت میں کسی فضائی کمپنی کی ذمہ داری کا تعین کیا جاتا ہے۔جج کا کہنا تھا کہ ایئر لائن کے عملے کو قطری پولیس کی کارروائی کے لیے ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا کیوںکہ خواتین کو پرواز سے پولیس نے اتارا۔ جج کے مطابق ایئر لائن کا عملہ ان نرسوں کے فعل کا ذمہ دار بھی نہیں جنھوں نے خواتین کا ایمبولنس میں تفصیلی معائنہ کیا۔تاہم جسٹس ہالے نے کہا کہ متاثرہ خواتین قطر ایئر لائن کی ایک ذیلی کمپنی ماتار کیخلاف مقدمہ کر سکتی ہیں جو دوحہ کے حماس انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو چلانے کا کنٹریکٹ رکھتی ہے۔ان خواتین نے اس سے قبل بی بی سی سے گفتگو میں بتایا تھا کہ انھوں نے تفصیلی جسمانی معائنے کی اجازت نہیں دی تھی اور ان کو یہ وضاحت نہیں فراہم کی گئی تھی کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنآسٹریلیا کی وزیر خارجہ ماریس پینے نے کہا تھا کہ 10 مختلف طیاروں میں خواتین کو تلاشی کا سامنا کرنا پڑا
برطانوی شہری مینڈی، جو ایک دادی بھی ہیں، نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’مجھے ایسا لگا جیسے میرا ریپ کیا گیا ہے۔‘ایک اور خاتون نے بتایا کہ ان کو ایسا لگا جیسے انھیں اغوا کر لیا گیا اور یرغمال رکھا گیا۔اس وقت قطری حکام نے بیان دیا تھا کہ نوزائیدہ بچے کا خیال رکھا جا رہا ہے جبکہ قطری وزیر اعظم خالد بن خلیفہ بن عبد العزیز ال تھانی نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا تھا کہ ’ہمیں خواتین مسافروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناقابل قبول سلوک پر افسوس ہے اور جو کچھ ہوا وہ قطر کے قوانین اور اقدار کی عکاسی نہیں کرتا۔‘قطری حکام نے واقعے پر معافی مانگتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت نے اس واقعے کی ’جامع اور شفاف تحقیقات‘ کی ہدایت کی ہے جس کے نتائج دوسرے ممالک کے ساتھ بھی شیئر کیے جائیں گے۔بیان کے مطابق نوزائیدہ بچہ ایک پلاسٹک کے تھیلے سے ملا تھا، جس کو کچرے کے نیچے دفن کیا گیا تھا، جس کے بعد والدین کو ڈھونڈنے کے لیے پروازوں سمیت آس پاس کی جگہ میں فوری تلاشی شروع کی گئی۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’فوری طور پر فیصلہ کن تلاشی کا مقصد اس خوفناک جرم کے مرتکب افراد کو فرار ہونے سے روکنا تھا لیکن اگر یہ کارروائی کسی بھی مسافر کی ذاتی آزادی کی خلاف ورزی یا تکلیف کا سبب بنی ہے تو قطر کی ریاست، اس کے لیے معافی مانگتی ہے۔‘اس وقت ایک مقدمہ بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں ایئر پورٹ کے ایک اہلکار کو قید کی سزا بھی ہوئی۔تاہم وکیل ڈیمیئن سٹرزکر نے 2021 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ آسٹریلوی خواتین یہ مقدمہ اس لیے دائر کر رہی ہیں کیوں کہ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ قطر نے کچھ زیادہ کارروائی نہیں کی۔یہ خواتین قطر کی جانب سے باضابطہ معافی چاہتی تھیں اور ان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ایئر پورٹ اپنے قوائد و ضوابط میں ایسی تبدیلی لائے جس کے بعد ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ کسی عورت کے ساتھ ایسا بہیمانہ اور ذلت آمیز سلوک نہ ہو جیسے ہمارے ساتھ ہوا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}