اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی تینوں درخواستیں خارج کردیں۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
آئی جی اسلام آباد کی جانب سے وضاحت جاری کرنے کے خلاف درخواست خارج کردی گئی۔
تفتیشی افسر اور جائے وقوعہ کا دورہ کرنے سے متعلق درخواست خارج کردی گئی، موبائل نمبر کی اونرشپ معلوم کرنے سے متعلق درخواست بھی خارج کردی گئی۔
نور مقدم قتل کیس کی ایڈیشنل سیشن جج عطاربانی کی عدالت میں سماعت ہوئی، مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور ساتھی ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا، ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے عدالت میں اپنی اہلیہ عصمت جہاں سے ملاقات بھی کی۔
ملزم کے وکیل شہریار نواز خان نے کیس کی سماعت میں کہا کہ ہماری پہلی درخواست سم کی ملکیت سے متعلق ہے، مدعی نے اپنے بیان میں کہا یہ نمبر اس کی اہلیہ کوثر کے نام پر ہے، دیے گئے نمبر کا ریکارڈ منگوا لیں، یہ نمبر کسی اور کے نام پر ہے، آئی جی نے 25 جنوری کوعدالتی سماعت کے بعد آفیشل ٹوئٹر پر وضاحت دی۔
وکیل نے کہا کہ پراسیکیوٹر کا مؤ قف ہے اس پر کسی کے دستخط نہیں، جج نے اس پر کہا کہ پراسیکیوٹر نے وضاحت عدالتی کارروائی پر نہیں بلکہ غلط رپورٹنگ پر دی۔
ملزم کے وکیل نے بتایا کہ زیر سماعت مقدمے میں میڈیا غلط رپورٹنگ کرتا تو کیا آئی جی وضاحت دے سکتا ہے، جو نقشہ موقع پر بنایا گیا اس میں غلط چیزیں شامل کی گئیں، نقشہ موقع میں گھر کے پیچھے رہائشی ایریا دکھایا گیا جبکہ وہاں جاکر دیکھیں تو جنگل ہے۔
وکیل نے جج سے استدعا کی کہ جناب کے پاس اختیار ہے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ 20 جولائی 2021 کو تھانہ کوہسار کی حدود ایف سیون فور میں 27 سالہ لڑکی نور مقدم کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا تھا۔
نور مقدم کے قتل کامقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ کوہسار میں درج ہے، مقدمے میں سابق پاکستانی سفیر شوکت علی نے بتایا کہ ان کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم کو ملزم ظاہر نے تیز دھار آلے سے قتل کیا، پولیس کے مطابق مقتولہ کے جسم پر تشددکے نشانات پائے گئے جب کہ سر دھڑ سے الگ تھا۔
Comments are closed.