بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

نوجوان کوکین کلیکٹرز جو پورے یورپ کو منشیات فراہم کرتے ہیں

روٹرڈیم کی بندرگاہ جہاں سے نوجوان کوکین کلیکٹرز پورے یورپ کو منشیات فراہم کرتے ہیں

  • لنڈا پریسلی اور مائیکل گیلاگر
  • بی بی سی نیوز

"Cocaine collectors" in the Port of Rotterdam, seen on CCTV

،تصویر کا ذریعہKramer Group

،تصویر کا کیپشن

یورپ میں منشیات کی سمگلنگ کا اہم حصہ سمجھے جانے والے کوکین کلیکٹرز کی تعداد بڑھ رہی ہے

سی سی ٹی وی کی سکرین پر ایک درجن کے قریب افراد کو فوجیوں کی طرح روٹرڈیم کی بندرگاہ پر دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ان کی توجہ کا مرکز بندرگاہ پر موجود ایک شپنگ کنٹینر ہے جو کولمبیا سے نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم پہنچ چکا ہے۔ کاغذوں کے مطابق اس کنٹینر کے ذریعے پھل لائے گئے ہیں لیکن ان نوجوانوں کو پھلوں میں کوئی دلچسپی نہیں جو شاید اب تک کنٹینر سے نکالے بھی جا چکے ہیں۔ اس کنٹینر کے ریفریجریشن یونٹ میں چھپائی گئی چار ملین یورو مالیت کی 80 کلو گرام کوکین ان نوجوانوں کا اصل ہدف ہے۔

شاید اسی لیے انھیں کوکین کلیکٹر کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کا کام اس بندرگار پر غیر قانونی طور پر سمگل ہونے والی کوکین کو چوری چھپے شپنگ کنٹینرز سے با حفاظت نکال کر باہر لے جانا ہے تاکہ یہ کوکین ایمسٹرڈیم، برلن اور لندن لے جائی جا سکے۔

یورپ میں منشیات کی سمگلنگ کا اہم حصہ سمجھے جانے والے ان کوکین کلیکٹرز کی تعداد کا تناسب روٹرڈیم کی بندرگاہ پر کوکین کی سمگلنگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔

بی بی سی کو موقع ملا کہ کوکین کی سمگلنگ سے جڑے اس گروہ کی خطرناک سرگرمیوں کی ایک جھلک دیکھ سکے۔ سی سی ٹی وی کی سکرین پر، ایک درجن کے قریب افراد کو فوجیوں کی طرح روٹرڈیم کی بندرگاہ پر دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

A shipping container lift in the Port of Rotterdam

،تصویر کا کیپشن

کوکین کلیکٹر جتنی کوکین کنٹینرز سے نکالتے ہیں عام طور پر ان کو ہر ایک کلوگرام پر دو ہزار یورو ملتے ہیں

’یہ بندرگاہ تو سونے کی کان ہے‘

ماسک سے چہرہ چھپائے ایک شخص ڈچ ٹی وی نیٹ ورک وی پی آر او کے صحافی ڈینی غوسین کو انٹرویو دیتے ہوئے بتاتا ہے کہ ’روٹرڈیم کہ بندرگار ایک سونے کی کان ہے۔‘

’میں گھر کے قریب پیسے کما سکتا ہوں۔۔۔. اور وہاں ہمیشہ کام ہوتا ہے۔’

یہ شخص ان نوجوانوں میں سے ایک ہے جو طاقتور سمگلنگ نیٹ ورک کے ملازم اور کوکین کلیکٹر کا کام کرتے ہیں۔ اس کے مطابق اس کام کے لیے جس کی نوعیت ہر بار مختلف ہوتی ہے کبھی کوئی انھیں رقم کی آفر کرتا ہے تو کبھی کوئی سمگل شدہ منشیات میں سے حصہ دے دیتا ہے۔

کوکین کلیکٹر جتنی کوکین کنٹینرز سے نکالتے ہیں عام طور پر ان کو ہر ایک کلو گرام پر دو ہزار یورو ملتے ہیں اور منشیات کی سمگلنگ کا یہ دھندہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

بندرگاہ میں ایک کنٹینر پروسیسنگ کمپنی کے مالک آندرے کریمر کہتے ہیں، ’ہم نے انھیں پہلی بار تقریباً دو سال پہلے دیکھا تھا۔ پہلے سال میں ایک یا دو بار ایسے کنٹینرز آتے تھے اور ایسے ایک یا دو ہی لوگ تھے لیکن گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہر ہفتے میں تین سے چار بار ایسا ہوتا ہے جبکہ کلیکٹرز کے گروہ بھی دس سے بارہ افراد تک پہنچ چکے ہیں۔‘

روٹرڈیم کی بندرگاہ پر سمگلرز کے ‘ہوٹل’ کنٹینر

جیسے جیسے نیدرلینڈز میں درآمد کی جانے والی کوکین کا حجم بڑھ رہا ہے، سمگلرز کے استعمال کیے جانے والے طریقے بھی زیادہ نفیس ہوتے جا رہے ہیں۔

بعض اوقات وہ کوکین کو بندرگاہ سے باہر نہیں لے جاتے ہیں۔ اس کی بجائے ان کا کام منشیات کو کسی بندرگاہ کے ملازم کی مدد سے مختص کردہ دوسرے کنٹینر میں منتقل کرنا ہے، جسے بعد میں ٹرک کے ذریعے بندرگاہ سے باہر لے جایا جاتا ہے۔ بعض اوقات گینگ بندرگاہ کے اندر بیٹھ کر ہی منشیات کی ترسیل کا انتظار کرتے ہیں۔

کریمر کہتے ہیں ’ہمیں حال ہی میں تین ہوٹل کنٹینرز ملے ہیں جن میں کلیکٹر کئی دن تک رہ سکتے ہیں جہاں وہ کھاتے، پیتے اور اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ہمیں گدے، پانی کی خالی بوتلیں اور کھانے کے ریپر بھی ملتے رہتے ہیں۔‘

لیکن اس ’ہوٹل‘ کنٹینر میں وقت گزارنا کبھی کبھار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

ستمبر کے اوائل میں ایک ایسے ہی ہوٹل کنٹینر میں موجود نو کوکین کلیکٹرز اس وقت مشکل میں آگئے جب کنٹینر کا دروازہ جیم ہو کر کھل نہیں سکا۔

روٹرڈیم پولیس کے سربراہ جین جینس بتاتے ہیں کہ ‘اگر آپ پھل یا لکڑی سے بھرے کنٹینر میں ہوں تو یہ چیزیں بھی آکسیجن کا استعمال کرتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اندر کے لوگوں کے لیے ہوا کم رہ جاتی ہے۔‘

جین کے مطابق عام طور پر کوکین سمگلر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کنٹینر کو اندر سے کھولا جا سکے لیکن اس کیس میں کچھ ایسا ہوا کہ وہ باہر نہیں نکل سکے۔

Rubbish left behind in a "hotel" container, after collectors have departed

،تصویر کا کیپشن

بعض اوقات گینگ کنٹینر کے اندر بیٹھ کر ہی منشیات کی ترسیل کا انتظار کرتے ہیں

جب کوکین سمگلرز نے ایمرجنسی سروس سے مدد مانگی

اس کنٹینر میں پھنسے کوکین کلیکٹرز نے جان بچانے کے لیے آخر کار ڈچ ایمرجنسی سروس کو فون کر دیا۔ روٹرڈیم پولیس کے سربراہ جین جینس کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ تو علم ہو چکا تھا کہ نو افراد ایک کنٹینر میں مشکل میں ہیں لیکن اس بندرگاہ پر تقریبا ایک لاکھ اور کنٹینر موجود تھے اور ان کوکین کلیکٹرز کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان میں سے ان کا کنٹینر کون سا ہے۔‘

ان کے مطابق پوری بندرگاہ کی تلاشی لی گئی جس کے دوران پولیس نے ہیلی کاپٹرز اور کسٹم افسران کی مدد بھی لی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ خوش قسمت تھے کہ ہمیں وقت پر مل گئے۔

لیکن اس تلاش میں تقریبا چار گھنٹے لگے۔ ان کوکین کلیکٹرز کو جب تلاش کیا گیا تو ان کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی جس کے باعث انھیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔

سات سال سے پولیس کے سربراہ جین جینس نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر یہ بتانے سے گریز کیا کہ انھوں نے آخر کار کلیکٹرز کو کیسے ڈھونڈا۔ ان کا جواب یہ تھا کہ ‘بس اتنا سمجھ لیں کہ ہم نے کچھ ہوشیاری دکھائی۔’

یہ بھی پڑھیے

Rotterdam

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روٹرڈیم میں سمگلنگ کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے

‘ہر سال نیا ریکارڈ بنتا ہے’

2014 میں روٹرڈیم حکام نے بندرگاہ سے 5,000 کلوگرام سے زیادہ کوکین پکڑی تھی۔ 2020 میں یہ تعداد 41,000 کلوگرام تھی۔

پولیس چیف جین جینس کے مطابق اس سال ان کا خیال ہے کہ وہ ساٹھ ہزار کلو گرام تک کوکین پکڑ لیں گے۔ ‘ہم ہر سال ایک نیا ریکارڈ بناتے اور توڑتے ہیں۔ مجھے کسی قسم کا فخر نہیں، یہ اچھی بات ہے کہ ہم کوکین پکڑ لیتے ہیں لیکن ہر سال اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

بندرگاہ میں پکڑی جانے والی منشیات غیر قانونی طور پر لائی جانے والی غیر قانونی کوکین کا صرف چھوٹا سا حصہ ہے۔

’ہم تو صرف سیر کرنے آتے ہیں‘

اس ساری کہانی کی عجیب بات یہ ہے کہ ان کلیکٹرز کو پکڑ بھی لیا جائے تو ان پر منشیات سمگلنگ کا جرم ثابت کرنا نہایت مشکل ہے۔

رواں سال ستمبر میں صرف ایک ہفتے کے اندر پورٹ ایریا سے 110 کلیکٹر پکڑے گئے۔ لیکن جب تک وہ رنگے ہاتھوں پکڑے نہیں جاتے، ان کو صرف 100 یورو سے کم جرمانہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ کلیکٹر تو نقدی بھی ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ روکے جانے کی صورت میں موقع پر ہی جرمانہ ادا کر سکیں۔

ڈچ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ایک کلیکٹر کا کہنا تھا کہ ’ہم تو حکام کو کہتے ہیں کہ ہم صرف سیر کر رہے ہیں۔۔۔ ہمیں کنٹینرز بہت پسند ہیں۔ کیا میرے پاس کچھ ہے؟ کیا میرے پاس منشیات ہیں؟ یا کوئی اوزار؟ نہیں، میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔‘

42 کلومیٹر لمبی، روٹرڈیم کی بندرگاہ یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ یہاں روزانہ 23,000 سے زیادہ مال بردار کنٹینرز پروسیس کیے جاتے ہیں۔ کوکین کلیلٹرز کی سرپرستی کرنے والے گروہوں کے کام کو یہاں کی ایک چیز بہت مدد دیتی ہے؛ کرپشن

Rotterdam

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کوکین کلیکٹرز بندرگاہ کے اہلکاروں کو رشوت یا دھمکی دے کر مدد حاصل کرتے ہیں

’کہیں رشوت تو کہیں دھمکی سے کام چلتا ہے‘

کلیکٹر کے مطابق ’اگر آپ صبح یہاں آتے ہیں، تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ آپ کو سیکیورٹی پاس مل جائے گا۔ آپ کسی بھی کام کرنے والے کو کہیں کہ اپنا پاس ایک دن کے لیے پانچ سو یورو کے عوض دے دے۔‘

’ہمارے لیے کسی کسٹم افسر کی مدد کے بغیر کام کرنا مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا کنٹینر ہو جس کا معائنہ ہونا تھا مگر وہ اسے آپ کے لیے معائنہ کی فہرست سے ہٹا دیتا ہے۔‘

جب کوئی کلیکٹر ان سمگلنگ کلیکٹرز سے تعاون کرنے سے انکار کرے تو پھر یہ دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ’جیسے ہی کوئی اہلکار ہمیں نہ کرتا ہے تو ہم اس کے بچوں کو دھمکی دیتے اور لامحالہ وہ اہلکار حامی بھر لیتا ہے۔‘

آندرے کریمر کا کہنا ہے کہ ان کے ملازمین دباؤ میں ہیں کیونکہ وہ منظم جرائم پیشہ گروہوں کی نظر میں ہیں۔ ’کسی سے گھر پر رابطہ کیا جاتا ہے اور دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص کنٹینر کو باڑ کے قریب رکھ دے۔ میرے عملے کے کئی لوگ استعفی دے چکے ہیں کیوں کہ وہ خوف کے مارے یہاں کام ہی نہیں کرنا چاہتے۔‘

’روٹرڈیم شہر میں جرائم بھی سمگلنگ سے جڑے ہیں‘

روٹرڈیم کے چیف پراسیکیوٹر ان کہانیوں سے واقف ہیں۔ ہیوگو ہلینار کہتے ہیں کہ ’شہر میں بہت سے جرائم کا بندرگاہ میں منشیات کے مسئلے سے تعلق ہے۔ ہمارے پاس تقریباً ہر روز فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں۔ دس سال پہلے یہ سڑکوں پر نہیں ہوتا تھا۔ اب تشدد بڑھ رہا ہے۔‘

کوکین کی تجارت کے مہلک اثرات ملک بھر میں پھیل چکے ہیں۔ نیدرلینڈز کے سب سے مشہور کرائم صحافی پیٹر آر ڈی وریس کو جولائی میں ایمسٹرڈیم میں دن دھاڑے قتل کیا گیا۔

نوجوانوں کی مدد کے لیے بنائی گئی فلاحی تنظیم جے او زی کی بانی نادیہ بارکیووا کہتی ہیں کہ ’مجرمانہ تنظیمیں بہت اچھی طرح سے منظم ہیں۔ ان کے سی ای او ہیں، ان کے پاس انسانی وسائل ہیں، ان کے پاس عملہ ہے۔‘

جے اور زی روٹر ڈیم کے جنوبی کنارے پر ایک ایسے پسماندہ علاقے میں نوجوانوں کی فلاح کے لیے پروگرام مرتب دیتی ہیں جہاں سے ایک بڑی تعداد میں کوکین کلیکٹرز کا تعلق ہے۔ یہاں ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی 23 سال سے کم ہے، اور نصف سے زیادہ تارکین وطن ہیں۔

1960 اور 1970 کی دہائیوں میں، نیدرلینڈز آنے والے لوگ بندرگاہ میں روزگار کے مواقع تلاش کرتے ہوئے اس علاقے میں آباد ہوئے۔ لیکن جب صنعتی سرگرمیاں مغرب کی جانب منتقل ہوئیں اور کام ختم ہو گیا تو جو لوگ نقل مکانی کرنے کی استطاعت رکھتے تھے وہ بھی ساتھ گئے، جس سے کم آمدنی والے گھرانوں کی ایک بڑی تعداد رہ گئی۔

جے او زی نوجوانوں کو جرائم سے دور کرنے کی کوشش میں سکولوں، کلبوں اور کمیونٹی سینٹرز کے ذریعے کام کرتی ہے۔

نادیہ بارکیووا کہتی ہیں ’ہمیں انھیں دکھانا چاہیے کہ عام طریقے سے پیسہ کمانا مجرمانہ طریقے سے کرنے سے کہیں زیادہ محفوظ ہے، اور یہ کہ ان کے لیے شہر میں مواقع موجود ہیں۔ بچوں کی اچھی پرورش کرنا تباہ شدہ مردوں کی مرمت کرنے سے زیادہ آسان ہے۔‘

ہلینار کہتی ہیں ’ہمارے پاس 14 یا 15 سال کے لڑکے یہ کام کر رہے ہیں، اور یہ پریشان کن ہے۔ کلیکٹرز کی عمریں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔‘

روٹرڈیم میں ‘وائٹ کرسمس’ کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن کوئی بھی برف کا ذکر نہیں کر رہا ہے۔ ادھر ہلینار کے پاس کوکین استعمال کرنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔ ’روٹرڈیم شہر میں ہر روز کوکین کی 40,000 لائنیں سونگھی جاتی ہیں۔ ہر لائن جو آپ سونگھتے ہیں اس کی تاریخ تشدد، بھتہ خوری اور موت کی ہوتی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.